308

دھڑکنوں کی زبان 

محمد جاوید حیات پنپتی جمہوریت
وطن عزیز کی عمر تقریباً اکہتر سال ہے ۔۔نظریہ اسلامی تھا۔۔۔ مقصد آزادی تھا ۔۔ایک ایسا خطہ زمین جہان پر مسلمان آزادی سے اپنے مذہبی اقدار کے مطابق زندگی گذار سکیں گے ۔۔اقلیتوں کو مکمل آزادی ہوگی ۔۔۔ہم اس خطہ زمین کو ’’اپنا ملک ‘‘ کہہ سکیں گے۔۔ اس کی ترقی کی کوشش کریں گے ۔اس کے اثاثوں کی حفاظت کریں گے۔۔اس کو امانت سمجھیں گے۔۔خونٍ جگر سے اس کی ابیاری کریں گے۔۔اس کی خدمت میں فخر محسوس کریں ۔ایسا مضبوط ملک جو ناقابل تسخیر ہو ۔۔یہ تو وہ زمانہ تھا جس کے چشم دید گواہ اب بھی ہیں۔۔۔ لیکن اس کے بعد کیا ہوا ۔۔المیوں کا تسلسل ہوا ۔۔جو بھی اس ملک کی باگ ڈور سنبھالنے سامنے آیا وہ ان اوصاف سے عاری تھا تاریخ اٹھا کے دیکھنے سے دکھ کے سوا کچھ نہیں ملتا ہے ۔۔جمہوریت کا راگ الاپنے والے سب غیر جمہوری تھے ۔۔سب باد شااہ سلامت تھے ۔۔فوج اور امیریت کو برا بھلا کہنے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ کونسا جموری حکمران بادشاہ سلامت نہیں تھا ۔۔سبوں کو جب جب کرسی ملی بادشاہ سلامت بن گئے ۔۔جمہوریت کا حسن ان کے ہاتھوں بد صورت ہوتا رہا ۔۔وہ اپنے سوا سب بھولتے گئے ۔۔غلط فیصلے ہوتے رہے ۔۔ملک پر جنگوں تک مسلط کی گئیں ۔۔لیکن یہ رب کا تخفہ ہے۔۔ رب اس کو بچاتا ہے ورنہ تو ہم اس کو بچانے کے قابل کبھی نہیں ہیں ۔۔بدبختی یہ ہے کہ اس کے لیے قربانیوں کا سلسلہ اب بھی جاری ہے لیکن ان قربانیوں کو قربانی کہنے والوں کو نہ ایسا کہنے کی توفیق ہے نہ سمجھتے ہیں ۔۔اس کی سرحدوں میں کٹ مرنے والوں ۔۔اس کی جمہوریت پہ قربان ہونے والوں ۔اس کو دہشت کی آگ سے بچانے والوں ۔۔اس کے اداروں کو مضبوط کرنے والوں ۔اس کے اندر صداقت کے لئے لڑنے والوں کا پرسان حال نہیں ۔۔اس کے محافظوں اور باشندوں میں خلیج بڑھانے کی کوششیں ہوتی ہیں ۔۔اداروں سے مایوسیاں بڑھائی جاتی ہیں ۔۔حکمران اور عدالت مشت بہ گریبان ہیں ۔۔پیسے بٹورے جارہے ہیں ۔۔تعمیر کیے لئے کوئی سوچ نہیں ۔مستقبل کے لئے تقریر اور باتوں کی حد تک دعوے ہیں ۔۔وعدے وعید بھی ہیں ۔۔کوئی معتبر تعلیمی ادارہ نہیں ۔۔اعلی ذہینیں دساور سدھارتے ہیں ۔۔اعلی پروفیسروں اور سائنسدانوں کو قلیل تنخواہ سے نوازا جاتا ہے ان کا گزارہ نہیں ہوتا ۔۔ان کی صلاحیتیں ضایع ہوتی ہیں جو وہ یہ مٹی ۔۔اپنی مٹی چھوڑ کر چلے جاتے ہیں ڈاکٹر جاتے ہیں ۔۔انجیئرز جاتے ہیں ۔۔پروفیسرز جاتے ہیں ۔۔باقی ہم کچرے شجرے اپنا پیٹ بھرنے کے لئے بدعنوانیاں کرتے ہیں اور جو اس کام میں چمپین ہوتا ہے وہ کا میاب ہے ۔۔اس کی حویلیاں دیکھ کر ہم حسد سے جل اٹھتے ہیں ۔۔اس ماحول میں جمہوریت کیسے پنپ پائے ۔۔اندھیر نگری میں روشنی کی تلاش ہے ۔۔ان ملکوں جہان جمہوریت پنپتی ہے وہاں صلاحیت اور خدمت کی قدر ہے ۔۔وہاں پر سائنسدان کو تنخواہ نہیں دی جاتی ۔۔خزانے کی چابیاں اس کو پیش کی جاتی ہیں ۔۔باصلاحیت ڈاکٹر کو سر پہ اٹھایا جاتا ہے ۔۔انجینر کو انعام و اکرام سے نوازا جاتا ہے ۔۔حکمران اور عوام میں فاصلہ نہیں ہوتا ہے ۔۔ہر ایک کو اپنے کام سے کام ہے ۔۔وہ اپنے کام کو صداقت سے انجام دیتا ہے ۔۔اس کو صلے اور ستائش کی آرزو نہیں ہوتی ۔۔وہ اس بات پہ فخر کرتا ہے کہ اس کو ایک خدمت سونپی گئی ہے ۔۔وہاں پہ نمائندہ اور حکمراں خادم تصور ہوتے ہیں ۔۔ہمارے ہاں الٹی گنگا بہتی ہے ۔۔پھر جمہوریت کی راگ الاپتے ہیں ۔۔چھوٹے موٹے جو کام ہوتے ہیں ان کو اپنا کیا ہوا کہا جاتا ہے گویا یہ ان کا زاتی کارنامہ ہے گویا وہ اپنی جیب سے خرچ کرتے ہیں ۔۔پارلیمنٹ کبھی کبھی مچھلی بازار بن جاتا ہے ۔۔عدالتوں میں ایک بے ہنگم شور ہوتا ہے ۔۔جس کے خلاف فیصلے ہیں اگر وہ انصاف کے بھی ہیں تب بھی شور مچایا جاتا ہے ۔۔سیاسی وفاداریاں تبدیل ہوتی ہیں اس کو ’’ویکٹ گرنا‘‘ کہا جاتا ہے ۔۔سیاسی پارٹیوں کی ناکامی نہیں کہا جاتا ۔۔ڈاکٹر عبدالاسلام نے کہا تھا کہ میں جب پی ایچ ڈی کرکے ملک واپس آیا تو گورنمنٹ کالج لاہور میں مجھے ریاضی پڑھانے کے علاوہ فٹ بال ایسوسیشن کی صدارت سنبھالنے کو کہا گیا ۔۔تین سال تک میں نہایت اذیت میں گزارا ۔۔نہ کوئی تحقیق ۔۔نہ تجربہ ۔۔نہ لیب ۔۔نہ مواقع ۔۔ایک بانجھ ملک ۔۔میں وایس چلا گیا اور یورپ جاکر اپنے شوق کی تکمیل میں مگن ہوگیا ۔۔اگر یہ سیاسی بھنگڑا ڈالنے والے ۔۔یہ گلے پھاڑ پھاڑ کے تقریر کرنے والے ۔۔ملک کی تقدیر بدلنے کے سنہرے خواب دیکھانے والے ایسیاعلی سائنسی اور تحقیقی ادارے بنائیں ۔اعلی ذہنوں کو ملک سے باہر جانے نہ دیں ۔۔ملک کی دولت ملک کی ترقی پہ خرچ کریں ۔۔تب جمہوریت پنپ جائے گی ۔۔ورنہ تو یہ سب غلط سب جھوٹ ہیں ۔۔حمایت مانگی نہیں جاتی اپنے آپ کو حمایت کے قابل کرنا پڑتا ہے ۔۔جس کے پاس جمہوری سوچ ہو اس کا حق بنتا ہے کہ وہ جمہوریت کی بات کرے ورنہ تو بادشاہ سلامت کبھی جمہوریت کی بات نہیں کیا کرتا ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں