1,172

امیرجان حقانی کے ساتھ ایک فکر انگیز مکالمہ

مرتب ومکالمہ: حافظ محمد فہیم علوی

(ایڈیٹر ماہنامہ صراط مستقیم فیصل آباد)

 

(فاضل جامعہ فاروقیہ، اسسٹنٹ پروفیسر پوسٹ گریجویٹ کالج گلگت، ریسرچ اسکالر علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی،قلم کار، کالم نگار، ویب بلاگر)

 

سوال: تاریخ پیدائش،ابتدائی تعلیم اور خاندانی پس منظر سے آگاہ کیجیے۔

جواب:          امیرجان میرا نام ہے۔ حقانی تخلص ہے۔ والد گرامی کا نام شہزادہ خان ہے۔ دادا ابراہیم خان بن دوران خان بن نمبردار قربان ہے۔گلگت بلتستان کا قدیم علاقہ گوہرآباد ضلع دیامر چلاس سے تعلق ہےشناختی کارڈ کے مطابق میری تاریخ پیدائش  دو جنوری انیس سو پچاسی( 1985/01/02) ہے۔ابتدائی تعلیم گوہرآباد ہائی اسکول، سٹیلائٹ ٹاؤن پرائمری اسکول چلاس اور گورنمنٹ ہائی سکول چلاس سےحاصل کیا ہے۔دسمبر 1999میں گوہرآباد ہائی اسکول سے جماعت ہشتم پاس کیا۔نورانی قاعدہ کا کچھ حصہ گھر میں اور باقی گوہرآباد کے معروف قاری، جناب قاری اشرف صاحب سے پڑھا، آخری دو پارے بھی قاری صاحب سے حفظ کیے۔2000ء کو اپنے عم مکرم موسی ولی خان کے ساتھ کراچی سدھار گیا  وہاں 2003ء تک حفظ مکمل کیا  اور ساتھ ہی کراچی بورڈ سے پرائیوٹ میٹرک پاس کیا۔حفظ جامعہ انوارالعلوم، جامعہ اشرف العلوم کورنگی اور دارالعلوم عربیہ تحفیظ الرحمان گلستان جوہر سے کیا۔قرآن کا دورہ  ،قاری طاہر رحیمی کے شاگر قاری فضل الرحمان سے کیا۔

سوال: بچپن کی کچھ حسین یادیں ، قارئین کے ساتھ شیئر کریں گے۔

جواب:    بچپن کا مطلب ہی حسین ہے تو یوں کہا جاسکتا ہے کہ بچپن کی ساری یادیں حسین ہیں۔ہمارا بچپن گاؤں میں گزارا ہے۔ کچھ اوقات چلاس شہر میں بھی بغرض تعلیم گزرے ہیں،  تاہم سارا بچپن  کا پس منظر دیہاتی ہے۔ بہت ساری شرارتیں کی۔درختوں پر چڑھ کر پھل اتارنا خاص مشغلہ تھا۔ ماموں لوگوں کی بکریاں تھی۔ کزنز کے ساتھ بکریاں چرانے چلے جاتا۔ بکریوں کی باقاعدہ پٹائی کرتا جیسے اساتذہ طلبہ کی پٹائی کرتے ہیں۔بچپن میں  گلی ڈنڈا، بسرا، والی بال  بڑے شوق سے کھیلتا۔گھر سے باہر کبھی چوری نہیں کی، البتہ اپنے والد صاحب کے پیسے چرائے۔خاص صندوق کی چابی ہاتھ لگی تھی ۔ تو آہستہ آہستہ پانچ چھ ماہ میں بہت سارے پیسوں پر ہاتھ صاف کیا۔ یہ غالبا جماعت ہفتم کی بات ہے۔ تب میں اکلوتا بھائی ہوتا تھا ۔ کوئی کچھ نہیں کہتا۔اپنے کزن کیساتھ ملکر اپنے تایا چاچا  کے جیب پر بھی کھبی کبھار ڈاکہ مارلیتے۔بچپن میں دادا دادی، نانا ، نانی کا بے حد پیار ملا۔ ایک دفعہ گھر سے بھاگ کر ماموں کے پاس چلا گیا تھا۔ ایک دفعہ شیشے کے پیالے توڑ کر گاؤں میں ایک گھر سے بھاگ کر دوسرے گھر جہاں دادا دادی رہتے تھے پہنچ گیا تھا۔رات بھر میری تلاش جاری رہا۔جب رات کو والد صاحب لوگ مجھے ڈھونڈ کر دادا جی کے ہاں پہنچے ، میں دادا کیساتھ سویا ہوا تھا، والد صاحب نے مارنا چاہا تو دادا نے ان کی خوب خبر لی ۔ یہ مجھے جوانی کے بعد معلوم ہوا۔یعنی ابو کو لینے کے دینے پڑگئے۔

سوال: ادب کی طرف رجحان سبب کیا بنا؟

جواب:        یہ تو ذہن میں نہیں کہ بچپن میں ادب سے وابستہ ہونے کا کیا سبب بنا ، البتہ میرے چاچا مولوی موسی ولی خان کی گھر میں سینکڑوں کتب موجود تھی اسی طرح تایا عذر خان صاحب بہت ہی مطالعہ کرنے والے انسان ہیں۔ گھر میں اخباراات بالخصوص جنگ اور اخبارجہاں بہت زیادہ آتے تھے۔ان میں کہانی بڑی شوق سے پڑھتے۔تیسری جماعت سے اخبار پڑھنے کا معمول بن گیا تھا۔نوائے وقت بھی پڑھتا تھا۔تایا   روزنامہ ڈان بھی لاتے لیکن ہم وہاں صرف تصاویر دیکھتے اور ڈان اخبار سے کتابوں اور کاپیوں کی جلدیں بناتے۔مجھے یاد نہیں پڑتا کہ جماعت ہشتم سے پہلے کوئی ادبی کتاب بالاستیعاب پڑھی ہو، تاہم کراچی جانے کے بعد حفظ کے ساتھ ادبی کتب کا رجحان پیدا ہوا۔اشرف العلوم میں ضرب مومن  خریدتا اور مفتی عاشق الہی ؒ، شیخ حکیم اخترؒ اور مفتی تقی عثمانی مدظلہ کی بہت ساری کتابیں اور رسائل حفظ کے پہلے سال پڑھا۔ ساتھ ساتھ نویں کی  تیاری بھی کرتا تھا۔ حفظ کے آخری سالوں میں نسیم حجازی کے کئی ناول ایک رات میں ایک مکمل کرتا۔ ان دنوں جنگ اخبار کے کالم بلاناغہ عصر کے بعد ہوٹل میں پڑھتا۔

سوال: تعلیمی سفر کے آغاز اور اختتام پر کچھ روشنی ڈالیں۔

جواب:  تعلیمی سفر کا آغاز نورانی قاعدہ اور سکول کی قاعدہ میں الف ب سے شروع ہوا۔پہاڑہ یاد کرتے کرتے پہلا سال بیت گیا۔اور تعلیمی سفر کا اختتام نہیں ہوا۔ 2020 میں ایم فل مکمل کیا۔اب ڈاکٹریٹ اور پوسٹ ڈاکٹریٹ کا سفر جاری ہے۔ تاہم 2002 میں حفظ مکمل کیا۔2010 میں جامعہ فاروقیہ سے درس نظامی کی تکمیل کی۔ وفاقی اردو یونیورسٹی سے ابلاغیات میں ماسٹر کیا ، کراچی یونیورسٹی سے پولٹیکل سائنس میں ایم اے، قراقرام انٹرنیشنل یونیورسٹی سے  بی ایڈ اور علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے  فکراسلامی، تاریخ و ثقافت میں  ایم فل کیا۔علامہ اقبال اوپن یونی سے اے ٹی ٹی سی بھی کیا ہے۔

سوال:  آپ نے ابلاغیات، دینیات اور سیاسیات میں ماسٹر کیا اور ڈگریاں حاصل کی۔متنوع موضوعات کے انتخاب کی خاص بات؟

جواب:  میں نے دیہات میں ہی اسکول کے ساتھ حفظ شروع کیا تھا تو شروع سے ہی دینی تعلیم کیساتھ عصری تعلیم حاصل کرنے کا شوق تھا۔ ویسے بھی میں تعلیم میں دوئی یعنی عصری اور دینی کی تقسیم کا قائل نہیں ہوں۔  تعلیم بس تعلیم ہے۔ اس میں تقسیمات کا عنوان ہی اچھا نہیں لگتا۔ ہاں اپنے ذوق کے مطابق کسی خاص مضمون میں اختصاص ضروری ہے۔ جب بی اے  کررہا تھا تو اس وقت میں نے کالم لکھنا شروع کیا تھا۔ خامسہ کے سال ، ہفت روزہ چٹان گلگت  اور کے ٹو گلگت میں میرے کالم چھپنا شروع ہوئے تھے پھر سادسہ کے سال اسلام اخبار کے تعلیمی صفحہ پر میرا ایک فیچر شائع ہوا تھا جو پورے صفحے پر مشتمل تھا۔سائنس ڈائجسٹ کے مدیر رضی الدین صاحب سے لیاقت لائیبریری میں دوستی ہوئی تھی۔ ان سے مشورہ کیا تو انہوں نے فرمایا ” پاکستان میں صحافت اور کالم نگار ی کے لیے دینیات اور سیاسیات پراچھی گرفت ہونا ضروری ہے۔ چونکہ آپ لکھنے کے حوالے سے شوقین ہیں ۔ صحافت میں ماسٹر بھی کرنا چاہتے ہیں تو پولٹیکل سائنس میں بھی ماسٹر کریں۔ یوں وفاقی اردو یونیورسٹی سے ریگولر ایم اے صحافت کیا   اور کراچی یونیورسٹی سے پرائیوٹ ایم اے پولٹیکل سائنس میں کیا۔میں پاکستانی مدارس کا پہلا طالب علم جس نے درس نظامی(سادسہ و سابعہ) کے ساتھ ساتھ ریگولر ایم اے صحافت کیا۔یوں آج تک عصری علوم و دینی علوم کا طالب علم بھی ہوں اور استاد بھی۔دونوں قسم کے بڑے اداروں سے عملی طور پر منسلک بھی ہوں۔اس حوالے سے اچھے تجربات ہیں۔ مزید بھی تجربات ہورہے ہیں۔

سوال: پوری تعلیم کراچی سے حاصل کی ہے۔ کراچی کو کیسے دیکھتے ہیں؟

جواب:        پورا کراچی میری  مادر علمی ہے۔کراچی کے پانچ دینی مدارس اور دو یونیورسٹیوں سے تعلیم حاصل کی ہے۔ لیاقت لائبیریری میں سالوں جاتا رہا۔ اردو سے محبت کی وجہ کراچی ہی ہے۔ زندگی کی گیارہ بہاریں کراچی میں گزری ہیں۔جامعہ فاروقیہ میں سات سال گزارے۔بہرصورت گلگت شہر اور کراچی کے دل میں جو وسعت ہے وہ بہت کم شہروں کے حصے میں آئی ہے۔ پورا پاکستان کراچی میں بستا ہے۔ اور پورا گلگت بلتستان ، گلگت شہر میں بسیرا ڈالا ہوا ہے۔اب بھی مستقل سکونت کے لیے  ملک بھر کے کسی شہر کا انتخاب کرنا پڑے تو کراچی کا ہی انتخاب کرونگا۔کراچی میں تہذیب بھی ہے ، علم بھی ہے، دولت بھی ہے اور سچ کہوں تو انسانیت بھی ہے۔کراچی میں مجھے سب سے اچھے اردو سپیکنگ والے لگے ہیں۔یعنی مہاجر۔

سوال:  کیا دینی علوم کیساتھ جدید عصری علوم و فنون کی تحصیل ضروری ہے؟ کیا دونوں کا حصول ساتھ ساتھ ممکن ہے؟

جواب:       یہ سوال مجھ سے سینکڑوں دفعہ ہوا ہے۔ میرے کئی دوستوں کا سوال یہ ہے کہ میں دینی علوم کے ساتھ جدید فنون کا پخ کیوں لگاتا؟ اور دونوں میں بُعد ہے لہذا ایک ساتھ تحصیل کیسے ممکن ہے؟ اسکا مختصر خاکہ/ جواب ملاحظہ ہو۔
میرے کئی ایسے دوست ہیں جو عالم ہونے کیساتھ کسی عصری فن کے بارے میں آگاہی بھی رکھتے ہیں اور ڈگری بھی حاصل کررکھی ہے۔
مثلا میرے ایک دوست ایم بی اے ہیں۔ذیشان پنجوانی جو کراچی کے میمن ہیں۔جامعۃ العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاون کے فاضل اور جامعۃ الرشید سے ایم بی اے کیا ہوا ہے۔ وہ قرآن اور حدیث میں بیان کردہ مالیاتی و تجارتی احکام و امور مجھ سے بدرجہ ہا بہتر سمجھتے ہیں.وہ بہت سے اسلامی مالیاتی مباحث کو سلیس انداز میں بیان کرتے ہیں جو مجھے درست سمجھ میں بھی نہیں آتے. کیونکہ میں جدید معاشیات کی ابجد سے بھی واقف نہیں۔
کئی عالم دوست ایل ایل بی، ایل ایل ایم،وکلاء اور ججز ہیں۔یقین کیجے وہ قرآنی قوانین اور فقہ و اصول فقہ کے مباحث بیس بیس سال فقہ کی تدریس کرنے والوں سے زیادہ باریک بینی کیساتھ سمجھتے ہیں۔اور جدید ریاست کے عدالتی اور قانونی معاملات کی اسلام کی روشنی میں درست تفہیم رکھتے ہیں۔ اور دوران مکالمہ بیان بھی کرتے ہیں۔
کچھ عالم دوست ایم ایجوکیشن ہیں، وہ بہر صورت اسلام کا نظام تعلیم، نصاب تعلیم اور طرق تدریس مجھ سے ہزار گنا بہتر سمجھتے ہیں۔
کچھ ایم اے اردو ہیں جن کا درس قرآن و حدیث اور دینی موضوعات پر گفتگو بہت شائستہ، سلیس اور قابل فہم ہوتی، وہ جدید ذہن کو فورا اپیل کرجاتی ہے۔ان کی زبان بہت بااثر ہوتی اور گفتگو اشعار و محاورات سے مملو ہوتی۔محاروہ و روزمرہ کو خوب استعمال کرتے ہیں۔
میں نے ایم اے ماس کمیونیکیشن اور ایم اے پولیٹیکل سائنس کیا ہوا ہے۔مجھے اندازہ ہے کہ میں اپنے ہم عمر فضلاء دوست، جنہوں نے صرف درس نظامی کی تکمیل کی ہیں سے، اسلام کا نظریہ اقتدار اعلی، نظام حکومت، طرز ہائے حکومت، شعبہ جات،آئین و قانون سازی، اولوالامر، شورائی نظام، انتخاب حاکم اور معاشرہ و فیملی سسٹم زیادہ بہتر طریقے سے بیان کرسکتا ہوں۔ وہ صرف اس لیے کہ مجھے قدیم و جدید طرق ہائے حکومت اور کچھ مغربی و مشرقی سیاسی مفکرین اور جدید دنیا کے آئین پڑھنے اور پڑھانے کا موقع ملا ہے۔اگر مجھے علم سیاسیات اور اسلامی علوم میں مزید تعلیم حاصل کرنے کا موقع مل جاتا تو یقینا میں کافی کام کرسکتا تھا مگر ایسا نہ ہوسکا۔ مبادیات کی حد تک رہ گیا۔
اگر ہمارے احباب کو بنیادی عربی و اسلامی علوم کی تحصیل کے بعد قرآن و حدیث کیساتھ اپنے ذوق کے عصری مضامین پڑھنے کا موقع فراہم کیا جاوے تو بعید نہیں کہ جدید دنیا کی ہر فیلڈ کے اسلامی  ماہرین تیار ہوں اور ان کے پاس اسلامی علوم کا بڑا حصہ بھی محفوظ ہو۔وہ آج کی دنیا کے مسائل اور معاملات کو دینی احکامات کا رعایت کرتے ہوئے چلاسکیں۔
مثلا میٹرک کے بعد آٹھ سالہ نظام میں ابتدائی چار سالوں مین قرآن وحدیث کیساتھ صرف و نحو اور عربی و انگریزی کلاسز ہوں۔ اگلے چار سالوں میں قرآن و حدیث کیساتھ کسی ایک مضمون مثلا معاشیات، لاء، ٹیکنالوجی، ایجوکیشن، فزکس، کیمسٹری، بیالوجی یا کسی اور مضمون کے مبادیات اور اعلی کتب پڑھائی جائیں۔
مثلا ان چار سالوں میں ہر سال، تین تین مضامین قرآن و حدیث کے ہوں باقی چار چار مضامین اسی مخصوص مضمون( مثلامعاشیات یا  ایجوکیشن، سوشیالوجی وغیرہ) کے ہوں۔ تو اسی مضمون کی سولہ کتب بالاستیعاب استاد سے پڑھنے کے بعد طالب علم قرآن و حدیث کیساتھ متعلقہ فن کا بھی بڑی حد تک ماہر ہوسکتا ہے۔یہی ترتیب مدارس اور سرکاری جامعات میں آسانی سے لاگو کی جاسکتی ہے، ایسا سلیبس اور تعلیمی نظام  ڈیزائن کیا جاسکتا ہےاور ان تمام مضامین کے لیے اساتذہ بھی آسانی سے مل سکتے ہیں۔ آج تو ہر مضمون کے ایم فل اور پی ایچ ڈی لوگوں کی بہتات ہے۔ایم اے کے بعد یہی طلبہ متعلقہ مضمون میں قرآن و حدیث کے تجزیہ و تحلیل اور استدلال کیساتھ تخصص(ایم فل، ایم ایس، ڈاکٹریٹ اور پوسٹ ڈاکٹریٹ) کریں تو ان کی تحقیقات سے پوری دنیا استفادہ کرسکتی ہے. بہر صورت اس کو مزید وضاحت سے بیان کیا جاسکتا ہے۔

اگر مدارس و جامعات اور یونیورسٹیاں ایسا نصاب تعلیم مرتب  کرتی ہیں تو یہ پاکستان کی تقدیر بدلنے کی شروعات ہونگی۔ البتہ موجود ہ سسٹم میں درس نظامی کیساتھ کالج یونیورسٹی کی تعلیم یا کالج یونیورسٹی کی تعلیم کیساتھ درس نظامی کی تحصیل بہت مشکل اور صعب کام ہے۔ بہت سارے لوگ میری طرح تجرباتی عمل سے گزر رہے ہوتے ہیں لیکن کمال جامعیت کے ساتھ ان علوم میں دسترس حاصل نہیں کرسکتے۔ دونوں کا ساتھ ممکن تو ہے البتہ دشوار بہت ہے۔ ادارہ علوم اسلامی بارہ کہو اسلام آباد اور دیگر کچھ ادارے کافی عرصے سے دونوں کے” امتزاج والا” تجربات کررہے ہیں۔ خاطرخواہ نتائج برآمد ہورہے ہیں۔

 سوال: دینی جامعات، کالج اور یونیورسٹی میں جن اساتذہ سے فیض اٹھایا، ان کا کچھ ذکر ہوجائے۔

جواب:        میرے تمام اساتذہ میرا فخر ہیں۔حفظ سے لے کر ایم فل تک کے تمام اساتذہ قابل احترام ہیں۔جامعہ فاروقیہ میں سات سال بتائے۔استادمحترم مولانا عبداللطیف، مولانا حبیب اللہ زکریا،مولانا ولی خان المظفرسے بہت قریبی تعلق رہا۔ مولانا ولی خان المظفر سے بہت انسپائریشن لی۔ وہ طلبہ کو آگے بڑھنے میں بے حد اکستاتے۔استاد منظور مینگل سے بھی بڑی دل لگی ہوتی تھی۔مولانا یوسف افشانی جیسے بزرگ سے بھی بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ جامعہ فاروقیہ کے لائبیریرین مولانا خادم الرحمان میرے اچھے دوست تھے۔استاد محترم مولانا عبدالستار(بیت السلام) سے بھی بہت رہنمائی لی۔اب تک ان سے گہرا تعلق ہے۔باقی اساتذہ کی فہرست بہت طویل ہے۔وفاقی اردو یونی ورسٹی میں ڈاکٹر توصیف سے پڑھا۔بڑے لبرل اور دلچسپ انسان تھے۔ ڈاکٹر وحیدالرحمان(یاسررضوی) سے ماس کمی نیکیشن میں کئی سبجکٹ پڑھے۔تب وہ کراچی یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کررہے تھے جامعہ اردو میں پڑھا رہے تھے۔ ہمارے بعد، جامعہ کراچی کے شعبہ ابلاغیات کے پروفیسر بنے تھے انہیں شہید کردیا گیا۔ میرے بہت اچھے استاد تھے۔میری بطور لیکچرر تقرری پر بے حد خوشی کا اظہار کرکے ایک طویل میسیج بھی کیا تھا۔ایم فل میں بھی بہت سارے اساتذہ سے استفادہ کیا۔ڈاکٹر طفیل ہاشمی، ڈاکٹر علی اصغر چشتی، ڈاکٹرحافظ سجاد، ڈاکٹر معین الدین ہاشمی اورسے خوب استفادہ کیا۔ ایم فل میں میرے سپروائزر ڈاکٹر محی الدین ہاشمی تھے۔ اتنے شفیق، ہمدرد اور دوستانہ ماحول بنانے والے کم اساتذہ ہوتے ہیں۔وہ کلیہ عربیہ و علوم اسلامیہ کے ڈین بھی تھے اور  شعبہ فکر اسلامی تاریخ و ثقافت کے چیئر مین بھی اور ساتھ ہی ایم فل کے داخلوں کے کوارڈینٹر بھی تھے۔چار سال کے طویل عرصے میں کبھی ہلکی سی خفگی کا مظاہرہ بھی نہیں کیا۔

بخاری شریف کا کچھ حصہ استادالحمدثین مولانا سلیم اللہ خان نوراللہ مرقدہ، کچھ حصہ استاد محترم مولانا انورصاحب مدظلہ اور کچھ حصہ ڈاکٹر عادل خان شہید سے پڑھنے کی سعادت حاصل ہوئی۔مولانا سلیم اللہ خان ؒ اور مولانا انورصاحب کی مستقل مزاجی اور درس حدیث سے محبت کا یہ عالم تھا کہ حدیث پڑھاتے تھکتے نہیں تھے ۔ان کے ہاں غیرحاضری کا خیال ہی نہیں تھا۔ ڈاکٹر عادل خان شہید جیسے تحریکی اور وژنری انسان کم دیکھنے کو ملے ہیں۔اللہ ان کو غریق رحمت کرے۔ایک ایک استاد کا ذکر مشکل ہے ورنا بہت طویل فہرست ہے۔ اللہ سب کا فیضان جاری وساری رکھے۔

استادمحترم مولانا ابن الحسن عباسی سے میرا گہرا تعلق تھا۔کمال کے لکھاری تھے۔ بیسویں کتابیں لکھی ۔ ان کی مشہور زمانہ کتاب متاع وقت اور کاروان علم کئی بار بالاستیعات پڑھی۔ اب تک پڑھ رہا ہوں۔میری تحریر میں مولانا حبیب زکریا کے ساتھ عباسی صاحب کی بہترین رہنمائی شامل ہے۔

سوال: تدریس کے سفر کا آغاز کب کیا؟

جواب:        جولائی 2010 میں جامعہ فاروقیہ سے فراغت ہوئی تھی۔تب گلگت بلتستان کالجز میں لیکچرار کی اسامیاں مشتہرہوئی تو علم سیاسیات کے استاد کے لیے اپلائی کیا۔ ستمبر 2010 سے ستمبر 2011 تک ٹیسٹ انٹرویو کے مراحل سے گزرا۔ تحریری ٹیسٹ اور انٹرویو کے درمیان پورا ایک سال تھا۔ اسلام آباد کے ایک مدرسے میں تین ماہ   متوسطہ سال سوم  کی بہشتی گوہرپڑھایا۔اسی دوران  میں ہی  سالانہ تعطیلات میں گوجرخان  کی جامعہ علی المرتضی میں عربی لینکویج کا کورس کرایا۔جس میں طلبہ کے ساتھ چند علماء بھی تھے۔ستمبر 2011 میں بطور پولٹیکل سائنس کے استاد ، پوسٹ گریجویٹ کالج گلگت میں جوائنگ دی۔فرسٹ آئیر کی سوکس اور فورتھ آئیر کی پولیٹیکل سائنس پڑھانا شروع کیا اور ساتھ ہی جامعہ نصرۃ الاسلام میں بھی تدریس شروع کی جہاں پہلے سال زاد الطالبین، معلم الانشاء اور قصص النبین پڑھایا۔ دوسرے سال قدری و اصول شاشی پڑھانا شروع کیا جو مسلسل تین سال پڑھایا۔مدرسے کے طلبہ کو میٹرک کی تیاری بھی کراتا، جہاں انہیں انگلش گرائمر خصوصیت کے ساتھ پڑھاتا رہا۔2015 اور 2016 چلاس کالج پوسٹنگ ہوئی تھی۔ کالج کے ساتھ میرے دوست مولانا سمیع الحق کی بنات کا مدرسہ ہے جہاں قدروری، تیسرمصطلح الحدیث،شرح مائتہ عامل اور مختارات من ادب العربی پڑھایا۔ 2018 سے مدرسے میں تدریس کا سلسلہ رک گیا ہے تاہم کالج میں جاری وساری ہے۔جمعہ کو بالترتیب درس قرآن دیتا۔ یہ بھی کلاس روم کا درس جیسا بیان ہوتا ہے۔تدریس کی ایک شکل یہ بھی ہے۔

سوال: آپ کے مطالعے کا معمول کیا ہے؟ اس حوالے سے کیا اصول وضع کیے ہیں؟

جواب:       زمانہ طالب علمی  درسی کتب کے علاوہ کئی ادبی کتب کا مطالعہ استاد ابن الحسن عباسی کی نگرانی میں کیا۔ جمعرات اور جمعہ کے دن  ہفت روزہ القلم، ضرب مومن  اور ادبی  کتب کا مطالعہ مسلسل سات سال کیا۔فاروقیہ میں جمعہ  اورجمعرات کا بڑا وقت ملتا تھا جس میں ادبی کتب کا مطالعہ کرتا۔

مطالعہ کے حوالے سے میرا معمول یہ ہے کہ ہسپتال کے دروازے پر بھی کچھ نہ کچھ پڑھ لیتا ہوں۔ گزشتہ سات اٹھ سالوں سے مطالعہ کرنا اتنا سہل ہوا ہے کہ آدمی کہیں پر بھی بیٹھ کر آن لائن  کتب و رسائل کی تحریریں اور پی ڈی ایف بکس کا مطالعہ کرسکتا ہے۔میرا تو یہی معمول ہے۔میرے نزدیک مطالعہ،  موبائل کی سکرین پر کسی ادبی شہہ پارے  کا ہو یا محقق کتب  کا، بہر صورت سب مطالعہ کہلاتا ہے۔میں موبائل کے سکرین سے بھی اتنا ہی فائدہ اٹھاتا ہوں جتنا مجلد کتابوں سے۔اس لیے دن کے ہر لمحے مطالعہ جاری رہتا ہے۔کئی سالوں سے اہم اخباری کالم موبائل پر ہی پڑھتا۔اور مختصر کالمز بھی موبائل پر ہی لکھ کر اخبارات اور ویب سائٹس کو ارسال کرتا۔

ایک بات ، پرنٹڈ کتاب کے مطالعہ کا اپنا الگ مزہ ہوتا ہے۔ طبع شدہ کتاب کے مطالعہ میں کچی پنسل ساتھ رکھتا ہوں۔ اہم پوائنٹ کی نشاندہی کرتا ہوں اور ضرورت محسوس کیا تو نوٹس بھی کتاب کے حاشیہ میں ہی لکھتا ہوں۔تاریخ بھی لکھتا ہوں کہ کب کس وقت کس صفحے پر پہنچا ہوں۔میرے ایک دوست ہیں پروفیسر احمد سلیم سلیمی صاحب، وہ ادبی کتب عنایت کرتے ہیں۔اور میں بڑے شوق سے پڑھتا بھی ہوں اور کمنٹس بھی لکھتا ہوں۔ ان کی دسیوں کتب پر بالاستیعاب  مطالعہ کے بعد طویل طویل کمنٹس لکھے ہیں۔

ایک ترتیب جو البتہ خاص ہے۔ رمضان المبارک میں  تفاسیر کا مطالعہ، ربیع الاول میں سیرت کی کتب کا مطالعہ، محرم  الحرام میں اہل بیت  پر مشتمل کتب کا ترجیحی بنیادوں پر مطالعہ کرتا ہوں۔اس کے علاوہ ریسرچ اور مختلف موضوعات اور ریڈیوپاکستان کے دینی  لیکچرز کے لیے سیلکٹڈ کتب کا مطالعہ کرتا ہوں۔ گوگل سے متعلقہ موضوع پر مواد جمع کرتا ہوں اور ان خاص موضوعات کا مطالعہ بھی چلتا ہے۔اصل مطالعہ یہی ہے جو کتاب کا بالاستیعاب کیا جائے۔

سوال: آپ کی پسندیدہ یا محسن کتابیں کون کونسی ہیں؟

جواب:         یہ بہت مشکل سوال ہے۔ سوال سے زیادہ اس کا جواب مشکل ہے۔ ایک طالب علم کے لیے اس سوال کا جواب دینا بھی مشکل ہے اور کتابوں کا احاطہ بھی مشکل ہے۔تفاسیر قرآن میں  معارف القرآن  لشیخ ادریس کاندھلوی، امام رازی کی احکام القرآن،صابونی کی صفوۃ التفاسیر، تفسیر عثمانی،تفہیم القرآن اور ترجمان القرآن اور آسان ترجمہ قرآن سے سب سے زیادہ استفادہ کیا۔دوران طالب علمی  تفسیر عثمانی کا بڑا حصہ بار بار پڑھا۔

شروحات حدیث میں شیخ سلیم اللہ خان کی کشف الباری، اور دیگر صحاح ستہ کی اردو شروحات شروحات ، بذل المجہود، ابن حجر عسقلانی کی فتح الباری،اور معارف الحدیث سے حتی المقدور استفادہ کیا۔کشف الباری کی کئی جلدیں بالاستیعاب پڑھی ہیں۔سچ کہوں تو کشف الباری سے محقق، سہل اور معیاری شرح بخاری شریف کی اردو میں کوئی نہیں۔

سیرت میں  رحمۃ اللعالمین، الرحیق المختوم،سیرۃ مصطفی، سیرت النبی(شبلی نعمانی) اور ضیاء النبی ، سے بھرپور استفادہ کیا۔مولانا نافع صاحب ؒ کی رحماء بینہم سمیت تمام کتب شاندار اور انتہائی عالمانہ ، محققانہ اور اعتدال و شائستگی پر مبنی ہیں۔

ناول میں احمد ندیم قاسمی کی  خدا کی بستی، قدسیہ بانو کی راجہ گدھ، قدرت اللہ شہاب   کا یاخدا،عنایت اللہ کی میں کسی کی بیٹی نہیں، عمیرہ احمد کی  پیرکامل،آگ کا دریا،احمد سلیم سلیمی کا دشت  آرزو بہت اچھے لگے ہیں۔ اور نسیم حجازی ، عنایت اللہ  کے تمام ناول، محی الدین نواب اور اسلم رہی کے کچھ ناول بہت اچھے لگے۔

سوانح عمریوں اور آپ بیتیوں میں آپ بیتی شیخ زکریا،دیوان سنگھ مفتون کی ناقابل فراموش اور سیف و قلم، یادوں کی بارات،دارالعلوم دیوبند میں بیتے آیام،اور ٹوٹ گئی زنجیر،یہ خاموشی کہاں تک،میرا فسانہ وغیرہ بہت شوق سے پڑھا۔

تاریخ میں البدایہ والنہایہ المعروف تاریخ ابن کثیر،جریرطبری کی تاریخ الامم والملوک، تاریخ اسلام معین الدین ندوی، تاریخ دعوت و عزیمت،مولوی حشمت اللہ کی تاریخ جموں، پروفیسر احمد حسن دانی کی تاریخ گلگت سے ضرورت کے مطابق استفادہ کیا۔

وفیات میں یادرفتگاں، نقوش رفتگاں، مالک رام کی وہ صورتیں الہی،شورش کاشمیری کی نورتن کمال کی کتب ہیں۔

انٹرویوز میں  پروفیسرخورشید احمد کی، ملاقاتیں کیا کیا، اور جاویدچوھدری کی گئے دنوں کے سورچ بہت ہی اچھی لگی ہیں۔ اس طرح کچھ بڑوں سے انٹرویوز کرکے لکھنے کی مشق بھی کی ہے۔

خطوط میں  غبار خاطر، بڑے لوگوں کے خطوط اور مولانا سمیع الحق کے نام مشاہیر کے خطوط انتہائی شاندار ہیں۔

سفرناموں میں  دنیا مرے آگے،جہان دیدہ،دریائے کابل سے دریائے یرموک تک،گوروں کے دیس میں،علامہ اسد کا روڈ ٹو مکہ(شاہرہ مکہ)، انبیاء کی سرزمین بہت اچھی لگی۔

شاعری کی تشریحات میں مطالب اقبال اور نقوش اقبال بھی شاندار ہیں۔

فکر و نظر میں  تفہیمات، تعبیر کی غلطی، مختارالدین شاہ کی دہریت سے اسلام تک،ڈاکٹر محمد فاروق کی کتب، اور جاوید احمد غامدی صاحب کی کتب سے ٹھیک ٹھاک استفادہ کیا ہے۔

کیرئیر کونسلنگ اور گائیڈینس میں متاع وقت اور کاروان علم، قیمۃ الزمن عندالعلماء،شاہراہ زندگی پر کامیابی کا سفر،اسٹیفن  آر ،کوے کی کتب کے اردو تراجم میں ”پراثر لوگوں کی سات عادات، ” لیڈر شپ اور ضروری کام پہلے،قاسم علی شاہ   کی جملہ کتب،عارف انیس کی صبح بخیر زندگی، ابوالحسن علی ندوی پاجاجاسراغ زندگی، عائض قرنی کی لاتحزن۔وغیرہ سے استفادہ جاری ہے۔

ابوالکلام آزاد ، شورش کاشمیری ، ابوالحسن علی ندوری،او رمولانا مودودی کی ہر ہر کتاب میری پسندیدہ کتب میں شامل ہیں۔ میرے استاد محترم مولانا ابن الحسن عباسی کی جملہ کتب کا بالاستیعاب مطالعہ کیا ہے۔ ان کی کتاب  متاع وقت اور کاروان علم نے میری زندگی کا رخ بدل دیا ہے۔مطالعہ کے حوالے سے ان کی کتاب ” یادگارزمانہ شخصیات کا احوال مطالعہ” اپنی نوعیت کی شاندار کتاب ہے۔ یہ کتاب داراصل  ماہنامہ النخیل کا خصوصی شمارہ ہے جو بہتر کتاب بن گئی ہے۔ افسوس کہ کتاب کی اشاعت کے بعد استاد محترم دنیا سے رخصت ہوئے۔

ان چند کتب اور مصنفین کے نام یاد آرہے تھے عرض کیا ورنا کتابوں کی فہرست بہت طویل ہے جن سے برابر استفادہ کیا۔اور استفادہ جاری و ساری ہے۔

سوال:  عام آدمی کو مطالعہ کی طرف کس طرح راغب کیا جاسکتا ہے؟

جواب:         عام آدمی کیا، آج تو اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ ریگولر مطالعہ نہیں کرتے۔مجھے نہیں لگتا پاکستانی لوگ مطالعہ کا روگ پالیں گے۔تاہم پھر بھی ایک طالب علم ہو یا عام آدمی اس کو مطالعہ کی طرف راغب کیا جانا چاہیے۔سوشل اسٹڈیز کے ماہرین کو اس حوالے سے سوچنا ہوگا۔

سوال: اردو قومی زبان ہونے کے باوجود قومی نہ بن سکی،کیا وجوہات ہیں؟ روکاوٹ کیا اور کہاں ہے؟

جواب:         عوامی ،آئینی اور عدالتی سطح پر آج بھی اردو ہی قومی زبان ہے۔ البتہ سرکاری سطح پر آج تک قومی زبان نہ بن سکی، 1973  کے آئین میں صراحت کے ساتھ لکھ دیا گیا تھا کہ اردو کو دفتری زبان بھی بنائی جاوے۔ 2017 میں اردو کو دفتری زبان بنانے کے لیےسپریم کورٹ کا تفصیلی فیصلہ بھی آیا۔وجوہات بہت ہیں تاہم سب بڑی رکاوٹ خودساختہ ایلیٹ کلاس اور بیورکریسی ہے جو اردو کو دفتری و قومی زبان بننے نہیں دے رہی ہے۔اس عنوان پر میں نے کئی کالم لکھے ہیں۔آج بھی مقابلے کے امتحانات اردو زبان میں ہو تو اردو خود بخود قومی زبان بن جائے گی۔ باقی ملک بھر میں اردو ہی واحد رابطے کی زبان ہے ۔ گلگت بلتستان کا مشہور خونی پہاڑ نانگا پربت کے دامن میں رہنے والا ساٹھ سالہ بوڑھا  چرواہا  اور بلوچستان تربت کا پچاس سالہ  مزدو آدمی اگر کوئی زبان میں مکالمہ کرسکتے ہیں تو وہ واحد اردو زبان ہے۔اسی معنوں میں قومی بھی ہوئی اور مکالماتی و تبلیغی زبان بھی اردو ہی ہوئی۔تاہم پاکستان کے دفتری بابو  اردو کے زوال کے لیے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتے۔میری دانست میں اس وقت عربی کے بعد دینی علوم کا سب سے زیادہ لٹریچر اردو زبان میں موجود ہے۔ہر فن و موضوع کے متعلق اردو میں پرنٹڈ اور آن لائن مواد آسانی سے مل جاتا ہے۔ یہی اردو کے لیے کافی و شافی ہے۔

سوال: پاکستان میں اردو ادب ترقی کی طرف گامزن ہے یا اس کے برعکس؟

جواب:        شاید گامزن ہے۔ اردو  کی لاکھوں کتب مختلف موضوعات پر مارکیٹ میں موجود ہیں۔ کونسا موضوع ایسا ہے جس کے متعلق اردو میں مواد موجود نہ ہو؟ہزاروں  عربی، فارسی، انگلش  اور دیگر زبانوں کی اہم کتب کا اردو میں ترجمہ ہوچکا ہے۔ پھر ہزاروں اردو کتب اس قابل ہیں کہ ان کو بار بار پڑھا جائے۔ پاکستان کی دینی جامعات و مدارس اور عصری دانش گاہوں سے بھی بہت سارے موضوعات پر، اردو میں تحقیق و تجزیہ کا کام ہوا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان تمام علمی و تحقیقی کاوشوں کو منظرعام پر لایا جائے اور عام آدمی تک رسائی دی جائے۔اس نقطہ نظر سے ہم دیکھ لیں تو اردو کا مستقبل بہت تابناک ہے۔اور ہاں  آج بھی پوری دنیا میں موجود پاکستانی و ہندوستانی طبقہ فوری طور پر نیٹ کے ذریعے اردو اخبارات اور بلاگز کا مطالعہ کرتا ہے۔یہ سب چیزیں اردو کو ترقی کی طرف گامزن ہی کررہی ہیں۔

سوال: آپ نے شعوری طور پر اپنے پیشے کا انتخاب کیا یا یہ اتفاقی تھا اور حادثاتی طور پر تھا؟

جواب:          میرا اگر سات دفعہ بھی جنم ہوتا تو بھی استاد ہی بنتا۔جب سے شعور سنبھالا تب سے استاد بننے کا شوق تھا۔ درجہ ثانیہ  اورگیارہویں کلاس میں اپنے اہداف طے کیے تھا۔ ان میں پہلا ہدف مدرسے کا مدرس کے ساتھ کالج  کاپروفیسر بننا تھا۔ الحمد اللہ یہ شوق  بلکہ عشق احسن طریقے سے پورا ہوا۔تدریس میرا شوق و پیشہ نہیں اعلانیہ عشق ہے۔اور عشق جب پیشہ بن جائے تو اس سے بڑی خوش قسمتی کیا ہوسکتی ہے۔

سوال: پاکستان میں موجود نظام تعلیم و نصاب تعلیم کو آپ بطور استاد کس نظر سے دیکھتے ہیں؟

جواب: اس میں بہت تفصیل ہے۔ پاکستان کے نظام تعلیم و نصاب تعلیم پر ایک تفصیلی ارٹیکل لکھ بھی چکا ہوں۔ اگر کوئی مجھ سے پوچھے کہ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے تو بلا توقف جواب دونگا۔ نصاب تعلیم اور نظام تعلیم۔ میری سوچی سمجھی اور دیانتدارانہ رائے ہے کہ پاکستان کے دینی مدارس و جامعات اور اسکول و کالجز  اور یونیورسٹیز  کا  نہ سلیبس اپ ٹوڈیٹ ہے نہ ہی نظام تعلیم و تربیت  کوئی معیاری ہے۔میری  2000 سے 2021 تک زندگی کی سب سے جوان بہاریں دینی مدارس اور اسکول وکالجز و یونیورسٹیز میں گزری ہیں۔ دونوں نظام ہائے تعلیم و تربیت کو بہت قریب سے دیکھا ہے۔ دس سالہ پڑھانے کا تجربہ بھی ہے۔اس بنیاد پر بلاجھجک کہہ سکتا ہوں کو پاکستانی نظام تعلیم(دینی و عصری) میں  ”خونریز انقلاب/تبدیلی” کی ضرورت ہے۔تمام مسائل کی بنیادی جڑ نظام تعلیم، نصاب تعلیم اور تقسیم تعلیم ہی ہے۔ اس سے بڑا کوئی المیہ بھی ہوسکتا ہے کہ ہمارے ملک میں تعلیم کو کئی خانوں میں تقسیم کردیا گیا ہے۔بدقسمتی سے اس تقسیم کی عمر دو تین سو سال سے زائد نہیں۔

اگر سچ کہاجائے تو  ”یکساں قومی نصاب” کے نام سے بھی کھلواڑ ہورہا ہے۔اگر ملک میں یکساں نصاب تعلیم بنایا اور لاگو کیا بھی جارہا ہے تو بیرونی اشاروں اور معاونت سے کیا جارہا ہے۔برطانیہ کی واٹر ایڈ (Water Aid) جیسے این جی اوز جن کا کام صاف پانی مہیا کرنا ہے، ہمارے ملک میں یکساں نصاب تعلیم رائج کرنے میں مصروف ہے تو اسے اندازہ لگایا جاسکتا ہے ہماری پستی کا حال۔ پھر سرکاری تعلیمی اداروں میں دینیات اور قرآن کی تعلیم کو بھی مذاق بنایا ہوا ہے۔سیکولرلبرل لابی سرکاری نصاب میں مختصر سے دینی عنوانات کو بھی برداشت نہیں کرپارہا ہے۔جب بھی توحید و رسالت اور سیرت پر ابتدائی کتب میں تھوڑا مواد شامل کیا جاتا ہے تو لبرل لابی کے ساتھ اقلیتوں کے نام نہاد نمائندے،  یو ایس کمیشن برائے انٹرنیشنل ریلیجئس فریڈم اور دیگر بین الاقوامی ایجنسیوں کی پشت پناہی، معاونت اور سرپرستی میں نصاب سے مختصر اسلامی مواد بھی نکلوانے کے لیے شور وغل کرتے ہیں اور اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب بھی ہوتے ہیں۔ایک المیہ یہ بھی ہے کہ ہمارے تعلیمی نصاب سے اسلامی اقدار کو خارج کرکے ہیومنزم یعنی سیکولر اقدار کو شامل کرنے کی ہر ممکن سعی جاری ہے۔ ایسے اقدامات کے لیے واٹر ایڈ، برٹش کونسل اور دیگر این جی اوز کرڈووں خرچ کررہے ہیں اور نصاب میں اسلامی اقدار اور موضوعات کے خاتمہ کے لیے باقاعدہ میڈیا میں شورڈالاجاتا ہے اور مضامین لکھوائے جاتے ہیں۔

ایسا ہی ملا جلا حال دینی وفاقوں کا بھی ہے۔ یہاں صدیوں پرانی غیر ضروری کتابیں داخل نصاب ہیں جن کا  آج کی دنیا کے ساتھ کوئی جوڑ نہیں۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ دینی وفاقوں کے بورڈ شاندار سلیبس خود تیار کرتے۔اور سالانہ کی بنیاد پرمواد  اور موضوعات  اپ ٹوڈیٹ کیا جاتا  مگر بدقسمتی سے ایسا نہیں ہورہا ہے۔جن دینی وفاقوں میں نصابی کمیٹیاں بنی ہوتی ہیں وہ زیادہ سے زیادہ تین سو سال پرانی کسی کتاب کو اپنے نصاب سے خارج کرکے چار سوسال پرانی کسی فنی کتاب کو نصاب میں شامل کرتے ہیں۔حال یہ ہوتا کہ کہ شامل کرنے والوں نے خود اس کتاب کا ایک دفعہ بھی بالاستیعاب مطالعہ نہیں کیا ہوتاہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ان ضروری موضوعات پر خود نصاب ڈیزائن کیا جاتا اورکتب تیار کروائی جاتی۔

سوال: پاکستانی تہذیب و ثقافت میں کیا کمی ہے کہ ہمارا طبقہ اشرافیہ اسے اپنانے میں شرم محسوس کرتا؟

جواب:          پاکستانی  تہذیب و ثقافت میں کوئی کمی نہیں۔ ہمارا  طبقہ اشرافیہ احساس کمتری کا شکار ہے۔ وہ غیروں کی نقالی کو عزت و احترام اور بڑائی سمجھتا ہے اس لیے اپنی ثقافت سے دور بھاگتا ہے۔ کتے کی طرح کھڑے ہوکر پیشاب کرنا کونسی بڑائی کی بات ہے۔

سوال:ادبی ثقاقتی ورثے کو اگلی نسل تک منتقل کرنے کے لیے  آپ کیا تجاویز دیتے ہیں؟

جواب:          نئی نسل کو اگر درست بنیادوں پر یہ سمجھایا گیا کہ ہم ایک شاندار تہذیب و تمدن اور ثقافتی ورثے کے مالک ہیں اور ہمارا ادبی سرمایہ بھی اتنا ہی قیمتی ہے تو یقینا  آسانی سے اگلی نسلوں میں ادبی ورثہ منتقل ہوجائے گا۔

سوال: بطور مدیر کن اداروں سے وابستگی رہی؟ اس حوالے سے کچھ یادیں شیئر کریں۔

جواب:      یہ میرے لیے ایک مشکل سوال ہے۔کئی ایک دینی و عصری اداروں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ جمیعت علماء اسلام گلگت بلتستان کے سابق جنرل سیکریٹری و موجودہ امیر مولانا عطاء اللہ شہاب کی معیت میں بطور  بانی  ایڈیٹر ماہنامہ شہاب کا اجراء کیا۔ جامعہ نصرۃ الاسلام گلگت سے گلگت بلتستان کی تاریخ  میں مدارس وجامعات سے پہلا سہہ ماہی مجلہ ”سہہ ماہی نصرۃ الاسلام” کا بطور بانی ایڈیٹر اجراء کیا۔ماہنامہ بیاک، ماہنامہ وائس آف گلگت بلتستان، سہہ ماہی خیر کثیر، ماہنامہ دارالقرآن گلگت کا اولین ادارتی بورڈ میں شامل رہا۔یونائٹڈ آرگنائزیشن فار پیس اینڈ ڈیلویلیپمنٹ  گلگت بلتستان ، رجسٹرڈ کروایا اور اس کا اولین سیکریٹری جنرل رہا اور کئی سال بغیر معاوضے کی خدمات انجام دی۔ گلگت بلتستان لیکچرار اینڈ پروفیسر ایسوسی ایشن کا دو دفعہ پریس اینڈ انفارمیشن سیکریٹری رہا۔ پوسٹ گریجویٹ کالج گلگت کی لائبریری کمیٹی اور پبلکیشن کمیٹی کا ممبر ہوں۔ اس طرح دیگر کئی اداروں کے ساتھ وقت اور علم کا نذرانہ شیئر کرتا رہا ہوں۔ بہر صورت کئی اداروں کے ساتھ بطور ذمہ دار کام کرنے کا موقع ملا۔ان کی یادیں بہت تلخ و شیریں ہیں۔ شیئر کرنے پر بہتوں کی دل آزاری ہوگی۔

بس اتنا کہوں گا کہ ہمارے دینی اور عصری اداروں میں گروپ ورک کا کنسپٹ موجود نہیں۔ جو لوگ کام کرتے ہیں۔ بلکہ کام کو بطور خدمت اور عبادت کرتے ہیں ان کی قدر نہیں ہوتی۔ ان کی تذلیل کی جاتی ہے۔ ان کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ اداروں اور  محکموں میں جو افراد ”بنیاد کا پتھر” ہوتے ہیں انہیں زک پہنچانے میں ہمارے اداروں کے بڑے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتے۔ بس چمچوں اور کاسہ لیسوں کا راج ہوتا ہے۔بالخصوص دینی مدارس و جامعات میں باصلاحیت اور انتہائی لائق فائق شخص اور چمچہ صاحب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکا جاتا ہے۔ بعض دفعہ تو ٹیلنٹ کی جتنی تذلیل ان اداروں میں ہوتی ہے کوئی سوچ سکتا ہے۔اس سے گریز کرنا بہت ضروری ہے لیکن شاید یہ بہت مشکل بھی ہو۔

سوال: میگزین جرنلزم میں شوق کیوں پیدا ہوا اور کتنے رسائل میں بطور ایڈیٹر کام کیا؟

جواب:          زمانہ طالب علمی، میں جامعہ فاروقیہ کے دیواری مجلات(اردو و عربی) میں مجلس تحریر میں کام کرتا تھا۔سادسہ کے سال خیرکثیر لاہور میں بطور سب ایڈیٹر اور وائس آف گلگت بلتستان کراچی کے ایڈیٹوریل بورڈ کا رکن رہا۔ فراغت کے بعد ماہنامہ شہاب گلگت کا پہلا بانی ایڈیٹر بنا۔ جامعہ نصرۃ الاسلام گلگت سے گلگت بلتستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ سہہ ماہی نصرۃ الاسلام بطور بانی ایڈیٹر جاری کیا۔ ماہنامہ دارالقرآن گلگت جاری کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ سہہ ماہی فکر و نظر گلگت،ماہنامہ بیاک میں بطور رکن خاص کام کیا۔زندگی نے وفا کی تو ایک بہترین میگزین اجراء کرنے کا ارادہ ہے جو آن لائن بھی ہوگا۔میگزین جرنلزم بھی میرا شوق بنتا جارہا ہے۔ اب شاید ویب میگزین کی طرف بڑھنا ہوگا۔

پاکستانی جامعات سے بہت سارے شاندار ریسرچ جرنلز  شائع ہوتے ہیں جہاں بہت سارے سماجی و دینی اور ادبی موضوعات پر بہترین تحریریں، ریسرچ پیپرز شائع ہوتے ہیں۔اب تو ان کا لیول بہت شاندار ہوگیا ہے۔یونیورسٹیز کے ریسرچ جرنلز کی تفصیلات اور پی ڈی ایف کی شکل میں قاری تک پہنچانے کے لیے ہمارے استاد ڈاکٹر محی الدین صاحب نے ایک پروجیکٹ  اسلامک ریسرچ انڈکس (IRI) کے نام شروع کیا ہے جس میں تمام جامعات کے ایچ ای سی سے منظور شدہ جرنلز موجود ہیں۔آن لائن استفادہ کیا جاسکتا ہے۔دینی مدارس و جامعات سے بھی ہزاروں میگزین شائع ہوتے ہیں۔ان کا معیار معمولی ہوتا ہے۔ بہت کم رسائل ایسے ہوتے ہیں جن میں کچھ کام کی چیزیں ہوتی ہیں۔ ان میں شاندار بہتری کی ضرورت ہے۔

گلگت بلتستان کی کالجز میں میگزین کے اجرا کے لیے بہت ہاتھ پاوں مارے مگر کہیں میرے اس شوق کی پذیرائی نہیں کی گئی بلکہ منتظمین نے اس شوق و جنون کو دبانے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی۔یہ علم وادب اور تحریر سے دوری اورلاتعلقی کی بین دلیل ہے۔

سوال:  زندگی کے ایسے سبق امور واقعات جو بھلائے نہ بھولتے ہوں؟

جواب:          میں کیا میری زندگی کیا اور گزرے لمحات اور بیتے ایام میں سبق کیا۔ایسے واقعات و احوال بڑے لوگوں کے ساتھ اچھے لگتے ہیں۔

سوال:  آپ اپنی زندگی  کے کن لمحات کو قیمتی ترین اور یادگار سمجھتے ہیں؟

جواب:       میں اپنی زندگی کے ہر لمحے کو قیمتی سمجھتا ہوں اور ہر لمحے کو یادگار بنانا چاہتا ہوں۔میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں اپنی پوری زندگی کو ہیرے کی قیمتی کان سمجھنا چاہیے۔ اپنے آپ کو ہیرا سمجھنا چاہیے اور پھر اپنی تلاش میں نکل کھڑا ہوا چاہیے۔ اگر ایسا ہوا تو لمحہ لمحہ قیمتی ہوگا اور یادگار ترین بھی۔ ویسے اگر کسی کی خدمت کروں اور بے لوث کروں تو مجھے اندر سے انتہائی خوشی محسوس ہوتی ہے۔ میں اس وقت بہت خوشی محسوس کرتا ہوں جب  دینی و رفاہی اداروں کو بغیر معاوضہ کے وقت، توانائی اور سکلز  اور دیگر فری سروسز دیتا ہوں، بہت دفعہ وقت ، توانائی، مہارتیں اور محبتیں دینے پر بھی بعض بڑے افراد اور ادارے خوش نہیں ہوتے  بلکہ کیڑے  نکالتے ہیں تو بہت دکھ بھی ہوتا ہے۔ ان کے ہاں صرف ”چندہ” دینا ہی تعاون کہلاتا ہے۔ وقت اور علم کے نذرانے کی کوئی ویلیو نہیں ہوتی۔ بہر صورت افراد ہوں یا ادارے، میں وقت اور علم کا نذرانہ دے کر انتہائی خوشی محسوس کرتا۔انسان کی زندگی کا انتہائی عزیز اور قیمتی لمحہ وہ ہے جو  دوسروں کی بے لوث خدمت میں گزرے۔

سوال: کیا بامقصد زندگی گزارنے والے موت یا دنیا کے خوف سے ڈرتے ہیں؟

جواب:          اگر انسان بامقصد زندگی گزار رہا ہے تو اس کو موت کا خوف نہیں رہتا، کیونکہ پہلے سے وہ زندگی بامقصد گزار رہا ہے.اللہ کی طرف سے دی ہوئی اسائمنٹ پوری کررہا ہے بامقصد زندگی کے ذریعے، تو موت کا خوف کاہے کو۔
اور اگر زندگی بے مقصد گزر رہی ہے تو ہر دم موت کا خوف لگا رہتا ہے۔
آپ یوں سمجھ سکتے کہ
طالب علم کا سالانہ امتحان سر پر ہے۔ اگر مضامین کی تیاری مکمل ہے تو امتحانی سینٹر کی طرف جاتے ہوئے سرور ملتا اور امتحان کو ویلکم کہتا اور ڈٹ کر لکھتا رہتا۔امتحان کو انجوائی کرتااوراگر امتحان کی تیاری نہیں ہے، سال بھر وقت گزاری کی ہے تو پھر امتحان سر پر آجائے تو خوف آنے لگتا اور دعا مانگتا کہ کسی طرح امتحان آگے پیچھے ہوجائے۔
بس یہی صورت حال بے مقصد زندگی اور بامقصد زندگی کا ہے۔
انسان کو احساس ہے کہ وہ ایک خاص مشن اور وژن کیساتھ بامقصد زندگی گزار رہا ہے، تو سمجھ جائیے کہ وہ ایڈوانس موت کی تیاری کررہا ہے، اسکا کوئی پَل بے سود نہیں گزر رہا۔ موت کسی بھی وقت آجائے تو وہ گلے لگاتا ہے اور وہ اللہ کے حضور کامیاب و کامران ہے.
اور اگر زندگی بے مقصد گزرہی ہے۔ انسانیت کے لیے کوئی فائدے کا کام نہیں کررہا ہے، تو ایسے لوگ موت سے خائف ہوتے اور خوف کے عالم میں موت سے بھاگنے لگتے مگر وہ بھاگ نہیں سکتے۔ موت سے کسی کو رستگاری نہیں۔
ہمیں چاہیے کہ اپنی زندگی کو بامقصد بنائیں۔ یہ دیکھ لیں کہ ہم جو کچھ کررہے ہیں کہ وہ انسانیت کے لیے سود مند ہے؟ اللہ کے فطری اصولوں کے موافق ہے؟
اگر ہمارے اعمال فطری اصولوں کے خلاف ہیں، ہماری مال وجان اور علم و ہنر سے سے انسانیت فائدہ نہیں اٹھا پارہی ہے، بلکہ ہماری دولت، علم، ہنر اور جان سے انسانیت کو خطرہ ہے، تکلیف اور دکھ کا سبب بن رہی ہے تو سمجھ جانا چاہیے کہ ہم بے مقصد زندگی گزار رہےہیں۔پھر موت کیا، ہر چیز سے خوف آنے لگتا، دولت چھن جانے کا خوف، عہدہ سے ریٹائرڈ ہونے کا خوف، اولاد کی نافرمانی کا خوف، بڑھاپے کا خوف، بیماری کا خوف،خرابی تعلقات کا خوف، کم علمی کا خوف اور بہت سارے خوف سے پالا پڑتا۔ سو ان تمام خوفوں سے بچیں، زندگی بامقصد بنالیں اور زندگی جیے یا پھر موت سے ڈرتے پھریں۔

سوال:  زندگی کو بدلنے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟

جواب:          زندگی کو بدلنے کے ليے خود کو بدلنا ہوگا۔ سب سے پہلے منفی سوچوں سے نکلنا ہوگا۔منفی سوچيں انسان کو تباہ کرکے رکھ ديتي ہيں۔ انسان ويسے ہی ہوتا ہے جيسے اس کی سوچ ہوتی ہے ۔سوچ بدلنے کي ضرورت ہوتی ہے۔انسان فطرت پر پيدا ہوا ہے۔فطرت کا مطلب ہی اعتدال، درستی اور اچھائی ہے۔يہ سچ ہے کہ انسان منفی سوچ لے کر پيدا نہيں ہوا ہے۔ بدقسمتی سے انسان شعوری يا لاشعوری طور پر منفی سوچنا شروع کرديتا ہے۔تو ميں عرض کرنا چاہتا ہوں، آج کل کرونا  آيا ہوا ہے۔کرونا ايک معتدی و موذی مرض ہے جو جان ليوا ہے۔کرونا سے بچنے کے ليے حفاظتی اقدامات کرنے پڑتے ہيں، ايس او پيز بنائے جاتے ہيں اور ان پر عمل درآمد کروايا جاتا ہے۔سوشل ڈسٹينس رکھا جاتا ہے۔ اس کی ويکسی نيشن ہوتی ہے۔ اسي طرح کسي بھي وبائی مرض کی ويکسی نيشن ہوتي ہے۔ منفی سوچ بھي وبائی مرض سے خطرناک ہے۔منفی سوچ  وخيالات انسان کو تباہ کرکے رکھ ديتی ہيں۔ اس کی بھی ویکسی نیشن ہونی چاہیے۔ ايس او پيز بناکر عمل کرنا ہوگا۔ اس کی کئی شکلیں ہوسکتی ہیں۔ منفی سوچ کی ویکسی نیشن، ذکر الہی ہوسکتی ہے۔کوئی کتاب ہوسکتی ہے۔کوئی استاد و اسکالر ہوسکتا ہے۔کوئی پیر و مرشد ہوسکتا ہے۔ کوئی محفل ہوسکتی ہے ۔ غرض ہر انسان کی طبیعت و ساخت کے مطابق منفی سوش سے چھٹکارا کی ویکسی نیشن ہوسکتی ہے۔ کوئی دوست وجہ بن سکتا ہے  انسان کو منفی سوچ سے چھٹکارا پانے کے لیے۔ شريک حيات بھي بہت بڑا کردار ادا کرسکتی ہے يا کرسکتا ہے? غرض جو لوگ  اہداف و مقاصد کے مطابق زندگی گزارتے ہيں وہ آسانی سے منفيت کا شکار نہيں ہوسکتے ہيں۔ اور اگر ايسے لوگ منفيت کا شکار ہوں بھي تو وہ اپنی زندگی اور کيرئير بدلنے ميں آسانی سے کامياب ہوسکتے ہيں۔کيونکہ انہوں نے ايڈوانس ايس او پيز بنا رکھی ہوتی ہیں۔

سوال: زندگی بدلنے کے لیے ایک استاد کیا کردار ادا کرسکتا ہے؟

جواب:          سچ یہ ہے کہ استاد ہی ”گیم چینجر ” ہوتاہے۔بس استاد کو معلوم ہونا چاہیے کہ استاد کی زمہ داریاں کیا ہیں۔اللہ رب العزت نے استاد کو یہ  ٹیلنٹ دیا ہوتا ہے کہ وہ اپنے تلامذہ  کو اس قابل بنادے کہ وہ اپنی فیلڈ کا سوچ سمجھ کر انتخاب کریں اور پھر زندگی  کے ہارئے ہوئے کھیل کو انجوائی کرتے ہوئے جیت لیں۔ مشکل سے مشکل مرحلے کو انجوائی کرتے ہوئے مقابلہ کرنے کا گُر سکھانا، استاد کا کام ہے۔میں اس شخص کو قطعا استاد نہیں سمجھتا جو اپنے تلامذہ کو ان کے شاندار مستقبل کی جھلک نہیں دکھاتا۔استاد کا اصل کام   ”علم کی پیاس بھڑکانا” ہے۔ایک اچھا استاد وہی ہوتا ہے جو نالائق ترین طالب علم کو فائق ترین بنادے۔دنیا کا سب سے بڑا استاد ” محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم” ہیں۔ آپ ﷺ نے  اپنے لاکھوں کمزور شاگردوں کو دنیا کے بہترین اور کامیاب ترین اور اعلیٰ ترین  انسان بنایا ۔یہی کردار آج کے استاد کو بھی ادا کرنا ہوگا۔ تب گیم چینجر ہوسکتا ہے۔

سوال: زندگی میں کونسی  خواہش پوری نہیں ہوسکی؟

جواب:         اس سوال کے جواب میں اپنا ایک واقعہ بیان کردیتا ہوں ۔ اچھی طرح اندازہ ہوجائے گا۔ جب میں ماس کمیونیکشن میں ماسٹر کررہا تھا تو ایک دن  تمام اسٹوڈنٹس  کو اس سوال کے جواب پر پریذنٹیشن دینی تھی کہ

آپ اپنی چار خواہشات کا اظہار کیجیے۔ ہر ایک نے اپنی خواہشات کا اظہار کیا۔ میں نے اپنی باری پر عرض کیا :

1: حرمین شریفین کی زیارت

2:  استاد بننا  (یعنی مدرسے کا مدرس اور کالج کا پروفیسر)

3:  والدین کی خدمت

4:  ایک ایسی شریک حیات کی چاہت ، جو زندگی کے ہر لمحے میری معاون بنے۔ میرے سماجی، علمی اور دیگر غمی و خوشی اور مستقبل کے پلاننگ میں لمحہ  لمحہ میری رفیق بنے اور مجھے ٹوٹ کر چاہیے  اور میں بھی اس کو ٹوٹ کر چاہوں۔اور وہ علم کی دھنی بھی ہو۔

یہ آخری خواہش پوری نہ ہوسکی۔ امید ہے مستقبل میں پوری ہوجائے۔

سوال: زندگی میں سینکڑوں نشیب و فراز آتے ہیں۔ اگر کوئی مایوسی کا مرحلہ آیا تو آپ نے کیا  رد عمل دیا یا ایسے موقع پر کیا کیا؟

جواب:    الحمدللہ ابھی تک مایوسی نہیں ہوئی کبھی۔ایک دو دفعہ کچھ ذاتی اور گھریلوے امور میں سخت قسم کی ڈسٹربینس ہوئی تھی مگر یہ کہہ کر خیال دل سے جھٹک دیا کہ یہ وقت بھی گزر جائے گا اور یہ مسئلہ بھی اپنی موت آپ مرے گا۔ دوسری شادی کے حوالے سے دس سال سے کوشش جاری ہے۔ سخت کوشش کے باوجود بھی نہ ہوسکی مگر مایوسی نہیں ،مزید کوشش جاری ہے۔

سوال: علم و ادب کی دنیا میں آپ کون  کون سی شخصیات سے متاثر ہیں؟

جواب:          بہت سارے نام ہیں جن کی علم و ادب میں بے تحاشا خدمات ہیں اور ان سے انسپائریشن ملی ہے۔ ان کو پڑھ کر چند لفظ جوڑنے کا موقع ملا ہے۔ دینی ادب میں بالخصوص مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا مناظر احسن گیلانی، شیخ الحدیث مولانا زکریا،مولانا مودودی، جناب شورش کاشمیری،مولانا ابوالحسن علی ندوری، سید سلیمان ندوری، قاری طیب،ڈاکٹر حمیداللہ ، ڈاکٹر محمود احمد غازی،عبدالمجید سالک، غلام رسول مہر،مولانا ظفرعلی خان،پیرکرم علی شاہ،علامہ اسد، شاہ حکیم اختر،مولانا وحیدالدین خان,مولانا سمیع الحقؒ، مفتی تقی عثمانی، مولانا زاہدالرااشدی، مولانا ابن الحسن عباسی،مولانا اسلم شیخ پوری،سید محبوب رضوی،شیخ محمد اکرم، پروفیسر خورشید احمد،پروفیسر خورشید رضوی،مفتی مختارالدیشن شاہ، پروفیسر رفیق اختر، سرفرار اے شاہ،ڈاکٹرذاکر نائک جیسے کبار اہل علم   کے رشحات قلم سے بھرپور فائدہ اٹھاتا ہوں۔

اور دیگر اہل ادب میں قدرت اللہ شہاب،احمد ندیم قاسمی،قرۃ العین  حیدر،کرشن چندر،منشی پریم چند،دیوان سنگھ مفتون،واصف علی واصف، ممتازمفتی،صدیق سالک،سعادت حسین منٹو،قدسیہ بانو،اشفاق احمد، ڈپٹی نذیر احمد،نسیم حجازی،چودھدری افضل حق،اسلم راہی، اشتیاق احمد،خامہ بگوش،مختار مسعود،عمیرہ احمد وغیرہ کو پڑھا ہے۔

کیرئیر کونسلنگ اور گائیڈینس میں چند ایک مصنفین مجھے بہت اچھے لگتے ہیں جن میں اسٹیفن آر کوئے، بشیر جمعہ،ڈینل گارینگی، قاسم علی شاہ، عارف انیس، احمد فرہاد وغیرہ کو پڑھتا ہوں، اور بہت سارے موٹیویشنل اسپیکرز کو سنتا ہوں۔موٹیویشنل اسپیکرز میں مولانا طارق جمیل ، قاسم علی شاہ اور حماد صافی  کو بڑے غور سے سنا ہے۔

اور بہت سارے اہل علم و اد ب ہیں جن میں کئی ایک عربی مصنفین ہیں۔ان سب کا ذکر بہت مشکل ہوجائے گا۔رئیس الحمدثین حضرت مولانا سلیم اللہ خان ؒ کی کشف الباری سے بہت زیادہ استفادہ کیا ہے۔ بخاری شریف کی اس سے محقق ، مفصل اور مستند شرح اب تک اردو زبان میں نہیں لکھی گئی ہے۔

میری بدقسمتی دیکھیں۔ اب تک اشرف علی تھانویؒ جیسے جلیل القدر مصنف کو جس طرح پڑھنا چاہیے نہیں پڑھ سکا۔

شاعری خوب سنتا ہوں مگر شاعری کے رموز و اقاف سے واقفیت نہیں۔ غلام رسول مہر کی مرتب کردہ کتاب ”مطالب اقبال” کئی بار پڑھی ہے۔

سوال: آپ کے خیال میں وہ کونسے اصول ہیں جنہیں ہر شخص کو اپنی زندگی  کا نصب العین بنانا چاہیے؟

جواب:          بہر صورت شعبہ ہائے زندگی کے تمام شعبوں کے احباب کے لیے الگ الگ اصول ہوسکتے ہیں۔ ان کے پیشوں اور ذوق و صلاحیت کے اعتبار سے الگ اصول ہوسکتے ہیں۔ تاہم شعبہ ہائے زندگی کے کسی بھی شعبہ سے تعلق رکھنے والے شخص کے لیے یہ چند باتوں کو زندگی کا لازمہ بنانا چاہیے۔اپنے کام کا آئیڈیا اور وژن،کام سے محبت بلکہ عشق،احساس ذمہ داری،مثبت  سوچ کے ساتھ مثبت اپروچ، شاندار پلاننگ ، وقت کا برمحل اور درست استعمال، رفقائے کار پر اعتماد،متعلقہ فیلڈ کے لوگوں کے ساتھ شاندار تعلقات، مایوسی و قنوطیت سے دوری کے ساتھ جہدمسلسل  کو یقینی بنانا اور اللہ رب العزت پر بھروسہ اور دعا کرنا انتہائی اہم ہے۔ان سب باتوں کے بعد نتیجہ اللہ پر چھوڑنا چاہیے۔ان چند باتوں کو کوئی بھی شخص اپنی زندگی  کا نصب العین بناکر ، ایک فریم میں لکھ کر اپنے بیڈ روم کی دیوار پر آویزاں کردے تو زندگی میں شاندار کامیابی مل سکتی ہے۔

سوال: آپ کی شخصیت میں کس ہستی کا کردار سب سے زیادہ ہے؟

جواب:          میری ماں جی کا کردار سب سے زیادہ ہے۔ماں کی دعاؤں اور محبتوں کی بدولت زندگی نے بہت سکھ دیے۔باقی اساتذہ کرام سے بہت سیکھا ہے۔ اس میں دو رائے نہیں کہ زندگی نے بھی بہت کچھ سکھایا ہے۔ زمانہ اور زندگی سے بڑا کردار، ہستی اور استاد کوئی نہیں۔زمانے کو ڈیل کرنے سے ہی شخصیت  بنتی ہے۔وہ بھی درجنوں غلطیاں سرزد ہونے کے بعدانسان راستی پر آجاتا ہے۔

سوال: وہ کونسے اسباب ہیں جنہوں نے آپ کو لکھاری بننے کی ترغیب دی؟

جواب:          اسباب بہت سارے ہیں۔مطالعہ کے شوق نے مجھے لکھنے پر مجبور کیا۔مسلسل پندرہ سال تک تمام جید کالم نگاروں کو پڑھنا اور ان سے انسپائریشن لینا ایک ایسا سبب ہے جس کی وجہ سے مجھے بھی لکھنے کا شوق چڑھا۔ اب تو لکھنا جنون سا بن گیا ہے تاہم یہ گاڈ گفٹڈ بھی ہوتا ہے لیکن بہر صورت لکھنے کے لیے موت کے دن تک پڑھنا ضروری ہوتا ہے۔ میرے خوابوں میں ایک خواب یہ بھی تھا کہ پاکستان کے دس بڑے کالم نگاروں میں ایک نام میرا بھی ہوا۔ شاید اس کے لیے ابھی ادھا سفر باقی ہے۔میں سمجھتا ہوں اچھا کالم نگار بننے کا ادھا سفر طے ہوچکا ہے۔ باقی آدھا سفر جاری ہے۔

سوال: نئے لکھنے والوں کو آپ کیا نصیحت کرنا چاہیں گے؟

جواب:     یہ کمال نہیں کہ آپ کو دنیا جہاں کی سہولیات میسر ہیں اور کسی قسم کی کوئی ذمہ داری بھی آپ پر نہیں، کتاب ہر حوالے سے آپ کی دسترس میں ہے اور آپ بے تحاشا مطالعہ کرتے ہیں۔
میرے نزدیک قابل ستائش وہ لوگ ہیں جن پر زمانے نے بہت سا بوجھ لاد دیا ہے۔ بہتوں کے کفیل ہیں۔ غم جاناں کا دکھڑا بھی ہے اور غم دوراں کی کہانی بھی۔ اس سب کے باوجود بھی کتاب کو وقت دیتے ہیں اور اپنی فکر کو جلا بخشتے ہیں۔علمی اور ادبی شہہ پاروں سے محظوظ ہوتے ہیں اور اہل علم و قلم سے مستفید ہوتے ہیں۔ رات گئے بھی کچھ نہ کچھ پڑھ کر ہی سوتے ہیں۔ درجنوں الجھنوں میں الجھنے کے باوجود بھی کتاب کو روگ جان بنالیتے ہیں، تکیے پر رکھ لیتے ہیں۔ طبیعت مضمحل ہو تو کتاب کی زیارت اور لمس بھی کرکے روح کو تسکین پہنچاتے ہیں۔ ہمارے جیسے معاشروں میں ننانوے فیصد یہی لوگ ہیں جن کی آتما کی آگ سے ہی کتاب کی حیات ہے۔ ورنا تو سرمایہ دار اور صاحب علم لوگوں کی اولادیں کتاب سے بہت دور ہیں۔آج تو غریب آدمی PDF کتب سے بھی اپنا شوق پورا کرلیتا ہے۔ جن کے پاس کتاب خریدنے کی گنجائش ہے وہ کسی اور شغل میں غرق ہیں اور جن کی قوت خرید نہیں وہ پڑھنا چاہتے ہیں۔پڑھنے کےتمام ذرائع مسدود ہیں لیکن پھر بھی پڑھ لیتے ہیں۔
ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی نے اپنی مطالعاتی زندگی کے حوالے سے ایک تحریر لکھی ہے۔یہ تحریر استاد محترم ابن الحسن عباسی ؒ کے مجلہ “النخیل” کراچی میں پبلش ہوئی ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنی مطالعاتی زندگی کا احاطہ بہت سہل اور دلچسپ پیرائے میں کیا ہے۔اس مضمون کا اختتامیہ ہم جیسے نیو لکھاریوں کے لیے بہت اہم ہے۔ وہ آپ سے شئیر کرنے جو جی کررہا ہے۔ نئے لکھنے والے ان مختصر مشوروں پر عمل کرسکتے ہیں۔ میں خود اس پر عمل پیرا ہوں۔ ملاحظہ کیجیے۔
ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی لکھتے ہیں:
“نئے لکھنے والوں اور نوجوانوں کو میرا مشورہ ہے کہ آوارہ مطالعہ سے بچیں ۔ یہ رویّہ درست نہیں ہے کہ جو کتاب بھی ہاتھ لگ جائے ، اسے پڑھ جائیں ، بلکہ منتخب (Selected) مطالعہ کی عادت ڈالیں ۔
دوسری بات یہ کہ صرف ہلکی پھلکی کتابوں ، قصے کہانیوں اور ناولوں کے مطالعے پر اکتفا نہ کریں ، بلکہ سنجیدہ علمی اور دینی کتابوں کو بھی اپنے مطالعہ میں شامل رکھیں ۔ دونوں طرح کی کتابوں کا مطالعہ ضروری ہے اور دونوں کی اپنی اپنی افادیت ہے ۔
تیسری بات یہ کہ عمومی مطالعہ کے ساتھ اختصاصی مطالعہ کو بھی اپنے پروگرام میں شامل کریں ۔ اختصاصی مطالعہ کا مطلب یہ ہے کہ کسی ایک شخصیت کی تمام کتابیں پڑھ جائیں ، یا کسی ایک موضوع کی تمام اہم کتابوں کا مطالعہ کریں ۔
چوتھی بات یہ کہ مطالعہ کے سلسلے میں صرف اپنے ذوق پر انحصار نہ کریں، بلکہ کسی صاحبِ علم شخصیت کی رہ نمائی میں مطالعہ کیا کریں اور وقتاً فوقتاً اس سے مشورہ کرتے رہا کریں ، بلکہ ایک سے زیادہ شخصیات سے رہ نمائی حاصل کرنا بہتر ہوگا ۔” ۔

سوال:  نئے لکھنے والے بالخصوص دینی علوم سے وابستہ قلم کاروں کو اختصاصی معالعہ کیسے کرنا چاہیے؟

جواب: بھائی یہ دور ہی اختصاصی مطالعہ کا ہے۔ آج تو انتہائی مختصر عنوانات پر بھی اسپیشلائزیشن کی جاتی ہے۔ دینی موضوعات پر بھی پاکستانی جامعات میں بڑا اختصاصی کام ہوا ہے۔اختصاصی مطالعہ ہر صاحب قلم اور لکھاری کے لیے ضروری ہے۔تاکہ دیگر موضوعات کے ساتھ  وہ اپنے مخصوص موضوع پر اتھارٹی کی حیثیت رکھے۔میرے خیال میں دینی و مذہبی موضوعات پر لکھنے والے لکھاریوں کے  عصرحاضر کے اسلوب میں لکھنے والے کئی مفکرین کا بالاستیعاب مطالعہ کرنا چاہیے۔ان مفکرین اور اہل علم کا اختصاصی مطالعہ کیا جائے، تاکہ اسلام کی روشنی میں جدید دور میں درست رہنمائی کرنے کی صلاحیت پیدا کی جاسکےمثال کے طور پر چند ایک اسلامی اسکالرز کا نام بھی لے سکتے ہیں۔
1.مولانا مناظر احسن گیلانی
2.ڈاکٹر حمیداللہ
3.مولانا ابوالحسن علی ندوی
4.مولانا ابوالاعلیٰ مودودی
5.ڈاکٹرمحمود احمد غازی6۔ علامہ محمد اسد

7۔ ڈاکٹر اسرار احمد

8۔ علامہ وحیدالدین خان

9.مفتی تقی عثمانی
10.جاوید احمد غامدی
اس فہرست میں مزید اضافہ کیا جاسکتا ہے۔
ان صاحبان کی جملہ کتب کو بالاستعیاب پڑھا جائے تو جدید تعلیم یافتہ احباب اور معاشرے کے تمام مسائل میں بہتر رہنمائی کرنے کی صلاحیت پیدا ہوسکتی ہے۔ ان اہل علم نے ہر موضوع پر خامہ فرسائی کی ہے۔بہت سارے اور نام بھی ہیں لیکن ان سب کو بالاستیعاب پڑھنا اتنا آسان بھی نہیں۔ مذکورہ بالا حضرات نے اسلامی موضوعات پر انتہائی سلیس، شستہ، مددلل اور ادیبانہ اسلوب میں کتب تصنیف کی ہیں جو ہر اعتبار سے مفید اور دلچسپ ہیں۔ ان سب کا اسلوب نگارش دل لبھانے والا ہے۔اس لیے بور ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ان کی کتب اسلامی ادب کی شاہکار ہیں۔اسی طرح ایک عام تعلیم یافتہ لکھاری اپنے ذوق و شوق کو مدنظر رکھتے ہوئے مخصوص موضوعاتی کتب اور مصنفین کو پڑھے گا تو اس  میں اختصاصی خصوصیات پیدا ہونگے۔ بہر صورت یہ دل گردے کا کام ہے۔

سوال: لکھنے لکھانے کے حوالے سے آپ اپنے آپ کو کیا نصیحت کریں گے؟

جواب: اپنے آپ کونصیحت کرنا اور اپنا محاسبہ کرنا بہت مشکل کام ہے۔بہر صورت مجھے پڑھنا چاہیے لیکن میں نے بڑا وقت لکھنے میں ضائع کیا۔یہ مسلم اصول ہے کہ تھوڑا سا اچھا لکھنے کے لیے بہت سارا اچھا پڑھنا پڑتا ہے بلکہ بے تحاشا پڑھنا پڑتا ہے۔یہ میرے حق میں ہے کہ کئی سال خاموشی سے مطالعہ و تحقیق میں گزاروں، تاکہ جب بولوں، لکھوں اور کہوں تو مستند مانا جاوں۔جانتا ہوں کہ مجھے انتظامی الجھنوں سے خود کو آزاد کرانا چاہیے لیکن سردست یہ ناممکن سا لگتا ہے۔یہ بھی جانتا ہوں کہ غیرضروری نمبردار یوں سے خود کو الگ کرنا ہے مگر نہ چاہتے ہوئے بھی بہت ساری نمبردار یاں کرنی پڑتی ہیں۔
جب بہتوں کی ذمہ داری سر پر آن پڑے تو پھر پڑھنے لکھنے کے لیے وقت نکالنا بھی مشکل ہوجاتا۔ لیکن وقت نکالنے کی کوشش کرتا۔
یہ سچ ہے کہ مجھے علاقائی، مسلکی اور لسانی حدود سے نکل کر اپنا وجود تسلیم کرانا ہوگا، جس کے لیے ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے بالخصوص مطالعہ اور غیر جانبدارانہ تحقیق۔ان دونوں کے لیے ایک خاص قسم کا ماحول اور کچھ ذہنی و جسمانی آرام وسکون چاہیے جو سردست میسر نہیں۔ ذہن بھی مختلف امور میں بَٹا ہوا ہے اور جسم بھی۔
یہ بھی جانتا ہوں کہ خود کو تحقیق و مطالعہ کے لیے فارغ کربھی سکتا ہوں لیکن طبیعت ابھی اس کو قبول کرنے سے گریزاں ہے۔ وجوہات کچھ بھی ہوں مگر مطالعہ و تفکر کے لیے علیحدہ گوشہ میں جاچھپنا کافی مشکل ہے سر دست۔
سچ یہ ہے کہ مخلص اور کہنہ مشق بزرگوں اور احباب نے ان چیزوں کی طرف توجہ بھی دلائی ہے مگر عمل کرنے میں کوتاہی برت رہا ہوں۔
تاہم خوش آئند بات ہے کہ
بطور غذا ہی سہی روز کچھ نہ کچھ پڑھ لیتا ہوں۔ناغہ نہیں کرتا۔موبائل نے بھی پڑھنے اور ریسرچ کرنے میں بڑی معاونت کی ہے۔ روز کچھ نہ کچھ ڈھونڈ کر ہی دَم لیتا۔
ایک پلس پوائنٹ یہ بھی ہے کہ گھر میں چھوٹے بہن بھائی اور بھانجے بھانجیاں ہیں۔ ان کو بھی کچھ نہ کچھ پڑھانے کے لیے کتابیں دیکھتا رہتا۔بہت سارے پراجیکٹ پائپ لائن میں ہیں۔ تاہم سب سے اہم کام مطالعہ و تحقیق ہی ہیں۔

سوال: تخیل  اور فکر نظر روگ ہے یا عیش؟

جواب:    تخیل روگ بھی ہے مگر تخیل سے زیادہ عیش پرستی کچھ بھی نہیں۔ایک عرصے سےتخیل کی موج مستیوں میں جی رہا ہوں، سچ کہوں تو آج کل تخیل کے سہارے ہی راتیں کٹ رہی ہیں۔ یہ ایسا روگ ہے کہ مجھے کہیں کا نہیں چھوڑا۔وہ دن گئے جب رات رات کتاب پڑھا کرتا تھا۔
یہ بات بتانے میں حرج بھی نہیں کہ “بے بس” تخیل ہی میری زندگی کا عظیم سہارا ہے۔دل کا درمان ہے۔ دماغی الجھنوں کا اکلوتا مداوا ہے اور بدنی تکالیف کا تریاق۔

خدا کسی کو تخیل کے مرض میں مبتلا نہ کرے ورنا صبح تک آنکھیں موندتے ہوئے بیتنا پڑے۔
فریب تخیل کے کیسے کیسے مناظر انہی آنکھوں نے رات رات دیکھے ہیں اور جسم نے کروٹیں بدلی ہے اور دماغ نے مستقبل قریب اور بعید کے کیا کیا پلان بُنے ہیں اور دل نے کتنی آہیں بھری ہیں، میں ہی جانتا اور پھر مرغ نے صبح کی بانگ دی ہے۔
تصور کیجیے ! رات کا سناٹا ہو، کمرے کے جھروکوں سے چاند جھانک رہا ہو، ستاروں کی جھلملاہٹ ہو، ڈھلتی ہوئی چاندنی آپ کو دعوت تخیل دے رہی ہو۔ اور انسان کسی کے تخیل میں غرق ہے۔ اس سے بڑی عیش بھی کچھ ہوسکتی؟
کھبی دسمبر کی بھیگی ہوئی راتیں ہوں تو کھبی جولائی کی ڈھلتی صبحیں، اور انسان تخیل کی غم میں مبتلا ہے۔
واہ! اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ موج ومستی اور عیش و عشرت کا کتنا سامان جمع ہوتا ہوگا۔اور دماغ کیا کیا گُل کھلاتا ہوگا۔
یہ ماننے میں بھی حرج نہیں کہ تخیل دل پر اگر آگیا، تو وہی دل کا درد ہے اور درمان بھی۔
حسن آواز میں ہو یا چہرے میں یا صلاحیت میں، بہر صورت قہر انگیز ہی ہوتا۔ اور اگر اس حسن تک رسائی کا سہارا صرف تخیل ہو تو یہ قہر انگیزی دوبالا ہوتی۔
تخیل کے ترنم اور صدائیں جان لیوا ہیں۔
میری اور اس کی شناسائی تخیل کے ذریعے ہے۔ واحد تخیل ہے جس نے مجھے ماضی اور مستقبل کیساتھ جوڑا ہے۔ تخیل نے ماضی کی درماندیاں اور مستقبل کی خوش گمانیوں میں مبتلا کرکے رکھا ہے۔
سچ کہتا ہوں کہ تخیل نے بہت ساری گلیوں کی خاک چھنوائی ہے۔ناک کٹوائی ہے۔ دکھ دیے ہیں۔غم دیے ہیں اور درد بھی۔مگر پھر بھی مجھے تخیل بہت عزیز ہے۔ عزیز از جان!
تخیل سے بڑا رقیب کوئی نہیں
اور نہ تخیل سے بڑا رفیق کوئی ہے۔تخیل کی رقابت اور رفاقت نے الجھا رکھا ہے۔
تخیل کی دلآویزیاں اتنی جمیل ہیں کہ بس ان میں مستغرق ہوں۔ کاش کہ تخیل کو حقیقت کا روپ مل جاتا۔

سوال: ادبی و علمی دنیا میں  شریک حیات آپ کی معاون رہیں یا۔۔۔؟

جواب:  ایسا حادثہ اب تک نہ ہوسکا، میری موجودہ شریک حیات ادبی و علمی دنیا سے بہت دور ایک سادہ مزاج،اور ان پڑھ خاتون ہے۔زندگی  نے وفا کی تو ادبی و علمی دنیا میں معاون  ایک اور شریک حیات مل جائے گی۔

سوال: کوئی ایسی دعا جو من و عن قبول ہوئی ہو؟

جواب: جی بہت ساری دعائیں جیسے مانگی تھی قبول ہوئی ہیں۔ مثلا حرمین کی زیارت، پروفیسر بننا، والدین کی خدمت، ادارہ بنانے کی خواہش، اور ایک دعا ابھی تک قبول نہیں ہوئی۔ یعنی ٹوٹ کر چاہنے والی اور میرے دینی و تعلیمی کاموں میں بہترین معاون بننے والی ایک شریک حیات۔ ان شاء اللہ جلد اللہ یہ دعا بھی قبول کریں گے۔

سوال: لکھنے لکھانے کے علاوہ آج کل کیا مصروفیات ہیں؟

جواب: لکھنے لکھانے اور پڑھنے پڑھانے کے علاوہ بھی کئی ایک کام کرتا ہوں۔ کزن کے ساتھ مل کر کاروبار بھی کررہا ہوں ۔ دینی و ادبی اور درس نظامی کی کتب اور اسٹیشنری کا کام ہے۔ آن لائن ڈرائی فروٹ کی ترسیل کا سلسلہ بھی ہے۔کاروبار میں بڑی برکتیں ہیں۔ اہل علم کو پارٹ ٹائم ضرور کاروبار کرنا چاہیے۔محلے کی مسجد میں جمعہ پڑھاتا ہوں۔ جمعہ میں بطور تقریر درس قرآن دیتا ہوں۔ مختلف سیمنارز اور ورکشاپس میں لیکچر دیتا ہوں۔ بعض ادارے اچھی خاصی پیمنٹ بھی کرتے ہیں۔ ملک بھر میں سیمنارز اور ورکشاپس میں بڑے شوق سے شرکت کے لیے جاتا۔ ریڈیو پاکستان گلگت میں 2010 سے مسلسل دینی و سماجی  موضوعات اورکیریئرکونسلنگ پر لیکچر دیتا ہوں۔ اس کا بہت فائدہ ہوتا ہے۔ریڈیوپاکستان گلگت کا باقاعدہ گیسٹ اسپیکر ہوں۔سماجی ایکٹویٹیز بھی جاری رہتی ہیں۔لوگوں کے ساتھ ملنا ملانا بڑا اچھا لگتا ہے۔کئی ایک فلاحی اداروں کیساتھ بھی علمی و قلمی کنٹری بیوشن کرلیتا ہوں۔اس سب کے ساتھ گھر والوں کو بھی وقت دیتا ہوں ۔ احباب اور تلامذہ کو بھی وقت دیتا ہوں۔احباب اور تلامذہ کے لیے الگ گروپس بنارکھے ہیں اور فیملی اور کاروباری احباب کے بھی گروپس ہیں۔

سوال: درس قرآن کے لیے کونسی تفاسیر کا مطالعہ کرتے ہیں؟

جواب:         کچھ عربی اور کچھ اردو تفاسیر کا بالاستیعاب مطالعہ کرتا۔عربی تفاسیر میں علامہ نیسابوری کی الوسیط فی تفسیرالقرآن المجید،علامہ صابونی کی صفوۃ التفاسیر،صابونی کی ہی التفسیر الواضح المیسر اور عربی ترجمہ جو سعودی حکومت کی طرف سے تیار کردہ التفسیر المیسر کا بالاستیعاب مطالعہ کرتا۔

اردو تفاسیر میں مولانا ادریس کاندھلوی کی معارف القرآن، مولانا مودودی کی تفہیم القرآن، مفتی تقی عثمانی کی آسان ترجمہ قرآن اور اپنے پیر و مرشد مفتی مختارالدین شاہ  کی تفسیر البرہان فی توضیح آیات الرحمان  کا لفظ لفظ پڑھتا ہوں۔ ہر جمعہ کے درس کے لیے ان  چار عربی اور چار اردو تفاسیر کا ہر حال میں مطالعہ کرتا ہوں۔

ان کے علاوہ ابن کثیر، ترجمان القرآن،گلدستہ تفاسیر، معارف القرآن شفیع عثمانی،خلاصۃ القرآن، انوارالبیان وغیرہ کو ضرورت پڑھنے پر دیکھتا ہوں۔علامہ اصلاحی کی  تدبرقرآن اور کچھ بڑی عربی تفاسیر نہ ہونے کی وجہ سے استفادہ سے محروم ہوں۔ لفظی ترجمہ کے لیے علامہ جوناگڑھی اور مفتی تقی عثمانی کے ترجمہ بغور پڑھتا۔ان سب تفاسیر کے اخذ شدہ نکات کاقرآنی  بیاض پر نوٹس لیتا ہوں۔

سوال: وہ کونسے اہل علم ہیں جن سے استفادہ کرنا چاہیے اور کن سے نہیں کرنا چاہیے؟

جواب:          میرا نقطہ نظر یہ ہے کہ بقراط سے لے کر مانٹیسکیو تک سب غیر مسلم اسکالرز اور سائنس دانوں سے استفادہ ضروری ہے۔آج عملا پوری مسلم دنیا غیر مسلم دانشوروں اور سائنس دانوں سے استفادہ کررہی ہے۔ان کی علمی تحقیقات ،افکار و نظریات اور ان کی کتب مسلم دنیا کی ہر یونیورسٹی و جامعہ میں پڑھائی جاتی ہیں۔سوشل سائنسز اور پیورسائنسز کا اکثر لٹریچر ان کا ہی ہماری درسگاہوں میں داخل نصاب ہے۔اس کے بعد پھر ثواب کی نیت سے ان مفکرین اور دانشوروں اور سائنسدانوں کو گالی نہیں دی جاسکتی۔بلکہ ان کا شکریہ ادا کرنا لازم ٹھہرتا ہے۔
رہی بات مسلم دنیا کے اسکالرز کا تو ان سے استفادہ کرنا عصر حاضر کے معاملات کو سمجھنے میں یقینا مدد ملتی ہے۔اگر کسی نے حدود سے تجاوز کیا ہے تو ان کو پڑھ کر ہی ان کا علمی محاکمہ کیا جاسکتا ہے۔رجما بالغیب کے ذریعے نہیں۔بڑے بڑے اسکالر ، فقہاء اور مجتہدین معاصر علماء سے نہ صرف استفادہ کرتے ہیں بلکہ ان کا خوشہ چیں ہونے کا اعتراف بھی کرتے ہیں۔دور جانے کی ضرورت نہیں مفتی تقی عثمانی صاحب کو بطور تمثیل پیش کیا جاسکتا۔ اگر کوئی اپنی علمی استعداد ،قوت استدلال اور دلیل و منطق سے یہ سمجھتا ہے کہ فلاں اسلامی اسکالر، عالم، مفتی یا مجتہد نے فلاں جگہ منصوص احکام سے روگردانی کی ہے یا علمائے امت کی اجماعی طریق سے جدا گانہ راہ اختیار کی ہے تو یقینا اس پوائنٹ میں اس سے شدید اختلاف کیا جائے اور علمی محاکمہ ومحاسبہ بھی۔مگر یہ کہاں کا انصاف ہے کہ عمر بھر دینیات میں غوطہ زنی کرکے علوم و معارف کا دریا بہانے والے اہل علم کو گمراہ قرار دیا جائے اور یک جنبش قلم ان کی ساری کاوشوں کو دریابرد کردیا جائے؟بہرحال ان کے معاملے میں خذ ما صفا و دع ماکدر کا اصول اپنانا ہوگا۔
ہاں اگر کسی کا عقیدہ وایمان اتنا کمزور ہے یا کسی کی علمی حالات اتنی پست ہے کہ وہ افلاطون و ارسطو، کانٹ، گارنر، مانٹیسکیو، احمد دیدات، علامہ رشید، سر سید احمد خان، قطب شہید، حسن البناء،مولانا مودودی ، عبیداللہ سندھی،جلال الدین افغانی،ابوالکلام آزاد ،علامہ اسد،وحیدالدین خان اور غامدی کو پڑھنے سے گمراہ ہوجاتا ہے۔ایمان سے محروم ہوجاتا ہے اور فوری طور پر ان کا نام لیوا بنتا ہے اور اپنے مسلک و منہج سے ہٹ جاتا ہے ،تو پلیز وہ ضرور ان سے دور رہیں بلکہ ان کی کتب موجود ہوں تو فورا ادھر ادھر کردیں۔خلاصہ کلام کہ اہل علم کی کسی بھی تصنیف و تالیف اور تحقیق سے فائدہ اٹھانا ہی اہل علم و طالب علم کا شیوہ ہے۔

سوال:  بڑوں کے تفردات اور علمی اختلافات کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟

جواب:      اکابر اہل علم و قلم کے حوالے سے میرا نقطہ نظر بہت  کلیر اور واضح ہے جس کا پہلے بھی کئی بار اظہار کرچکا ہوں۔
امام مالک رح نے فرمایا تھا کہ:
“کل یوخذ من قولہ و یترک، الا صاحب ھذا القبر صلی اللہ علیہ وسلم”
“ہر شخص کے اقوال میں کچھ قابل قبول اور کچھ ناقابل قبول ہیں۔ اس باب میں رسول اللہ اکلوتا ہے کہ ان کی ہر بات بلاچوں و چراں قابل قبول ہے”۔
اکابر امت کے بارے میں ہمارا یہی رویہ ہونا چاہیے۔ میں پشتینی اور درسی دیوبندی ہوں مگر ان تمام اہل علم کو عزت ومرتبہ کی نگاہ سے دیکھتا ہوں جنہوں نے دین کی بڑی خدمت کی۔اپنے افکار و تعبیر دین سے ایک دنیا کو متاثر کیا اور جدید ذہن نے ان کو اپیل بھی کیا لیکن ان کے تفردات سامنے آئے اور وہ اہل علم حضرات جو میرے مسلک و عقائد سے اختلاف کرتے تھے یا ہیں۔ان سب کی مجتہدانہ کاوشوں کا دل سے قدردان ہوں۔
اللہ تعالی اندھے مسلکی مجاہدین  و مقلدین اور مخالفین سے مسلمانوں کی حفاظت فرمائے۔ اس  قسم کے متشدد لوگوں سے امت میں علمی و فکری اور عملی انتشار پھیلتا ہے۔جو بہر صورت قابل مذمت و قابل متروک ہے۔ بڑوں کے تفردات اور علمی اختلافات کو علمی انداز میں لینا چاہیے نہ کہ بغض و عناد اورمسلکی تعصب کا سبب بننے دینا چاہیے۔
یاد رہے!
حرف آخر، اللہ کا کلام اور رسول اللہ کے فرامین ہیں۔ ان کے سوا تمام اہل علم کی عالمانہ اور مجتہدانہ آراء  سے قرآن و حدیث کی روشنی میں احترام و وقار کیساتھ اختلاف کرنے کی گنجائش موجود ہے۔

سوال:  کیا آپ کا لکھا ہوا کبھی باعث پریشانی و شرمندگی ہوا ہے؟

جواب:    یہ بہت دلچسپ سوال ہے۔سیاسی رہنماؤں کے ماضی کے بیانات اور اعمال اور آج کی صورت حال دیکھ،کر، ان کی کھسیانی شکل کا جائزہ لےکر اپنی ہر تحریر سے ڈر لگنے لگتا ہے کہ کل کوئی اٹھا کر منہ پر نہ مارے۔اس لیے ضروری ہے کہ جو بھی لکھا جائے صرف سچ و حق ہو۔ سچ کے ساتھ اس کا لکھنا ضروری اور اہم بھی ہو۔صرف سچ و حق اور ضروری و اہم ہونا کافی نہیں بلکہ کہنے کا انداز شائستہ، لہجہ نرم اور الفاظ مناسب ہوں۔اللہ اس وقت سے بچائے کہ آج بے فکری یا بے توجہی کیساتھ لکھی ہوئی کوئی تحریر، کہا ہوا کوئی جملہ اور نکلا ہوا کوئی لفظ کل کلاں بری طرح پیچھا نہ کرے اور ناقدین وہی لکھاوٹ اٹھا کر منہ پر نہ مار دیں۔
ہم روز دیکھتے ہیں کہ سیاسی قائدین کی ہر سابقہ تقریر ان کا منہ چڑا رہی  ہوتی ہے اور ہر ٹاک شو ان کے لیے مصیبت بنا ہوا ہے۔ہر اخباری بیان ان کا بری طرح تعاقب کررہا ہے۔ بیچارے کہیں کے نہیں رہ جاتے۔
لہذا ہر سمجھ دار آدمی کو چاہیے کہ ایسا لکھیں کہ کھبی اپنے لکھے ہوئے پر پشیمانی نہ ہو۔بس سچ ہو، کہنا ضروری بھی ہو اور اسلوب شائستہ ہو یعنی حق بات، حق طریقے سے حق نیت کیساتھ شائستہ الفاظ میں لکھی اور کہی جائے تو ان شاء اللہ ماضی قریب اور بعید میں قلم کار کے لیے باعث ندامت نہیں ہوگی بلکہ سبب تسکین و طمانیت بنے گی۔ میرے ساتھ اب تک تو ایسا نہیں ہوا ہے البتہ اللہ سے دعا ہے کہ آئندہ بھی لکھا ہوا شرمندگی کا باعث نہ ہو۔

سوال: آپ نے اب تک کتنے کالم لکھے ہیں اور تصنیفات و تحقیقات کتنی ہیں؟

جواب: میں نے اب تک بلامبالغہ پندرہ سو سے زائد کالم لکھے ہیں جو گلگت بلتستان و پاکستان کے درجنوں اخبارات، رسائل اور ویب سائٹس میں شائع ہوئے ہیں۔گلگت بلتستان  وچترال کے تمام اخبارات اور ویب سائٹس پر بیک وقت میرا کالم شائع ہوتا ہے۔ ایک کلک پر سارے کالم سامنے آئیں گے۔ ان اخبارات اور ویب سائٹس کی تعداد دو درجن سے زائد ہے۔ ملکی اخبارات روزنامہ جنگ، نائٹی ٹو نیوز،روزنامہ اوصاف اسلام آباد، روزنامہ اسلام کراچی میں میری کئی تحریریں(کالم اور فیچرز) شائع ہوئے ہیں۔دلیل پی کے، ہماری ویب کراچی، مکالمہ، آئی بی سی اور پامیرٹائم  میں میرے مستقل بلاگز ہیں۔

مشاہیرعلمائے گلگت بلتستان  کے نام سے اہل سنت علماء گلگت بلتستان کی سوانح عمریوں  پر پندرہ سال سے کام کررہا ہوں۔ بہت سارا مواد جمع ہوا ہے۔ تین چار جلدیں بن سکتی ہیں۔ گلگت بلتستان اور چترال کی حسین و ادیوں پر کئی سفرنامے شائع ہوئے ہیں جو ایک بہترین کتاب بن سکتی ہے۔کئی سالوں سے کیرئیر کونسلنگ اور گائیڈنس پر سوشل میڈیا میں لکھ رہا ہوں، گزشتہ تین سال سے یک سطری کلر پوسٹ کرتا ہوں۔ ایک حرف کے اضافے سے پوسٹ کلرفل نہیں ہوتی اس لیے بعض دفعہ ایک بامقصد جملہ لکھنے کے لئے بیسویں دفعہ جملہ مٹاکر دوبارہ لکھنا پڑھتا ہے۔ میرے لیے یہ ایک زبردست تجربہ ہوا ہے۔ ایک لائن میں بامقصد بات کہنا ، مجھے جیسے کم علم انسان کے لیے مشکل ضرور ہے لیکن مشق کی بنا پر اب تسلسل کے ساتھ لکھتا ہوں۔خیال کو فوری مختصرا فیس بک کی نظر کرتا ہوں۔

سوال: آپ کے پسندیدہ کالم نگار کون کون ہیں؟

جواب:         میں حفظ کے دور سے کالم نگاروں کو پڑھتا ہوں۔زمانہ طالب علمی میں الولبابہ شاہ منصور، قاری منصور احمد، اسلم شیخ پوری، ابن الحسن عباسی،سیلانی(احسن کوہاٹی)، ولی رازی،نوید ہاشمی، ،مولانامسعود اظہر،مولانا اعظم طارق مولانا منصور احمد،اوریا مقبول جان، پروفیسر متین الرحمن  مرتضی، اعجازمنگی،عرفان صدیقی، یاسراحمد خان، قاری منصور احمد، فاروق قریشی، شفیع چترالی، وغیرہ کے کالم شوق سے پڑھتا تھا۔ ان صاحبان کےکالمز ،روزنامہ امت،روزنامہ اسلام، ہفت ضرب مومون اور ہفت روزہ القلم میں چھپتے تھے۔ہم زمانہ طالب علمی میں  سیلانی(احسن کوہاٹی) کے عشاق میں تھے۔ اب وہ دوست بن گئے ہیں۔

ان کے علاوہ عطاء الحق قاسمی، نذیر ناجی،ڈاکٹر صفدر محمود،ڈاکٹرشاہدمسعودعبداللہ طارق سہیل، سلیم صافی،وسعت اللہ خان، اوریا مقبول جان، زاہدہ حنا،عبدالقادر حسن،یاسر پیرزادہ،مولانا زاہدالراشدی،ڈاکٹر صفدر محمود،اجمل نیازی،عامر خاکوانی،حامد میر،،ڈاکٹر عامر لیاقت،ڈاکٹر بابر اعوان، ہارون الرشید، حسن نثار، محمود شام،مجیب الرحمان شامی وغیرہ کو خوب پڑھا۔عامر لیاقت کی اردو کمال کی ہوتی تھی۔

بہر صورت اب تک وسعت اللہ خان، عرفان صدیقی، جاوید چودھدری  اور خورشید ندیم کے سحر سے نہ نکل سکا۔ گزشتہ پندرہ سال سے جاوید چوھدری کا کوئی کالم پڑھے بغیر چھوڑا نہیں۔اور گزشتہ پانچ سال سے خورشید ندیم کا کوئی کالم مجھ سے ضائع نہیں ہوا۔ ان دونوں کے کالم بلاناغہ پڑھتا ہوں۔ موبائل کی بک مارک میں لگایا ہوا ہے۔ باقی کالم نگاروں کے ضروری کالم اب بھی پڑھتا ہوں مگر ان دونوں کا کالم پڑھے بغیر نیند نہیں آتی۔ عامر خاکوانی کے کالمز بھی اکثر پڑھ لیتا ہوں اور ساتھ تبصرہ بھی کرتا ہوں۔سماجی موضوعات  پر دینی تعلیمات کی روشنی میں  خورشید ندیم اور کیرئیر کونسلنگ پر جاوید چودھدری سے اچھا کالم  بڑے اخبارات میں میرے نزدیک کوئی نہیں لکھتا۔دینی مدارس وجامعات اور دینی ایشوز پر بہت ہی پیارے انداز میں مولانا زاہدالراشدی لکھتے ہیں۔ ان کے الشریعہ کے مضامین  بالخصوص  پڑھنے کےلائق ہوتے ہیں۔ احمد جاوید صاحب کے کچھ انٹرویوز پڑھے ہیں۔ کمال انسان ہیں۔

ارشاد احمد حقانی جنگ میں لکھتے تھے۔ ان کی وفات تک ان کے کالم مستقل پڑھتا رہا۔ میں ان سے بہت متاثر تھا۔ ان کی کئی کتب اردو بازار کراچی سے خریدی تھی۔شاید انہوں نے پچاس سال مسلسل کالم لکھا۔کالم پر ان کی شاندار گرفت ہوتی تھی۔ دینی طبقات پر ٹھیک ٹھاک تنقید کرتے تھے۔ ان کی تنقید بے جا نہیں ہوتی تھی۔ اہم موضوعات پر  لکھتے اور تنقید کرتے۔

سوال: سوشل میڈیا کو کس نظر سے دیکھتے ہیں کہیں سوشل میڈیا نے ہمیں نرگسیت کا شکار تو نہیں بنایا؟

جواب:    میں سوشل میڈیا کو اوپن یونیورسٹی کا درجہ دیتا ہوں۔ یہ ایک ایسا فورم ہے جس میں   ہر انسان  کو انٹری حاصل ہے۔

یہ بات بھی بڑی حد تک درست ہے کہ سوشل میڈیا نے ہمیں نرگسیت کا شکار بھی بنایا ہے۔ اس پر مفصل بات ہوسکتی ہے۔کچھ بھی ہو سوشل میڈیا کی افادیت و اہمیت سے انکار ناممکن ہے۔مگر بدقسمتی سوشل میڈیا کی اس اوپن یونیورسٹی میں سب پروفیسر ز ہیں طالب علم کوئی نہیں۔ہمارے ملک میں کچھ سیاسی جماعتوں نے زبردست قسم کی سوشل میڈیا ٹیمیں بنائی ہیں۔مجھے لگتا ہے کہ عمران خان نے انتخابات بھی سوشل میڈیا ٹیم اور پاور  کی وجہ سے جیتے ہیں۔ میرے دوست اور جے یو آئی کے سرگرم  لیڈر  راشد محمود سومرو نے بھی ایک پاور فل سوشل میڈیا ٹیم بنائی ہے اور اس کا بھرپور استعمال بھی کرتے ہیں۔ بہر صورت ہر ادارہ اور پرسنالٹی کو اپنی سوشل میڈیا ٹیم بنانی چاہیے جس میں اپنا مثبت بیانیہ شیئر کریں۔سوشل میڈیا پر منفی سرگرمیوں کی بجائے مثبت سرگرمیوں  کو فروغ دینا چاہیے۔ اپنی کارگردگی، خیالات، بیانیہ اور فکر و نظر کی تشہیر و تبلیغ کی جائے تو ادارہ یا انسان خود بخود متعارف ہوجائے گا۔

ایک اہم بات یہ ہے کہ سوشل میڈیا نے بہت سارے سماجی مسائل بھی پیدا کیے ہیں۔دنیا میں سوشل میڈیا کی وجہ سے شرح طلاق بڑھ گئی ہے۔بہت سارے عالمی اداروں کی سروے رپورٹس یہی کہتی ہیں۔ ریاست پاکستان کے لیے اس وقت سوشل میڈیا بالخصوص فیس بیک ایک خطرناک ترین چیلنج بنا ہوا ہے۔ اس کے لیے کوئی رول ریگولیشن نہیں ہیں۔ پاکستان کے خلاف دنیا بھر کے سوشل میڈیا کے صارفین جنگ لڑرہے ہیں۔ ہائبرڈ اور ففتھ جنریشن وار کا مقابلہ پاکستان کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے۔ پی ٹی اے اور پیمرا کے پاس بھی کوئی واضح اصول اور قوانین نہیں۔ بہر صورت سوشل میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کے لیے شاندار قانون سازی کرنے کی ضرورت ہے۔ تاکہ سماج اور ریاست دونوں کو سوشل میڈیا کے منفی اثرات اور جعلی اکاونٹ سے پھیلائی جانے والی منافرت اور پروپیگنڈے سے روکا جاسکے۔

سوال: سوشل میڈیا میں سب سے زیادہ کس سے استفادہ کیا؟

جواب:         سوشل میڈیا میں ڈاکٹر طفیل ہاشمی، ڈاکٹر محمد مشتاق،ڈاکٹر عاصم اللہ بخش اور عامر خاکوانی سے سب سے زیادہ استفادہ کیا ہے۔ان کو پسندیدہ اور فرسٹ سی میں لگایا ہوا ہے۔باقی بھی بہت سارے لکھاریوں سے استفادہ کررہا ہوں۔ڈاکٹر قبلہ ایاز، مفتی محمد زاہد،امام عطاء اللہ خان،عبدالخالق ہمدرد،عمارخان ناصر، اسرار مدنی، فیض اللہ خان، انعام رانا،جمال عبداللہ،حافظ صفوان،ہمدرد حسینی،عارف انیس، عامرہزاروی،وقاص خان،ریحان اللہ والا،عنایت شمسی،قطب الدین عابد،عطاء الرحمان روغانی،بشیرقریشی،ضیاء چترالی،ڈاکٹر عامر طاؤسین،زاہد مغل،ثمرخان ثمر،محمد عدنان کاکاخیل،محمد الکوہستانی(مفتی محمد نذیر)،زاہدعبدالشاہد،احسن کوہاٹی،عابد محمود عزام،محمد جان اخونذادہ،ڈاکٹر اسحاق عالم،فیصل شہزاد،ڈاکٹر حسین، حمزہ گلگتی،ابراہیم عابدی،مولانا شفیع چترالی،لطف الرحمان چترالی،ڈاکٹرعنایت اللہ فیضی،تاج کوہستانی،نورپامیری،رشید ارشد،محبوب خیام،ایڈوکیٹ عمران،نمبردار ثناء اللہ انقلابی،شہاب الدین غوری، ممتاز گوہر،مطابعت شاہ،فہیم اختر،منظرشگری،یونس سروش، اسرارلدین اسرار،عبدالکریم کریمی،احسان شاہ،شبیرمیر،اشتیاق احمد یا، سلیمی،ضیاء اللہ گلگتی ،اور شکیل رانا وغیرہ میری فرینڈ لسٹ کے بڑے سنجیدہ نام ہیں۔ان کی تحریروں اور کمنٹس سے بہت کچھ نیا سیکھنے کو ملتا ہے۔ان کے علاوہ بھی کئی نام ہیں۔

برادرم محمد عبدہ ایک اچھا نام تھا مگر انتہائی سیاسی تعصب کرنے اور جے یو آئی کے علماء کو گالیاں دینے کی وجہ سے نہ چاہتے ہوئے بھی ان فرینڈ کرنا پڑا۔ اس پر ابھی تک دکھ ہے کہ اتنا اچھا لکھاری مجھ سے انفرینڈ ہوگا۔ اگرچہ اس کے ساتھ ذاتی دوستی برقرار ہے۔

سوشل میڈیا میں واٹس ایپ اور فیس بک بہت انجوائی کرتا ہوں۔ واٹس ایپ میں کئی گروپس کامیابی سے چلاتا ہوں جن میں  ”احباب کیا کہتے ہیں؟” کے نام سے گروپ ہے جس میں اہل علم حضرات ہیں۔” حقانی اسٹوڈنٹس”  کے نام سے دوسرا گروپ ہے جس میں میرے اکثر طلبہ ہیں۔ان کی علمی رہنمائی   اور کیرئیر کونسلنگ کرتا ہوں۔”حقانی فیملی” کے نام سے فیملی ممبرز کا گروپ ہے۔ ”گلوبل کتاب گھر” کے نام سے تجارتی امور کا گروپ ہے۔ان کے علاوہ بہت سارے اہل علم و فن اور صحافیوں کے گروپس میں وقت دیتا ہوں، مکالمے اور مباحثے کرتا ہوں۔بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے۔

سوال: عموما    یہ کہاجاتا ہے کہ علم و دولت متضاد چیزیں ہیں۔ کیا واقعی علم اور دولت متضاد چیزیں ہیں؟

جواب:         دوچیزوں کے بغیر کوئی فرد، کوئی ادارہ، کوئی آرگنائزیشن، کوئی فیملی، کوئی معاشرہ اور کوئی وملک و ریاست ترقی نہیں کرسکتا۔ میں نے اپنی دانست کے مطابق ہر ممکن کوشش کی کہ ان دونوں میں سے کوئی ایک کو نکال کر کسی کو ترقی وعروج اور سکون و طمانیت  کی راہ میں گامزن دیکھوں مگر مجھے کوئی شاندار مثال نہ ملی۔ البتہ انبیاء علیہ السلام اور اولیاء کرام  اس سے مستشنی ہیں۔ان کے ساتھ اللہ کا معاملہ اور اللہ کی سنت الگ ہے۔
وہ دو چزیں یہ ہیں۔
١۔ علم
٢۔دولت
ان دونوں چیزوں کو الگ کر کے کوئی أگے نہیں بڑھ سکتا نہ ہی بامِ عروج حاصل کرسکتا ہے۔ مسلمانوں کے شاندار أیام کا مطالعہ کیا جاوے اور ان کی تاریخ کنگالی جاوے تو مسلمان ہر اس دور میں ترقی کے راہ پر گامزن نظر آئیں گے جب ان کے پاس علم اور تحقیق و حکمت بھی تھی اور بے تحاشا مال و دولت بھی  یعنی وہ معاشی اعتبار سے بھی سپرپاور تھے۔ تب مسلمان تجارت پر بھی قابض تھے اور دنیا کے حاکم بھی تھے۔یعنی علم و دولت نے انہیں دنیا پر حاکم بنا دیا تھا۔
أج بھی ترقی یافتہ ممالک ان دونوں کی وجہ سے دنیا پر حکمرانی کررہے ہیں۔پاکستان کا بہترین ٹیلنٹ پاکستان میں صرف اس لیے نہیں ٹک سکتا کہ ان کے ٹیلنٹ کا معاوضہ پاکستان نہیں دے سکتا۔أپ کسی ایک فیلڈ کا سروے ہی کیجے۔اندازہ ہوجائے گا۔وہ غریب ٹیلنٹ ان ممالک میں جانے کو ترجیح دیتا جہاں انہیں بھاری معاوضہ دیا جاتاہے۔اور انکے علم وفن کی قدر کی جاتی ہے۔
میں نے کسی سے سنا تھا یا کہیں پڑھا تھا کہ ”مال اور علم ساتھ جمع نہیں ہوسکتے”۔ میں چاہنے کے باوجود بھی اس نکتے سے اتفاق نہ کرسکا۔ میں نے بہت سارے نامور علما ء  اورمحققین کی سوانح عمریاں پڑھی ہیں۔ مجھے ان کے پاس علم کیساتھ دولت بھی وافر مقدار میں نظر آئی ۔ میں نے بہت ساری درسگاہوں کا بھی جائزہ لیا۔ جو درسگاہ بڑا بجٹ رکھتی ہے اس درسگاہ نے نام بھی کمایا اور نامور بھی پیدا کیے۔اسلامی اسکالرز میں امام ابوحنیفہ سے مفتی تقی عثمانی تک ہر بڑا أدمی صاحب ثروت ہے۔ ان میں کھبی کوئی دال روٹی کے لیے نہیں ترسا اور نہ ہی بیوی بچوں کے علاج معالجے کے لیے پریشان ہوا۔ میں ایسے سینکڑوں افراد کو جانتا ہوں جن کے پاس بڑا علم تھا کتب بینی اور فہمی میں کمال رکھتے تھے لیکن غریب تھے ،ان کی غربت نے ان کو اپنے گاوں تک محدود کیا۔
آج بھی وہ مدارس وجامعات اور یونیورسٹیاں اور تعلیمی ادارے کامیاب جارہے ہیں جن کے پاس اچھا بجٹ ہے۔
اسلامی دنیا کے پاس بے تحاشا وسائل ہیں لیکن علم وتحقیق کے فقدان کی وجہ سے وہ کسی کھاتے میں شمار نہیں ہوتے۔اگر یہ ممالک صرف اپنے وسائل بھی ٹھیک استعمال کرنا جانتے یعنی سائنسٹفک انداز میں، تو یہ اتنے کمزور نہ ہوتے۔یہ علم کے بغیر ممکن نہیں۔صرف دولت سے بھی کام نہیں چلتا۔
آپ مجھ سے ضرور اختلاف کیجے لیکن آپ دس نامور علمی شخصیات اسکالرز اور سائنس دانوں،دس نامور اداروں اور دس ترقی یافتہ ممالک کا باریک بینی سے جائزہ لیں جن کی دنیا میں دھوم مچی ہوئی ہے یا جن کو پاکستان میں بھی ناموری حاصل ہے۔ آپ کو ان میں علم اور دولت ساتھ ساتھ چلتے نظر آئیں گے۔ ان دنوں کے بغیر وہ زیرو ہیں۔
میں نے سعدی شیرازی کے متعلق کہی پڑھا ہے۔ انہوں نے فرمایا تھا کہ

”انسان کو دنیا میں بے تحاشا علم حاصل کرنا چاہیے اور ساتھ ہی بے تحاشا مال و دولت بھی کمانا چاہیے”
امیر تیمور نے سعدی کے اس قول پر دل وجان سے عمل کیا اور ”تیمور دہ گریٹ” بنا۔آپ کھبی ان کی سوانح عمری بھی پڑھ لیں اگر موقع ملا تو۔
میں ایسے درجنوں علماء  و حکماء  اور ریسرچر و اسکالرز کو جانتا ہوں جن کی غربت نے ان کی علمیت و دانش اور تحقیق وتدقیق اور تفقہ کو مزاق بنایا ہے اور وہ دوسروں کے رحم وکرم پر ہیں۔ اور سینکڑوں ایسے دانشوروں،لکھاریوں اور عالموں کو جانتا ہوں جن کی دولت نے ان کی علم و تحقیق اور دانش و بینش کو پرموٹ کیا اور سوسائٹی نے انہیں قبول بھی کیا اور انہوں نے معاشرے سے خود کو تسلیم بھی کرایا اور اپنے فن میں بڑا کام بھی کیا۔ دولت کے بغیر علم وحکمت اور تحقیق و دانش عنداللہ تو قبولیت پاتی ہوگی لیکن عندالناس اس کی مثالیں خال خال نظر آتی ہیں۔ ہاں یہ بھی یاد رہے کہ اللہ نے ان مالداروں سے نفرت کا اظہار کیا ہے جنہوں نے مال اسٹاک کیا یعنی مال کو جمع کیے رکھا ۔مالِ قارون اس کی مثال ہے۔ ایسے لوگوں نےانویسمنٹ کے بجائے ڈیپازٹ کو ترجیح دیا۔کساد بازاری کا سبب بنے وہ اللہ کیساتھ مخلوق کے لیے بھی ناپسندیدہ ہیں۔
اللہ ان لوگوں سے نفرت نہیں کرتا جو مال ودولت کو انویسٹ کرتے اور ایک فیکٹری کے بعد دوسری ،دوسری کے بعد تیسری لگاتے ہیں جن کی وجہ سے ہزاروں انسانوں کی دال روٹی چلتی اور بچے تعلیم پاتے ہیں۔
دنیا میں جو لوگ فکس معاوضے پر کام کرتے ہیں اللہ انکے مال میں برکت سے نہیں نوازتا اور ان کو بے تحاشا دیتا جو ضرورت نہ ہونے کے باوجود بھی کام کرتے ہیں۔اور دوسروں کے لیے کسبِ معاش کے مواقع پیدا کرتے۔یہ لوگ عنداللہ اور عندالناس قابل تحسین بھی ہیں اور قابل تقلید بھی۔
بہرصورت آپ ہر اس فرد،خاندان، ادارہ، آرگنائزیشن، معاشرہ اور ملک کا طائرانہ جائزہ لیں جو ترقی کررہا ہے یا کرچکا ہے۔ اس میں مال و دولت اور علم وتحقیق ساتھ ساتھ چلتے نظر آئیں گے۔ میں نے أغاخان فاونڈیشن کے تعلیمی اداروں کی ترقی کا راز جاننے کی کوشش کی تو مجھے اندازہ ہوگیا کہ ان کے پاس تعلیم کی مد میں بہت سارا بجٹ ہے وہ اس بجٹ کو سنجیدگی کیساتھ ان علوم و فنون پر خرچ کرتے جن کی معاشرے کو ضرورت ہوتی ہے یعنی جن کی مارکیٹ ویلیو ہوتی ہے۔
میں ایک ایسے عالم کو بھی جانتا ہوں جس کے متعلق مفتی  تقی عثمانی نے کہا تھا کہ ”اتنا بڑا عالم آپ کے پاس ہے اور آپ میرے پاس آئے ہیں”۔
وہ ذہین ترین عالم آج بھی اپنے ضلع تک محدود ہے اور تقی عثمانی صاحب کی علمیت کے ڈنکے پوری جہاں میں بجتے ہیں۔
میں درجنوں ایسے لکھاریوں کو بھی جانتا ہوں جن سے میں بھی اچھا لکھتا لیکن ان پر کروڈوں انویسٹ کی گئی ہےاور آج وہ نامور لکھاری اور باخبر صحافی کہلاتے ہیں۔آپ  بس ایک کام کیجے۔ آپ علم اور دولت کو الگ الگ خانوں میں مت رکھیں۔آپ دونوں کو ساتھ ساتھ چلائیں۔آپ کو بے تحاشا علم کے لیے بے تحاشا مطالعہ کرنا پڑے گا اور بے تحاشا دولت کے لیے انتھک محنت اور کام کرنا پڑے گا۔بس آپ مطالعہ اور کام کو ساتھ ساتھ چلائیں۔پھر آپ دنیا میں بھی نام کمائے گے اور أخرت میں بھی سرخرو ہونگے۔

سوال: صراط مستقیم کے اجراء، اور اس کے اب تک کے سفر کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں؟

جواب:     ماہنامہ صراط مستقیم کے کچھ شمارے پڑھنے کو ملے۔ بہت شاندار سلسلہ ہے۔یہ حافظ محمد فہیم علوی کی عالمانہ کاوش ہے۔ میگزین کے ہر ہر صفحے سے ان کا ذوق ٹپکتا ہے۔فہرست عنوانات پر نظر ڈالنے سے اندازہ ہوہی جاتا ہے کہ میگزین عملے کا ذوق شاندار ہے۔بہت سارے عوامی عنوانات کو میگزین میں جگہ دی گئی ہے۔ اس سے عام قاری پڑھنے میں دلچسپی لیتا ہے۔ میرے خیال میں مزید عام اور سہل اور عوامی و سماجی موضوعات کو میگزین میں جگہ دینی چاہیے۔

اہل علم و قلم کے  شخصی انٹرویوز کا پورشن بہت معیاری اور اچھا لگا۔ بہت سارے محققین کا علم ہوا۔ سوال و جواب کا اسلوب بھی بہت دل کو بھاتا ہے۔ماہنامہ صراط مستقیم کا سب سے اچھا اور دلچسپ کارنر ”صراط مستقیم میرج سروس” لگا۔نکاح جیسے عمل کے لئے سہولت پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ہمارے سماج میں گناہ اور زنا  آسان ہے جبکہ نکاح روز بروز مشکل ہوتا جاتاہے۔ ہر گھر میں اس حوالے سے پریشانی پائی جاتی ہے ایسے میں ادارہ صراط مستقیم اپنی خدمات پیش کررہا ہے جو لائق تحسین ہے۔میرا خیال ہے کہ صراط مستقیم کا حجم تھوڑا سا زیادہ ہونا چاہیے۔ کچھ ریسرچ پیپرز کو بھی جگہ دینا چاہیے۔ جیسے شخصی انٹرویوز کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے اس طرح کے دو چار اور اہم سلسلے شروع کیے جانے چاہیے ساتھ ہی ہر شمارے میں کسی اہم اور جدید موضوع پر ایک ریسرچ  آرٹیکل بھی شامل کرنا چاہیے۔

سوال: گلگت بلتستان کے معروضی حالات کیا ہیں؟ہر وقت مذہبی کشیدگی کیوں  پائی جاتی ہے؟

جواب:        گلگت بلتستان دنیا کا حسین ترین خطہ ہے۔ یہاں نانگا پربت، کے ٹو، جیسے مشہور و معروف پہاڑ واقع ہیں اورسلسلسہ ہمالیہ، قراقرم اور ہندوکش کا سنگم بھی یہی پر ہے۔ہزاروں ندی نالے، سبزے ، گلیشیرز، جھلیں، جھرنے،آبشاریں یہاں موجود ہیں۔ جنگل اور جنگلی حیات کی بہتات ہے۔قدرت کی ساری رعنائیں یہاں موجود ہیں۔

یہاں کی خاص بات یہ ہے کہ کئی اضلاع ہیں، ہر ضلع کی ثقافت، زبان، رہن سہن اور مذہب تک الگ ہے۔ ہر ضلع کا موسم بھی دوسرے ضلع سے الگ ہے۔یعنی ایک خاص قسم کا تنوع پایا جاتا ہے۔ ایسے میں مذہبی، لسانی اور قبائلی عصبیت کا پایا جانا کوئی انوکھی بات نہیں۔ بہر صورت سب سے زیادہ مذہبی عصبیت پائی جاتی ہے۔تاہم یہاں کے لوگ انتہائی باشعور ہیں۔ اب تک قیام امن اور سماجی ہم آہنگی کے لیے یہاں کئی سماجی معاہدات ہوئے ہیں۔ یہ معاہدات، اہل سنت والجماعت اوراہل تشیع کے مابین بھی ہوئے ہیں۔ اہل سنت اور اسماعیلیوں کے مابین بھی ہوئے ہیں اور اہل تشیع اور اسماعیلیوں کے مابین اور اہل تشیع اور نور بخشیوں کے مابین بھی ہوئے ہیں۔ مذہبی حالات ہمیشہ کشیدہ رہتے ہیں تاہم امن اور سماجی کی بہتری کے لیے حکومت کے ساتھ عوام اور اہل علم و قلم بھی متحرک رہتے ہیں۔

سوال: اہل علم و قلم قیام امن اور سماجی ہم آہنگی کے لیے کیا کردار ادا کرسکتے ہیں؟

جواب:    کسی بھی معاشرے میں قیام امن، سماجی ہم آہنگی، مذہبی رواداری  ، دینی اخوت اور قبائلی معاملات کو سلجھانے کے لیے اہل علم و قلم اور معتبران کا بڑا کردار ہوتا ہے۔ گلگت بلتستان میں جہاں جہاں جب جب  فسادات شروع ہوئے۔ قتل و غارت کا بازار گرم ہوا، مذہبی و مسلکی منافرت شروع ہوئی، قبائلی دشمنیوں نےزور پکڑا اور علاقائی تعصب نے سر اٹھایا تو اہل علم و قلم اور علاقائی جرگہ داروں  کا ایک بڑا گروہ اٹھ کھڑا ہوا، اور اپنی بصیرت سے نفرتوں کو محبتوں میں تبدیل کردیا۔اور باقاعدہ حکومتی سرپرستی میں تمام مکاتب فکر کے علماء و شیوخ اور عمائدین نے قیام امن اور سماجی ہم آہنگی کے لیے شاندار امن معاہدات تشکیل دیے۔ اب تک مختلف علاقوں میں سات بڑے امن معاہدات تشکیل دیے جاچکے ہیں۔

گلگت بلتستان کے ان امن معاہدات پر راقم نے  ایم فل کا تھیسز لکھا ہے۔ ان امن معاہدات کے پس منظر کے ساتھ اصل معاہدہ  ڈھونڈ نکالا ہے۔ امن معاہدات کی ہر ہر شق کا قرآن و حدیث، آئین پاکستان و قوانین پاکستان کے ساتھ بین الاقوامی  قوانین کی روشنی میں جائزہ لیا ہے۔مذہبی و مسلکی اور سماجی مشترکات کا ذکر کیا ہے۔گلگت بلتستان کے معاہدات امن کا، صلح حدیبیہ، میثاق مدینہ اور  معاہدہ بیت المقدس کے ساتھ تقابلی جائزہ لیا ہے اور امن معاہدات کی غیر قانونی وغیر اسلامی شقات کی نشاندہی کرکے بہتر بنانے کی تجاویز دی ہیں۔ ان امن معاہدات کی روشنی میں گلگت بلتستان کی حکومت، اہل علم، عمائدین و جرگہ داران،  اور عوام   غرض شعبہ ہائے زندگی کے ہر طبقہ کے لیے الگ الگ ایسی تجاویز دی ہیں اور سفارشات مرتب کی ہیں جن پر عمل پیرا ہونے سے گلگت بلتستان میں قیام امن اور سماجی ہم آہنگی میں مثبت پیش رفت ہوگی۔عملی طور پر اقدامات کرنے کے لیے عملی خاکے تشکیل دیے ہیں۔

میری دانست میں اہل علم و قلم اور شعراء  نے اب تک شاندار کردار ادا کیا ہے  مزید بھی تعلیمات اسلامی اور آئین پاکستان کی روشنی میں بہتر طریقے سے کردار اداکرسکتے ہیں۔

سوال: آپ کی سفارشات اور عملی خاکوں کی کیا تفصیل ہے؟

جواب:      ان تمام عملی منصوبوں کی بڑی تفصیل ہے تاہم مختصر یہ بات  منظر عام پر آجائے کہ  بین المسالک  سماجی ہم آہنگی  کے لیے غیر سرکار سطح پر عملی منصوبوں، قوانین امن اور امن معاہدوں  کو نافذ العمل کرانے کا عمل خاکہ یعنی  امن جرگے کو قانونی حیثیت دینا، گلگت بلتستان علماء مشاورتی کونسل کا قیام، محکمہ اوقاف کا دائرہ گلگت بلتستان تک وسیع  اور علماء و مشائخ کی گلگت بلتستان اسمبلی میں خصوصی نشستیں،علاقائی مصالحاتی کونسلیں وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ پھر حکومت پاکستان، حکومت گلگت بلتستان اور اہل علم و قلم ، صحافی، سوشل میڈیا صارفین اور عوام الناس کے لیے امن معاہدات کی روشنی میں قیام امن کے لیے الگ الگ سفارشات اور تجاویز مرتب کی ہیں۔

سوال: گلگت بلتستان کے اہل علم و قلم  کے متعلق کچھ بیان کریں گے

جواب:      گلگت بلتستان میں بہت بڑے اور کبار اہل علم گزرے ہیں جن میں  درجنوں فاضلین دارالعلوم دیوبند کی ہیں۔ اسی طرح آج بھی بہت بڑے بڑے علماء موجود ہیں۔ بدقسمتی سے ان تمام جید اہل علم نے تصانیف نہیں چھوڑی۔باقی  اردو ادب اورقلم کاروں کے کئی نام ہیں۔ جن  میں اکثر سے میری اچھی شناسائی ہے۔جمشید خان دکھی،عطاء اللہ شہاب، اسلم سحر،عبدالحفیظ شاکر، احمد سلیم سلیمی، اشتیاق احمد یا، حبیب الرحمان مشتاق،احسان شاہ، یونس شروش،غلام عباس نسیم،خوشی محمد طارق، پروفیسر امین ضیاء،عبدالخالق تاج،پروفیسر حشمت کمال الہامی،فداناشادحفیط شاکر،احسان اللہ شائق،فدا علی ایثار، عبدالکریم کریمی، ڈاکٹر عزیزاللہ نجیب، عبدالعزیز دینار،مولانا عبدالمنان،مفتی عارف،غلام حسین انجم ،عنایت اللہ شمالی، نصیرالدین ہنزائی،ظفر وقار تاج،ذیشان مہدی،محمد جان،عبدالسلام ناز، بشیراللہ استوری وغیرہ اردو ادب کی بہترین آبیاری کرتے ہیں۔اردو ادب میں استاد رجی الرحمت  بہت بڑا نام تھا۔مفتی لقمان حکیم(سینئر سیشن جج) گلگت بلتستان کے بہت بڑے عالم فاضل محقق  ہیں۔ جن کی کئی  عربی کتب بیروت سے چھپی ہیں۔

سید عالم استوری،شکیل استاد،ڈاکٹر عظمی سلیم،غلام حسین حسنو،حسن شاد،ظفرحیات پال،شیرباز علی، برچہ،الواعظ عبداللہ جان ہنزائی،پروفیسر منظوم علی ، مولانا حق نواز بلتی،اور پروفیسر عثمان علی کی تصنیفات بہت شاندار ہیں۔ ان میں سب سے بڑا نام پروفیسر عثمان علی ہے جن کی تصنیفات بہت زیادہ، علمی اور تحقیقی ہیں۔گلگت بلتستان کی ایک آفاقی شخصیت ہے جس کو دنیا بابائے چلاسی کے نام سے جانتی ہے۔بابا چلاسی کی تصانیف عربی، اردو، پشتو، شینا اور ہنکو میں ہیں۔ بیک وقت ان تمام زبانوں میں شاعری کرتے ہیں۔پروفیسر ڈاکٹرمولانا عبدالقیوم مرحوم گلگت بلتستان کے سب سے بڑے محقق ہیں۔ ان کا سارا کام عربی میں ہے۔کئی ایک کتابیں اردو میں بھی لکھی ہیں۔ام القراء یونیورسٹی میں پروفیسر رہے اور زندگی کی پچاس بہاریں تحقیق میں گزاری ہیں۔ ان کی اکثر کتب سعودی حکومت نے شائع کی ہے۔

اخبارات میں والوں میں رشیدارشد،عبدالجبار ناصر، عبدالبشیرخان،ایمان شاہ، زاہد خرازی،ثمرخان ثمر، فہیم اختر،صفدر علی صفدر،نورپامیری،رشید ارشد،فیض اللہ فراق،حمزہ گلگتی،،اسرارلدین اسرار،عبدالکریم کریمی ،ارشدجگنو،ممتاز گوہر،مفتی محمد نذیر ،یقعوب طائی، منظر شگری، حبیب اللہ،محبوب خیام،شبیرمیر،بشارت،شمش پارس،بشیرقریشی، اور کئی ایک نام ہیں جو بہت اچھی اردو لکھتے ہیں۔ ملک کی ممتاز اردو ڈائجسٹوں میں گلگت بلتستان سے سب سے بہترین پروفیسراحمد سلیم سلیمی لکھتے ہیں۔ ان کی سینکڑوں کہانیاں شائع ہوئی ہیں۔

سوال:قارئین کو کیا خاص پیغام دیں گے؟

جواب:        قارئین کو بس اتنا پیغام دونگا کہ میرا طریق محبت ہے۔ سو جہاں آپ ہیں وہاں محبتوں کو عام کیجیے۔ نفرتوں کو دریا برد کیجیے۔ انفرادی زندگی میں تقوی اور اجتماعی زندگی میں خوش اخلاقی کا مظاہرہ کیجیے۔اپنی زندگی کو ہیرے کی قیمتی کان سمجھے اور خود کو ہیرا سمجھ کر، معرفت حق کےلیے سب سے پہلے اپنے آپ کو تلاش کیجیے۔زندگی میں اپنے اہداف و مقاصد طے کیجیے۔اپنے ذوق اور شوق   کو ڈھونڈ نکالیے۔آپ بہتر کیا کرسکتے ہیں یا آپ کی تخلیق کس غرض کے لیے ہوئی ہے  اور اللہ نے تمام انسانوں میں آپ کو الگ کرکے خاص کن کاموں کے انجام دہی کے لیے پیدا کیا ہے اس کی معرفت حاصل کرکے ، یعنی تخلیق الہی کی روشنی میں اپنی فیلڈ کا انتخاب کرکے اس میں جہد  مسلسل کیجیے۔جب فیلڈ کا انتخاب ہوگیا تو اس میں مکمل یکسوئی اور استقامت کے ساتھ آگے بڑھیے۔ قل ربی اللہ، ثم استقم۔

(بارہ جولائی، دو ہزار اکیس، شام سات بجے۔ 12/07.2021کو یہ انٹرویو تکمیل کو پہنچا۔ماہنامہ صراط مستقیم فیصل اآباد کے اگست 2021 کے شمارہ میں شائع ہوا۔حقانی)

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں