361

پی پی پی اور ایم پی اے سلیم خان سے متعلق محمد کوثرایڈوکیٹ کے بیان کا۔۔پاکستان پیپلز پارٹی ضلع چترال کےجنرل سیکرٹری محمد حکیم ایڈوکیٹ کی طرف سے جواب

گولین گول ہائیڈل پراجیکٹ کے حوالے سے محمد کو ثر ایڈو کیٹ صدر مسلم لگ ن سب ڈویژن چترال کا بیان محررہ 30/01/18 نظروں سے گزرا۔ جس میں مو صوف نے سلیم خان سابق کنوینر ضلعی اسمبلی۔ صوبائی وزیر،اور موجودہ ایم۔پی۔اے و صدر پاکستان پیپلز پارٹی ضلع چترال کے ساتھ ساتھ شہید قائد ذولفقار علی بھٹو اور پیپلز پارٹی کے چترال کے لئے بہترین خدمات پر پردہ ڈالنے کی ناکام کوشیش کی ہے۔ اس بیان سے جہان صاحب موصوف کم علمی تاریخ چترال سے نا واقف اور خصوصاً 1970 سے پہلے اور 1970 کے بعد کے چترال کے حالات و وقعات کو پس پشت ڈالنا ظاہر ہوتا ہے ۔ وہاں سیاسی رقابت حسد اور عناد ی کی بو بھی آتی ہے۔
چترال کے باسیوں کے لئے قائد عوام شہید ذولفقار علی بھٹو اور پیپلز پارٹی کے خد مات سے چترال کا بچہ بچہ واقف ہے۔ ان کو گنوانے کے لئے بہت سا وقت سیاسی قلم اور کاغذ درکار ہے۔ چونکہ موصوف نے لواری ٹنل اور گولین گول پراجیکٹ کے حوالے سے بات کی ہے۔ لہذااختصار کی خاطرمیں بھی اس سلسلے میں خدمات کا ذکر کرونگا۔ لواری ٹنل کا افتتاح 1975 میں شہید ذولفقارعلی نے پاک ارمی کے انجینئرنگ کور کے ذریعے کیا تھا۔دو فر لانگ کام مکمل ہوگیا تھا کہ اس کی حکومت ختم کر دی گئی۔ اس کے بعد شہید بے نظیر بھٹوکی حکو مت دو دفعہ آئی ایک دفعہ 18 مہینے میں اور دوسری دفعہ 23 مہینے میں ختم کی گئی۔ لواری ٹنل کی تعمیر کے لئے سوئیڈن کے حکومت سے معاہدہ بھی ہوا تھا۔کی اس کی حکومت ختم کی گئی۔ بعد میں پرویز مشرف کی حکومت نے لواری ٹنل کو ریل ٹنل منصوبے میں منتقل کیا جب 2008 کو پیپلز پارٹی کی حکومت آئی اس پر کام جاری رکھا گیا۔ ریل ٹنل کے لئے مستقلاً دو میگا واٹ بجلی کی ضرورت تھی اور تمام مشنیری جرمنیسے لانا تھے اور خراب ہونے کی صورت میں پرزے بھی جرمنی سے منگوانا تھے۔ الواری ٹنل کی کنسلٹنٹ کے مطابق قابل عمل نہں تھا۔ اس لئے سلیم خان جو کہاس وقت کابینہ کا حصہ تھے کے مطالبے پر لواری ٹنل کو ریل ٹنل سے روڈ ٹنل بنایاگیا۔ اس طرح اس منصوبے کو از سرنو سروے کیا گیا۔ اور ٹنل کی چوڑائی 18 فیٹ سے26 فیٹاور اونچائی5 فیٹ توسیع کردی گئی ۔وراس کی لاگت میں دس ارب کا اضافہ کیا اورکام میں تھوڑا روکاوٹ ایا لیکن بفضل خدا ایک قابل عمل اور اسان راستہ ہمہ وقت چترالیوں کو مل گیا۔
2009سے2012 کے دوران ملکی حالات ببہت زیادہ خراب تھے۔ طالیبائزیشن کیوجہ سے کورین کمپنی ایک سال کے لے خود ٹنل پر کام بند کر کے چلے گئے تھے۔ٹنل کے پیسے ملتان لے جانے میں کوی صداقت نہں ہے۔ اگر ایسا کوی بات تھی تو اس وقت شہزادہ محی الڈین قومی اسمبلی کے ممبر تھے۔وہ اس سلسلے میں اسمبلی کی فلور پر اواز کیوں نہں اٹھائی۔اج ان کے بیٹے افتخارالدین بجلی کی کریڈیٹ اپنے نام کرنے کی سر تھوڑ ناکام کوشش کر رہے ہیں۔
نواز شریف تین دفعہ حکومت بنائی۔اپ ہمیں بتائیں کہ نواز شریف اپنے دور حکومت میں چترال اکر کوی نیا منصوبیکا افتتاح کیا ہے اب پیپلز پارٹی کی شروع کردہ منصوبون پر ن لیگ کا وزیر اعظماپنے نام کی تختیان لگا کر ان منصوبون کواپنے نام کرنے کی ناکام کوشش کررہی ہے۔اور یہ بات ہر ایک چترالی کو یاد ہے۔ کہ جب نواز شریف پہلی دفعہ چترال کے دورے میں پولو گراونڈکے مقام پر ایک بڑے جلسے سے خطاب کرکے کہا کہ ایک کروڑ دون یا سو لاکھ یہ کہکر چترالی قوم کو بیوقوف بنایا اور اس طرح 2013 کو پھر پولو گراونڈ میں اکر کہا کہااپ میں سے کس کو اردو اتی ہے ہاتھ اٹھائیں۔نواز شریف اج بھی چترالیوں کو اان پڑہ اور جاہل سمجتا ہے۔
جہان تک ضلع چترال کے اندر بجلی کی بات ہے اس سے کون وواقف نہں شہید بھٹو نے 1974 میں چترال بالخصوص ٹاؤن چترال کے بجلی کی ضرورت کے پش نظر واپڈا رولز ریگوکیشن کو بائی پاس کرتے ہوئے ایک میگاواٹ ہائیڈل پاور لگایا۔ 1988 میں اس کی بیوی مخترمہ نصرت بھٹو صاحبہ نے چار جینیریٹر چترال پہنچائی۔ 1994 میں اس کی بیٹی شہید بے نظیر بھٹو صاحبہ نے تین جینیریٹرز چترال بھیجا۔ اس کے علاوہ لواری ٹاپ کے اوپر نیشنل گریڈ سے بجلی چترال پہنچایا۔ اس حوالے سے کوثر ایڈوکیٹ کے قاید شہزادہ محی الدین کا چترال پولو گراونڈ میں تقریر بھی سب کو یاد ہے کہ میں نے نواز شریف سے مطالبہ کیا کہ نیشنل گریڈ سے چترال کو لواری ٹاپ سے بجلی دی جایے۔تو نواز شریف نے کہا کہ شہزادہ صاحب اپ اسمان سے بجلی چترال پہنچانے کی بات کرتے ہیں یہ ناممکن ہے : اگر پیپلز پارٹی نہشنل گریڈ سے بجلی چترال پہنچائی تو میں پیپلز پارٹی میں شامل ہوجانگا۔
کیا پیپلز پارٹی نیشنل گریڈ سے بجلی چترال نہیں پہنچائی اور کیا شہزادہ محی الدین پیپلز پارٹی میں شامل ہوا۔
گولین گول ہائیڈرل پاور پراجیکٹ بھی کاغذونں میں موجود تھا۔اس کے لے پہلی فنڈنگ سعودی حکومت کے ساتھ باقا عدہ معاہدہ پیپلز پارٹی کی دور حکومت میں سلیم خان کی درخوست پر راجہ پرویز اشرف وفاقی وزیر بجلی و پانی کی دفتر میں ہوا۔ اور اس کے لئے مناسب فنڈز جاری کیا گیا۔
جہان تک کوثر کی یہ بات کہ اگر میرے قائد نوازشریف فنڈز فراہم نہ کرتا تو یہ کس طرح مکمل ہوتے موصوف کی اظلاع کے لئے عرض ہے۔ کہ کچھ منصوبے ۱ معاہدات بین الاقوامی اور کچھ قومی نوعیت کے ہوتے ہیں ان کو اسانی سے نہ توڑا جاسکتا ہے اور نہ روکا جاسکتا ہے۔یہی معاہدات اور قانونی پیچیدگیاں ہی تھیں ورنہ نواز شریف اپناقتدار کے روز اول ہی سے بے نظیرانکم سپورٹ پروگرام کو بند کرتا۔
اب اتے ہین سلیم خان کے چترال کے لئے خدمات کیا ہیں۔چترال میں زندگی کا کوی ایسا شعبہ دکھائیں جس میں سلیم خان نے اپنے چودہ سالہ سیاسی زندگی میں کام نہ کیا ہو۔ ضلع چترال اور خصوصا تحصیل چترال کا کوئی ایسا گاؤں دکھائیں جہان سلیم خان نے منصوبے نہ رکھا ہو۔ چترال کے اندر شہید بینظیر بھٹو یونیورسٹی کیمپس خان عبدالولی خان یونیورسٹی کیمپس کا قیام، مختلف تحصیلوں میں گرلز کالج، ہائیر سیکینڈری سکولز، مڈل سکولز،پرائیمری سکولز، ڈسپنسری،بائی پاس رود،تمام ویلیز روڈ۔وادی گولین سے چترال کے لئے پانی کا منصوبہ، دروش واٹر سپلائی سکیم۔منصوبہ بندی سنٹرز، ملازمین کے مسائل جلانے کی لکڑی الاونس ،UAE مختلف محکموں میں ہزاروں غریب چترالیوں کو ملازمتیں دلواناالعرض کونسا ایساشعبہ رہتا ہے۔جس میں سلیم خان نے کام نہ کیا ہو۔ سلیم خان ایک شریف النفس، ملنساز اور اپنے ملک و قوم کے لئے خدمت سے سر شار انسان ہیں۔ اس کی شرافت، سیاست اورطرز حکمرانی سے جلنا،حسد کرنا کوثراکبر والی جیسے سیاست دانوں کے لئے اچھنبے کی بات نہ ہے۔ سلیم خان نے کامیابی کی ہٹ ٹرک کی ہے اور انشاء اللہ تعالی غریب عوام کے تعاون سے آئیندہ بھی کامیاب ہونگے۔
جہاں تک کوثر صاحب نے قبرستان کی بات کی ہے اس کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ روح قبروں میں نہیں ہوتے عالم ارواح الگ جگہ ہے۔کوثر صاحب قائد اعظم کو اپنا قائدمسلم لیگ کے حوالے سے کہتے ہیں قائد اعظم تو ال انڈیا مسلم لیگ کا صدر تھا۔ اس کا وجود اب نہیں ہے ۔البتہ ان نا حکفوں نے مسلم لیگ کو الف۔ج،ش۔ض۔ف اور ن میں تقسیم کیا ہے۔پتہ نہیں کس مسلم لیگ کی بات کرتے ہیں۔اور نہ انتظامی طور پر چترال کے اندر کئی سب ڈویژن موجود ہے اور کوثر ہوا میں قلعہ نہ بنائیں۔

مدعی لاکھ بُرا کہے تو کیا ہوتا ہے
وہی ہوتا ہے جو منظور خدا ہوتا ہے۔

محمد حکیم خان جنرل سیکرٹری PPP چترال

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں