389

اے دل بِسازبا غمِ ہجران وَ صبر کن!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ظفراللہ پروازؔ بونی

خالد بن ولیؔ کی اچانک رخلت نہ صرف ان کی ولدین و خاندان کے لیے بلکہ جملہ احباب و متعلقین کے لیے باعثِ رنج و صدمہ بنا ۔ پشاور،کے۔پی۔کے، ڈی ائی خان سے لیکر بیرونی ممالک بسنے والے پاکستانی افراد تک واقف دوستوں کے علاوہ وہ لوگ بھی جو زندگی میں ایک لمحہ کے لیے مر حوم سے مل چکے ہیں سب غمِ فرقت سے نڈھال و سوگوار ہیں۔ اور ساتھ ہی اکثر سوشل میڈیا میں اسکی تصویر ایک جھلک دیکھنے کے بعد ہر انکھ اشک بار اور ہر قلب پرشان ہے۔ گویا کہ خالد سب کا تھا اور سب لوگ خالد کے کُنبہ سے تھے۔
خالد بن ولیؔ ہمارے انتہائی مشفق بھائی عبد الولی خان عابدؔ ایڈوکیٹ کا فرزندِ ارجمند ہونے کے ناطے اس کے بچپن سے لیکر لڑکپن اور جوانی تکک قریب رہنے کی بنا وہ تمام واقعات و لمحات دماغ میں محفوظ ہیں اور انکھوں کے سامنے گھوم رہے ہیں جو کبھی بھلایا نہیں جائیگا، ہر غمی ،خوشی کے علاوہ فارع اوقات ساتھ رہتے۔خالد رفتہ رفتہ حصولِ علم کے ساتھ ساتھ پولوکے بھی بہترین کھلاڑی،میدانِ ادب میں سب سے کم عمر صاحبِ دیوان شاعر،مقابلے کے امتحانات میں اعلی عہدوں پر تعین اور انتہائی نوجوانی میں سعادتِ حج بیت اللہ سے سرفراز۔ جس میدان میں بھی قدم رکھا اس میں شہرت و عزت کما کر قوم و ملت کو سرخرو کیا ۔
چمنِ حیات میں خوبصورت پھول کی طرح،ایک شاعرنہ سحر کی نرمی، محبت بھری دل کے ساتھ انکھوں میں شعور و بصیرت کاشعلہ سماتے ہوئے اور چہرہِ پُر نور پر نامعلوم مقام سے خوشی و مسکراہٹ سجائے ہوئے ایک شمع فیروزان کی طرح،عمیق الفکر،رفیق النظر ہونے کے ساتھ ساتھ فطرت میں ذہانت،ذکاوت اور شعری مذاق سے مزین انسان تھا۔ پُتلاِ خلوص و صدق وفا،پُر خلوص برتاو کی بنا ہرملنے والے کے لیے پیعامِ بہار تھی ۔ مسکراتے ہونٹوں سے نکلے ہوئے ہر لفظ بادِ نسیم بن کر لمحاتِ حیات کو تازگی اور انکھوں کے لیے ٹھنڈک بنتی تھی ۔ سرِ راہ کسی سے ایک بار ملتا اس کے دل میں ہمیشہ کے لیے بس جاتا۔ اگر چہ اس کے جُدائی سب کے لیے ناقابلِ برداشت ہے لیکن یہ تلخ حقیقت ہے کہ دنیا میں انسان اتا اس لیے ہے کہ یہاں سے چلا جائے ۔اصل حیاتِ جاویداں کی طرف ۔ اصل میں انسان کی زندگی موت کے بعد شروع ہوتی ہے ۔اور انسان اور حیوان میں فرق یہ ہے کہ حیوان کی زندگی محضِ طبعی زندگی ہے ۔physical life ہے۔ جو محضِ موت کے ساتھ ختم ہوتی ہے ۔جبکہ انسان کے موت کے بعد ابدی زندگی کا دَور شروع ہوتا ہے ۔ حقیقت میں خالد مرا نہیں بلکہ کھٹن زندگی کے امتحان میں بھی سروخرو ہو کر اصل ابدی زندگی میں ہم سے پہلے پہنچ گیا ہے۔اس کی سرخروئی اور کامیابی کی گواہی اس کے دورانِ رخصتی انسانوں کا جمِ غفیر آنسوں اور دعاوں کے ساتھ پولو گرانڈ چترال سے دے چکے ہیں۔ان لا تعداد لوگوں کی گواہی اور دعائیں خالد کے سفرِ آخرت کو شاندار اور ان کے شایانِ شان بنایا جو اس کا مستحق تھا ۔خالد کامیاب و کامران گیا ۔ خالد بن ولیؔ اللہ تعالیٰ کی جانب سے ایک انمول امانت تھی اس امانت کو کما خقہُ پروارش ہمارے قابلِ فخر بھائی عبد الولی عابدؔ نے احسن طریقے سے تربیت کی ۔ یہ اس کی تربیت تھی جسکی بنا ہم سب کو وہی احترام دیتا تھا ۔جو اپنے قابلِ قدر ولد صاحب کو دیتا تھا۔ اللہ تعالیٰ روحِ خالد کو اسانی کے ساتھ ساتھ۔ تمام اہلِ خاندان اور جملہ احباب کو صبر و جمیل عطا فرمائیں۔ اور خالد کے ان تمام ہم عمر دوستوں کو سلامت رکھیں۔مجھے امید ہے کہ برادرم عبد الولی کے ساتھ ساتھ ہم سب خالد کے دوستوں سے وہی توقع رکھیں گے جو توقع مرحوم خالد سے رکھتے تھے۔ اور ان کے خوشبوِ الفت جدائی خالد کے صدمے کے لیے ہمیں مرہم ثابت ہوگا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں