262

پاکستان چائینہ اکنامک کوریڈور امیدیں، تحفظات اور خدشات۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سماجی کارکن عنایت اللہ اسیر

؂یقیناًگوادر چائینہ اکنامک کوریڈور گوادر سے حسن ابدال تک ملک کے جس حصے سے گزاری جائے ہزار ہ ہی سے تین مختلف سمت سے مختصر ترین ، محفوظ ترین اور کشادہ ترین راستہ فراہم کرتا ہے۔

۱) حسن آبدال ، ہریپور ، ایبٹ آباد ، مانسہرہ ، بٹگرام ، کوہستان ، گلگت۔
۲) حسن ابدال ، دربند ، جدبا ، تھاکوٹ ، شانگلہ ، کوہستان ، گلگت۔
۳) راول پنڈی ، کوہالا پل ، گھڑی حبیب اللہ ، بالا کوٹ ، کاغان ، ناران ، گلگت۔

ترجیحی بنیادوں پر حسن ابدال ، ایبٹ آباد ، مانسہرہ ، بٹگرام حصے پر کام جاری ہے اور امید کی جاتی ہے کہ اگر اپنے رفتار سے مقامی افراد کے مسائل کو حل کرتے ہوئے کام شب و روز تین شفٹوں میں چلتا رہا تو 2018 تک پہلا حصہ ایبٹ آباد تک مکمل ہو جائے گا ۔
آربوں ڈالر کے اس بین الاقوامی شاہراہ کے تعمیر میں مقامی افراد کے چھوٹے چھوٹے زمینات ، مکانات ، دکانات، باغات اور کھیتوں کی قیمت بھی اس سڑک کی اہمیت کے مطابق موجودہ حکومتی ادنا قیمت سے 100گناکر کے ادا کی جائے تاکہ وہ مالکان اس رقم سے اپنے مستقبل کیلئے مستقل آمدن کا سوچ کر کچھ عالمی معیار کے مطابق گیسٹ ہاؤس ، ہوٹلز ، پبلک پارک اوراسی گزرگاہ پر کچھ کاروباری مراکز کھول کراپنے ائیندہ نسلوں کیلئے مستقل امدن کا کوئی زریعہ بنا سکین۔
چائینہ جیسے عظیم دوست ملک سے دوستی کا رشتہ بھی انکے فراخ دلانہ اقدامات سے ہی مظبوط ہوگی بلکہ زمینات کی قیمتوں کی ادائیگی کو تعمیر سڑک کے بجٹ سے الگ رکھ کر کم از کم پانچ ارب روپے چین کے برادر ملک سے اس مد میں اضافی ادا کرنے کی تجویز دی جائے جب کہ چین جیسے عظیم معاشی مستحکم دوست ملک کو بجینگ سے مشرقی وسطی ، یورپ ، افریقی اور امریکہ تک رسائی کیلئے نو ہزار کلو میٹر سمندری راستہ طے کرنا پڑتا تھا اب یہ فا صلہ زمینی طور پر پاکستان سے صرف تین ہزار کلو میٹر ہو جائیگا ۔ جس سے چین پوری دنیا کے تمام ممالک تک شب و روز آسان رسائی کا حامل ملک ہو جائیگا۔ اتنے بڑے تاریخی تبدیلی اور آسان رسدکے راستے کی تعمیر 56 ارب کے اخراجات برداشت کرنے والے ملک کیلئے پانچ ارب روپیہ صرف زمینات کے عوض ادا کرنا کوئی مشکل اور غیر مناسب بات نہیں ہوگی ۔ ہر علاقے کے باشند گان بھی خوشی خوشی اس منصوبے میں تعاون کر ینگے اور کوئی خدشات اور تلخی بھی پیدا نہیں ہوگی ۔ اس کام کو مقامی افراد کے مطالبوں ، جلسہ جلوسوں ، ہڑ تالوں کے نذر کرنے کے بجائے پاکستان اور چین کی حکومت کے زمہ داران خود اس سلسلے میں وقت ضائع کئے بغیر واضح اعلانات کرکے لوگوں کے تسلی کا بندبست کریں۔
امیدیں
اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ اس راستے کی تعمیر سے پاک وطن کو انتہائی اہمیت حاصل ہو جائے گی اور معاشی چہل پہل سے پاک وطن معاشی طور پر بہت ہی مستحکم ملک بن جائے گا اور ہزاروں لوگوں کی مختلف شکل میں روزگار کے مواقع دستیاب ہونگے اور دوست ملک چین کو پوری دنیا کے تمام ملک تک اپنی تمام مصنوعات پہنچانے کا بہترین مختصر ترین ، کم خرچ ریلوے ، ٹرک ، میسر آئے گا۔
چنانچہ ملکی حالات اور دھرنوں کی بھر مار کی بنا پر جلد بازی میں دوست ملک کے ساتھ اس سلسلے میں یک طرفہ معاہدہ کرکے کام کا آغاز جنگی بنیادوں پر پاک فوج کی نگرانی میں کیا گیا اور یہ معاہدہ 80 فیصد چین کے حق میں اور 20 فیصد پاکستان کے مفادات کا حامل لگتا ہے ۔ لہذا س معاہدہ پر دونوں برادر ملکوں کو ٹھنڈے دل سے غور و خوص کرکے اس معاہدہ کو بیلنس کرنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ یہ معاہدہ دو دوستوں کے درمیان برابری کی بنیاد کا معاہدہ لگے کیونکی جنرل آیوب خان کا وہ جملہ جو اس نے امریکہ کے دورے میں کہا تھا حالانکہ اس وقت پاکستان ایٹمی قوت بھی نہیں تھا اور ابھی ابھی بیساکیوں پر چلنے لگا تھا۔ پاکستان امریکہ کے تمام فوجی اسلحے کا محتاج تھا مگر اس فرزند ہزارہ نے وہ جملہ کہا جو امریکیوں کے ساتھ تمام ملکوں کے لئے دوستی کا بہترین اصول کا متعین کیا۔
FRIEDS NOT MASTERS آ�آ اب بھی اسی آصول پر مظبوطی سے قائم رہ کر دوستی کا ہاتھ چین اور روس کے ساتھ بڑھایا جائے ۔
یقیناًپاکستان 1947 میں آزاد ہوا ، 28 مئی 1998 کو ایٹمی دھماکے کر کے اس آزادی پر مہر تصدیق سبط ہوئی اور پاک چین اکنامک کوریڈور ملکی اور غیر ملکی مخالفتوں اور امریکہ ، ہندوستان اور دیگر کئی ممالک کے بد ترین مخالفتوں کے باؤجود تعمیر نے پاکستان کو معاشی طور پر مستحکم کرنے کا آغاز ہو چکا ہے۔ حالانکہ واقعہ صیفور، ہزارہ قبائل پر حملے ، کوہستان میں مسافروں کو بے درانہ قتل عام اور آئے دن مسفروں پر حملے اس غرض سے کہ دوست ملک چین اس راستے کی تعمیر سے پیچھے ہٹے اور اس کو غیر محفوظ قرار دے کر کوئی اور راستہ ڈھونڈیں مگر پاک وطن کے حکمرانوں اور چین کی حکومت نے اپنی غیر متنزلزل قوت ارادے میں خلل نہ پڑنے دیکر دنیا پراپنے آزاد ملک ہونے کا دھاگ بٹھا دیا۔
پاک آرمی کا کردار ہر لحاظ سے نمایان رہا ہے مگر اس سلسلے میں پاک آرمی نے سول حکومت کا جس فراخ دلی سے ساتھ دیا اور اس حکومت کو گرانے کی ہر کوشش اور اپیل کو مسترد کرتے ہوئے ساتھ دیا تاکہ اس عظیم منصوبے میں خلل نہ آئے اس کردار کو پاکستانی عوام قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے پاک فوج کو سلام پیش کرتے ہیں اور اس عظیم شاہراہ کی تعمیر سے پوری اسلامی دنیا صرف مغرب کی طرف دیکھنے کے بجائے عظیم ملک چین سے بھی وابستہ ہوجائینگے اور اپنے اپنے ریاستوں میں مختلف ترقیاتی کام کرانے کے قابل ہو جائینگے ۔
خدشات
روزانہ ہزاروں گاڑیوں کے اور ٹرین کے امدورفت سے ہزارہ کے خوبصورت صحت مند ماحول ، باغات ، کھیتوں اور موسمی حالات پر اثرات مرتب ہونے کا 100 فیصد خدشہ موجود ہوگا جس کیلئے بر وقت پیش بندی کی اشد ضرورت ہے۔
اس شاہراہ کے ساتھ ساتھ کھلے علاقے جو اس وقت دستیاب ہیں سینکڑوں ایکڑمیں ہر 100 کلو میٹر کے بعد خرید کر ان میں جنگلات ، باغات، اور مصنوعی آبی زخائر پکنک پارٹ کے طور پر بنائے جائیں تاکہ ماحول تندرست رہے۔
جنگلات کی بے دریغ کٹائی نے ہزارہ کی خوبصورتی کو نا پید کر دیا ہے ۔ لہذا اس سی پیک(CPEC) کے ترقیاتی منصوبے کے حصے کے طور پر دوبارہ قدرتی جنگلات کے بحالی کا منظم اور مستحکم منصوبہ بھی پورے ہزارہ کیلئے بنایا جائے جس میں نر سریز ، جنگل بانی پانی کی فراہمی کے بجٹ کے ساتھ بنایا جائے کیونکہ لگایا ہوا کوئی پودا بغیر پانی کے نہیں لگ سکتا۔
حفاظت
آب رسانی اور حفاظت کے بندوبست کے ساتھ تمام شاملات میں جنگلات کی آباد کاری کا آغاز ابھی سے کیا جائے ۔ مقامی دیہات میں پاک چین دوستی کے تنظیمات بنا کر ان کے زریعہ ماحول بچاؤ اور خوب کماؤ کے مقامی چھوٹے چھوٹے صنعتی زونز بنا کر لوگوں کی ہر لحاظ سے تربیت دیکر مختلف شعبوں میں ہنر مند بنایا جائے۔ چائینہ زبان کو مقامی حکومتوں کے زریعہ انکے فنڈ سے مقامی آفراد کو سیکھانے کے ادارے کھولے جائیں۔ اور چائینہ زبان کو کم از کم ہزارہ کے تمام گورنمنٹ اور پرائیویٹ اسکولوں میں پرائمری سطح سے شروع کرنے کا اہتمام کیا جائے ۔
مقامی دیہات کے نوجوانوں کو ہوٹلنگ ، ہاوٗس گیسٹ ہاسزوز، کچن گارڈ ینگ، گائیٖڈ اور چائینہ کھانے پکانے اور سروکرنے کی تربیت دیکر فعال بنایا جائے ۔
زمینات غیر مقامی افراد پر بیچنے پر پابندی لگائی جائے تاکہ ہزارہ کی مٹی ہزارہ وال ہی آباد کریں ۔
تجاویز
(۱) ضلع تورغر جیسے پسماندہ ضلع کو اوگی ، جدبہ سرنگ بنا کر CPEC سے ملانا اس ضلع کی پسماندگی کو دور کرنے کا سبب ہوگا۔
(۲) تھاکوٹ کو بذریعہ سرنگ ضلع سوات سے ملانا کوئی نا ممکن کام نہ ہوگا مگر اس سے پورا ضلع سوات بلکہ مالاکنڈ ڈویژن اس شاہراہ سے منسلک ہوکر فوائد حاصل کرنے کے قابل ہو جائے گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں