250

رسالہ ’’روشنی‘‘جی جی ڈی سی کی پہچان…..محمد جاوید حیات 

تعلیم و تعلم کی تعریف یوں کی جاتی ہے کہ بچوں کے رویوں میں مکمل مثبت تبدیلی لائی جائے ان کی صلاحیتوں کو ابھارا جائے ان کی رہنمائی کی جائے ۔ان کی مثبت طریقے سے تربیت کی جائے ۔اگر تعلیم کے یہ اہداف حاصل نہ ہوتے ہوں تو تعلیم وتعلم کا مقصد فوت ہوتا ہے ۔جس اداے کے اندر یہ سب سر گرمیاں نہ ہوتی ہوں تو اس ادارے کی کار کردگی پہ سوالیہ نشانات ہوتے ہیں ۔جو معلم ان مقاصد کو حاصل کرنے کی سعی کرتا ہے وہ درست طور پہ معماربن سکتا ہے ۔۔آج کی بچی کل کی اآفیسر ہے۔۔ذمہ دار ہے ۔۔لیڈر ہے ۔۔طبیب ہے ۔۔انجینئر ہے ۔۔ڈی سی ہے ۔۔معلم ہے ۔لکھاری ہے ۔۔۔مقرر ۔مبلغ ہے ۔قوم کا ستون ہے ۔یہ سب صلاحیتیں اگر اُبھاری نہ جائیں ان کی نشاندھی نہ کی جائیں ۔ان کو نکھارا نہ جائے تو یہ سب موتی یم بہ یم کہیں گم ہو جائینگے اور قوم موتی مالا سے محروم ہو جائے گی ۔قوم افراد سے بنتی ہے اور تاریخ گواہ ہے کہ یہ افراد جوان کہلاتے ہیں ۔۔اور وہی جوان ہے قبیلے کی آنکھ کا تارا ۔۔ شباب جس کا ہے بے داغ ضرب ہے کاری ۔۔اسی جوان کے مقاصد جلیل اور امیدیں قلیل ہوتی ہیں جس کی اس مرحلے میں درست نہج پہ تربیت کی گئی ہو ۔۔گرلز ڈگری کا لج چترال کا سالانہ علمی اور ادبی مجلہ ’’روشنی‘‘ اس تعلیمی ادارے کے معیار اور اس کے اندر علمی اور ادبی سرگرمیوں کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔۔رسالہ ایک سو دس صفحے کا ہے ۔رنگین صفحات ہیں کالج کی مختلف سرگرمیوں کی فوٹو سیشن بھی ہیں اور کالج کی عمارت کے مختلف حصے بھی تصویروں میں نمایان ہیں ۔۔رسالہ تین حصوں پر مشتمل ہے ۔۔اردو ،انگریزی اور مادری زبان شرین کھوار کا حصہ ۔۔پرنسپل مسرت جبین صاحبہ سر پرست اعلی ہیں ۔وائس پرنسپل عائشہ بی بی مدیر اعلی ہیں ۔حصہ اردو کے مدیر عابدہ شمس ہیں آپ اردو کے لکچرر ہیں ۔۔کھوار کے حصے کے نگران شہزادی کوثر ہیں آپ بھی اردو کے لکچرر ہیں ۔معاون مدیروں میں اسلامیات کی لکچرر طاہرہ گل اور نویدہ روزی لکچرر اردو ہیں ۔۔حصہ اردو میں پندرہ مضامین ایک افسانہ ایک حمد بارہ منظومات اور تین غزلیں ہیں ۔۔مضامیں سب قابل تعریف ہیں ۔۔کچھ اپنی بیاض سے خاصے کی چیز ہے ۔ عظیم ذمہ داری ۔۔تاریخ چترال ۔۔تو خود تقدیر یزدان ۔۔ جھوم جھوم کے پڑھا ۔۔بچیوں میں فریحہ شفاء نے بہت متاثر کیا ۔۔سیما کا افسانہ بہت اچھا ہے ۔البتہ اختتام مذید تڑپاتا تو بہتر تھا ۔۔منظومات میں نویدہ کی نظم بہت اچھی ہے البتہ ۔نہ ہی احساس رکھتے ہیں ۔۔کے بعد دو بندوں کا اور اضافہ کرتی ۔۔میں کون ہوں ؟۔۔ماں کی پکار ۔۔شہیدوں کے نام ۔۔مشرق کی بیٹی ۔۔دیکھا ہی نہیں ۔۔ بچپن گذر گیا ۔۔ذرا دیکھ تو لیں ۔۔یاد۔۔ نظم کہانی۔۔اچھی ہیں ۔مسرت جبین مشال کی شاعری نے بہت متاثر کیا ۔۔غزلیں اچھی ہیں ۔۔حصہ کھوار میں شاعری زیادہ نثر کم ہے مگر سب بے مثال ہیں ۔۔لیکن نظم ’’پشمانی‘‘ کا جواب نہیں کلثم فدا نے کمال کیا ہے ۔۔نویدہ کی غزل سادگی کی سند پہ ہے ۔۔نظم ۔’’شرین تت‘‘بہت خوبصورت ہے ۔دوسری غزلیں ہماری بچیوں کی صلاحیتوں کی مثال ہیں ۔۔حصہ انگریزی میں منظومات خاصے کی چیزیں ہیں بعض کو پڑھ کر شک گذرتا ہے کہ میں چترال کی کسی بچی کی نظم پڑھ رہا ہوں یا شکسپیر ،وارستھ ورتھ ،ہاروارڈاور چارلی ایل کی نگارشات میرے سامنے ہیں ۔۔یہ سب کریڈٹ ان اساتذہ کو جاتا ہے جو ان کو اردو انگریزی اور دوسرے مضامین پڑھاتے ہیں ۔تخلیقی صلاحیت اللہ کی دئین ہو تی ہے ۔جس کو نوازتا ہے وہ خوش قسمت ہے ۔۔اس سے بھی زیادہ خوش قسمت وہ ہے جس کوایسا مربی ملتا ہے جو اس کی صلاحیتوں کو نکھارتا ہے ۔اچھے اور عظیم استاد کا کام یہ ہے کہ وہ بچے کی چھپی صلاحیتوں کو عیان کرتا ہے ۔ان کو نکھارتا ہے ۔اس شاگرد کو بے مثال بناتا ہے ۔۔’’روشنی ‘‘ان عظیم اساتذہ کی کاوشوں کی البم ہے ۔۔یہی روایتی تدریس سے ہٹ کر وہ لوگ ہیں جن کو مسیحا ،روح انسانیت کا صنعت گر ،روحانی ماں باپ،مربی اور رہنما کہا جاتا ہے ۔۔تاریخ ان ہستیوں کو یاد کرتی ہے ۔۔آج کا دور صلاحیتوں کا دور ہے قلم کا دور ہے علم کا دور ہے ۔۔یورپ جس نے سائنس میں ترقی کی ہے محسوس کر رہا ہے کہ آج پھر سے ہنر سے زیادہ علم کی اہمیت بڑھ گئی ہے ۔۔مثلا گاڑی چلانا ہنر ہے لیکن ٹیکنالوجی کے اس تیز دور میں اگر خود کار کار بنائی جائیں اور وہ سڑک پہ آجائیں جن کو چلانے کے لئے ڈرائیور کی ضرورت نہ تو ہنر کی کیا حاجت ہے البتہ کار کے بارے میں علم کی اس وقت بھی ضرورت ہو گی ۔۔اس مقابلے کے تیز دور میں جہان طالب علم کی ہر ساعت قیمتی ہو گئی ہے وہاں پہ اساتذہ کی ذمہ داریاں بھی بڑھ گئی ہیں ۔اگر وہ کسی طالب علم کی صلاحیتوں کا ادراک نہ کرے تو یہ استاد اس کی صلاحیتوں کا قاتل بن جائے گا ۔اس لئے آ ج کے استاد کو بہت ذ مہ دار اور با صلاحیت ہونا چاہیے۔ہمارے بچے قابلیت اور کارکردگی میں کسی سے پیچھے نہیں ۔اگر ان کو ایسے اساتذہ اور گرلز ڈگری کالج کی طرح ادارہ مل جائے تو ان کو عظیم بننے میں دیر نہیں لگے گی ۔’’ روشنی‘‘ ایک گلدستہ ہے ۔اس میں موجود جتنی بھی نگارشات ہیں قابل صد تعریف ہیں ۔۔مجھے اُمید ہے کہ گرلز ڈگری کالج اپنی اس بے مثال جد و جہد کو بر قرار رکھے گا اور یہ روشنی اسی طرح پھیلتی رہے گی ۔۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں