292

موبائل ۔ ۔ ۔ جو بے وقار کرے ۔۔۔نغمہ حبیب

ہر معاشرہ اپنی ایک پہچان رکھتا ہے اور اس کی کچھ روایات و اقدار ہوتی ہیں۔ مسلمان ممالک میں اِن روایات و اقدار کی بنیاد اسلامی اصول و ضوابط ہوتے ہیں اور اِن کا منبع قران و سنت یا ان سے اخذ شدہ اُصول جو دراصل انسان کی بھلائی اور معاشرتی فلاح و بہبودکے ضامن ہوتے ہیں لیکن آج کے اسلامی ممالک کے معاشرے بھی اپنی اصل راہ سے بے راہ ہو چکے ہیں اور انہوں نے صرف ماڈرن ازم کو ترقی سمجھ لیا ہے جس میں لباس اور اطوار سب شامل ہیں۔ دنیا نے بلاشبہ بہت ترقی کرلی ہے ہر روز نئی ایجادات یا پرانی ایجادات میں نئی اختراعیں ہماری زندگی کا حصہ بن چکی ہیں اب ان کا استعمال کس طرح کیا جائے یہ ہماری صوابدید پر ہے۔ آج کی جدید ایجادات میں کمپیوٹر اور موبائل انسان پر شدت سے اثر انداز ہوئی ہیں اور درحقیقت انہوں نے معاشروں کا رخ بدل کر رکھ دیا ہے، کمپیوٹرگیمز نے بچوں کوپا رکوں اور کھیل کے میدانوں سے اٹھاکر کمروں کا باسی بنا دیا لیکن موبائل نے معاشرے کو جس طرح اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے بلا شبہ اسکے فائدے بھی ہیں لیکن اس نے مسائل کو بھی جنم دیا ہے کسی بھی جگہ سے ایک دوسرے سے رابطے نے زندگی آسان کر دی ہے تجارت، بینکنگ ، تشہیری مہم ہر چیز میں موبائل کا استعمال ہو رہا ہے یہ سب بجا لیکن اِن سارے مقاصد سے زیادہ یہ اُن کاموں کے لیے استعمال ہو رہا ہے جو کسی بھی طرح ہمارے معاشرتی اقدار کے مطابق نہیں۔ اس پر بھیجے جانے والے میسجز اکثر اخلاق سے مکمل طور پر گرے ہوئے ہوتے ہیں اور سونے پر سہاگہ میڈیا پر چلنے والے بے مہار اشتہارات ہیں جس میں موبائل کا اہم ترین استعمال یہ بتایا جاتا ہے کہ نوجوان لڑکے لڑکیوں میں بازاری قسم کی محبت اس کے ذریعے بڑی آسانی سے پروان چڑھ سکتی ہے اور صرف ایک موبائل سیٹ یا سم دیکھ کر لڑکی اپنی اور اپنے خاندان کی عزت بھول کر لڑکے کے پیچھے چل پڑتی ہے۔ یہ تو اشتہارات کی دنیا ہے لیکن حقیقت کی دنیا بھی کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے وہاں بھی یہ سب کسی نہ کسی صورت میں موجود ہے جس کے عملی مظاہرے اکثر نظر آتے رہتے ہیں جو کہ یقینا قابل اعتراض ہے۔
موبائل فون ہماری ضرورت سے بڑھ کر وقت کے ضیاع کا ذریعہ ثابت ہو رہا ہے کوئی انتہائی ضروری کام کرتے کرتے میسجز آپکی توجہ بٹا دیتے ہیں اور پھر پیغام در پیغام کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے ۔ موبائل کی یہ وبا ملک میں کچھ یوں پھیلی ہوئی ہے کہ بازار جائیں تو پھل فروش ، سبزی فروش ،ریڑھی بان سب اس سے چمٹے نظر آئیں گے۔ رنگارنگ پیکجز کا فائدہ اٹھاتے یہ لوگ گھنٹوں اس پر محو گفتگو رہتے ہیں اور گھنٹوں ضائع ہو جاتے ہیں ۔ وہ جو غم روزگار کا رونا روتے نظر آتے ہیں اور گزارا نہیں ہوتا کا نعرہ ان کی زبان پر رہتا ہے وہ بھی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتے رہتے ہیں اور توجیہہ یہ دیتے ہیں کہ پاکستان میں یہی تو ایک تفریح ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس نے بھاگتے دوڑتے صحتمندانہ کھیل کھیلتے نوجوانوں کو بیٹھا کر میسجز کی سحر میں گرفتار کر لیا ہے، مزدور مزدوری چھوڑ کر اس استعمال میں مصروف ہے اورگھر میں بچوں یا ماں باپ کے لیے کچھ لے جا سکے یا نہیں موبائل کا کارڈ خریدنا ضروری ہے ۔ ایک سروے کے مطابق اٹھارہ کروڑ کے اس ملک میں تقریبا بارہ کروڑ موبائلز آخر کیا پیغام دیتے ہیں اور ہمارے کس قومی مزاج کی نشاندہی کرتے ہیں۔ خوشحال ممالک میں اگر موبائل فون کا استعمال کیا بھی جارہا ہے تو وہ اپنے قومی وقار کو اس نہج تک پہنچا چکے ہیں کہ جہاں وہ اس قسم کی تھوڑی بہت عیاشی برداشت کر سکتے ہیں۔ اس وقت جب قوم کو اس درجے کے کام کی ضرورت ہے کہ جس میں تھکان اتارنے کا بھی وقت نہ ہو ہم صرف اور صرف آرام کرنے کے موڈ میں ہوتے ہیں۔ یہ بھی درست ہے کہ پاکستانی عوام کئی کئی مسائل میں گرفتار ہیں لیکن اس کے لیے یہ کہنا کہ ہم مشکل وقت کو کاٹنے کے لیے اس کا سہارا لے رہے ہیں سراسر جرم ہے اس وقت کو کاٹنے کے لیے کو ہکن کے کدال کی ضرورت ہے تبھی شیرین تک پہنچ ممکن ہے۔ یہ ملک جہاں ہر چیز مہنگی ہے اور ضروریات زندگی تک پہنچ بھی مشکل ہے وہاں آخر موبائل کو اسقدر ارزاں نرخوں پر کیوں رکھا گیا ہے اور ایک ہی میسج کو پورے ملک میں آخر کون پھیلاتا ہے کبھی کوئی واہیات لطیفہ اور کبھی کوئی غیر تصدیق شدہ بلکہ اکثر اوقات خود سے گھڑاہوا کوئی اسلامی میسج جنگل کی آگ کی طرح پھیلا دیا جاتا ہے جسے آگے نہ بھیجنے پر کئی طرح کی وعیدیں سنادی جاتی ہیں آخر ان پیغامات پر بلکہ ایک پیغام پر کتنا پیسہ عوام کا برباد ہو جاتا ہے اور موبائل کمپنیوں کو کتنا منافع مل جاتا ہے جن میں سے اکثریت غیر ملکی ہیں۔ حکومت کو اگرگٹھ جوڑسے فرصت ملے تو اِن معاملات پر بھی غور کرلے اور ہم عوام کو بھی مسلسل شکایت اور بیزاری کے اظہار کے ساتھ اپنے اعمال پر بھی غور کر لینا چاہیے کہ ہم کتنے گنہگار ہیں اور اپنے حالات کے کتنے ذمہ دار ۔ اور یہ بھی فیصلہ کرلیں کہ کیا ہم نے اپنے حالات بدلنے کی کوشش خود کرنی ہے یا مسلسل اپنے مسائل کے لیے دوسروں کو ذمہ دار گرد انتے گردانتے خود کو دنیا میں مزید بے وقا کرنا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں