داد بیداد…پرائمیری سکول…ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی

گرمیوں کی طویل تعطیلات کے بعد مجھے پہاڑی مقام کے ایک پرائمیری سکول میں جانے کااتفاق ہواسکول میں 2:15بچے اور 4اساتذہ ہیں، سکول میں 3کمرے ہیں ایک چھوٹابرآمدہ ہے،بچوں کے لئے ٹاٹ بچھائے گئے ہیں ایک کمرے میں اردو،انگریزی اوراسلامیات بیک وقت پڑھائی جارہی ہے،دوسرے کمرے میں تعلیم القرآن،ریاضی اور معاشرتی علوم بیک وقت پڑھائے جارہے ہیں، تیسرے کمرے میں سائنس، ڈرائینگ اور مطالعہ سیرت پڑھانے کا اہتمام ہے بچوں کے پاس جو بستے ہیں ان کا وزن 4کلو گرام سے 6کلو گرام تک ہے، کسی استاد کے پاس تلفظ درست کرنے اور کاپی چیک کرنے کا وقت نہیں ہے، ہر کلاس روم میں مچھلی منڈی جیسا شور و غل ہے کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی، بچوں کو زور زور سے کتابوں کے صفحے زبانی یاد کرائے جارہے ہیں یہ نظام تعلیم کی بنیادہے اور اس بنیاد میں دو بڑی خرابیاں ہیں ہر کلاس یاہر مضمون کی تدریس کے لئے الگ کمرہ جماعت دستیاب نہیں، بچوں کو سمجھانے اور سکھانے کے بجائے زبانی یاد کرانے کا طریقہ رائج ہے یہ ایسا طریقہ ہے جو تعلیم کا دشمن ہے جیسا کہ ایک کہانی میں آتا ہے ایک بزرگ نے جنگل میں طوطوں کے جھنڈکو سبق یاد کرایا ”میں شکاری کے جال میں نہیں آونگا“ جب طوطوں نے سبق اچھی طرح یاد کیا تو بزرگ دیکھنے لگا کہ اس سبق کا طوطوں پر کیا اثر ہوتا ہے بزرگ یہ دیکھ کر حیراں رہ گیا کہ طوطے اپنا یاد کیا ہوا سبق زور زور سے دہراتے ہوئے آتے تھے ”میں شکاری کے جال میں نہیں آونگا“ اور سیدھے شکاری کے جال میں آجاتے تھے، بزرگ نے یہ نتیجہ نکالا، کہ زبانی یاد کیا ہوا سبق کسی کام کا نہیں ہوتا کارآمد سبق وہ ہوتا ہے جو طالب علم کو سمجھایا جائے انہی دنوں یور پی ملک اٹلی کے دار لحکومت روم (Rome) کے پرائمیری سکول میں پڑھنے والے پا نچویں جماعت کے طالب علم کے ساتھ تبادلہ خیال کا سنہرا موقع ملا، تو میری حیرت کی انتہانہ رہی روم کے سرکاری سکول میں داخلہ مشکل سے ملتاہے ان کو پبلک سکول کہا جاتا ہے، جبکہ پرائیویٹ سکولوں میں داخلہ آسانی سے مل جاتا ہے ان کو صرف سکول کہتے ہیں ان کے ناموں کے ساتھ پرائیویٹ کا سابقہ نہیں لگا تے، نظام تعلیم دونوں میں یکسان ہے فرق یہ ہے کہ سرکاری سکول یاپبلک سکول میں ذریعہ تعلیم اطالوی زبان ہے، پرائیویٹ سکولوں میں ذریعہ تعلیم انگریزی ہے ہرجماعت یامضمون کے لئے الگ کلاس روم ہوتاہے کے جی اور نرسری کے طلبہ کے لئے بھی خوب صورت کرسیاں اور میزیں ہوتی ہیں، فرش اور ٹاٹ کا کوئی تصور نہیں، بستہ اور کتاب کا بھی کوئی تصور نہیں، استاد کے پاس موضوع ہوتا ہے جو اُس کو تعلیمی نصاب سے مل جاتا ہے مثلاً عناصر یا ایلیمنٹس (Elements)کا سبق ہے استاد وائٹ بورڈ اور پاور پوائینٹ کے ذریعے عناصر کا تعارف کراتا ہے ان کی تعداد بتاتا ہے پھر طلبہ کو اس موضوع پر بولنے کی دعوت دیتا ہے، طلبہ اس موضوع پر اپنے خیالات کا اظہار کر تے ہیں آخر میں استاد کلاس کو لائبریری سے دو یا تین کتابوں کے نام بتاکر ٹاسک دیتا ہے کہ کتاب پڑھو اورتیاری کرکے ایک ہفتہ بعد اس موضوع پر کلاس کو وائٹ بورڈ کی مددسے لیکچر دیدو پانچویں جماعت تک آتے آتے ہر طالب علم اس قابل ہوتاہے کہ لٹریچر، تاریخ، معاشیات ،تجارت، فزکس،کمیسٹری، بیالوجی، ریاضی اورکمپیوٹر سائنس کے کسی بھی موضوع پر لیکچر تیار کر سکے اور کلاس میں لیکچر دے سکے، وہ کتاب کے کسی صفحے کو زبانی یاد کر نے کے فن سے ناواقف ہیں، ان کو پڑھا یا جا تا ہے کہ نفس مضمون کو سمجھو ذہن نشین کرلو، پھر اپنے الفاظ میں دوسروں کو سمجھاؤ، تنقیدی نقطہ نظر سے سوچنے کا ہنرپیدا کرو، اور سوال پو چھنے میں مہارت حاصل کرو، سکول کے اندر جگہ جگہ لکھا ہوا ہے کہ لیکچر دینے یا تقریر کرنے سے کسی کی قابلیت اور لیاقت کا اندازہ نہیں ہوتا سوال کرنے سے لیاقت اور قابلیت کا اندازہ ہوتا ہے، بات سچائی اور حقیقت پر مبنی ہے کیونکہ لیکچر یا تقریر کے لئے بند ہ تیار ی کر کے آتا ہے، سوال پو چھنے کے لئے تیار ی کا وقت نہیں ملتا، صرف زہانت اور قابلیت والا بند ہ سوال پوچھ سکتا ہے، ذہنی اور علمی استعداد کے ساتھ بچوں کو جسمانی ورزش اور کھیلوں کا باقاعدہ کیلنڈر اور ٹائم ٹیبل دیا جاتاہے ہر کھیل سے دلچسپی رکھنے والے طلبہ کو سکول کسی نہ کسی مشہور کلب کے ساتھ رجسٹرڈ کرتا ہے وہ سکول کے اوقات کی طرح کلب کے اوقات کی بھی پا بندی کر تے ہیں اس طرح بچوں کو تاریخی مقامات کی سیر کرانے کا باقاعدہ شیڈول ہوتا ہے، رومی سکول کے طالب علم کیساتھ گفتگو کر تے ہوئے مجھے افسوس ہوا ہمارے ہاں مینگورہ اور سیدو شریف کے کسی طالب علم نے گل کدہ کا عجائب گھر نہیں دیکھا ڈبگری کے سکول کا کوئی طالب علم پشاور کے عجائب گھر میں نہیں گیا ہمارے سسٹم سے نکال کر سیدھے راستے پر ڈال دے اور پرائمیری سکول کو درس گاہ بنا یے۔