320

نوازشریف کون۔۔۔۔۔۔تحریر:تقدیرہ اجمل

فرمایا: اللہ کے ہاتھ بادشاہی ہے بڑی نعمت والاہے اور ہر چیز پر قادر ہے۔اسی نے موت اورزندگی پیدا کی تاکہ تمہاری آزمائش کرسکے کہ تم میں سے اچھے عمل کون کرتا ہے۔”الملک”
پھرفرمایا:۔اور ہم مرنے والے کے تم سے زیادہ نزدیک ہوتے ہیں لیکن تم کو نظر نہیں آتے۔ پس اگر تم کسی کے بس میں نہیں ہو۔ تو اگر سچے ہو تو روح کو پھر کیوں نہیں لیتے۔”الواقعہ”
29اکتوبر کی شام ٹیلی ویژن پر افتخار احمد نامیخود ساختہ دانشور بیٹھا زندگی او رموت کا وقت مقرر کر رہا تھا اور ساتھ ہی راجہ عامر عباس سابق پراسیکیوٹر نیب اور پی ٹی آئی کی نمائندگی کرنے والی خاتون پر توہین آمیز جملے کس رہا تھا۔ افتخار احمد کا کہنا تھا کہ اگر دوماہ کے اندر نواز شریف اور زرداری کو جیل سے نہ نکالا گیا تو دونوں کی موت یقینی ہے۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ افتخار نامی جو تشی کو کیسے پتہ چلا کہ دونوں مریضوں کے دن گنے چنے ہیں اوروہ دو ماہ میں مرنے والے ہیں۔ سوال یہ بھی ہے کہ اگر انہیں جیل سے نکال بھی دیا جائے توا فتخار نامی نجومی کے پاس ان کی زندگی کی کیا گارنٹی ہے۔کیا اس نے کوئی آب حیات دریافت کر لیاہے جو دونوں کو پلا کر اُن کی زندگی میں دو چار سال یا صدیاں اضافہ کرسکتا ہے۔؟
ایسا ہی بیان 27اکتو بر کے روزنامہ نوائے وقت میں دیکھا۔یہ بیان اتنا ہلکا اور کسی حدتک قابل اشاعت نہ تھا مگر پھر بھی نوائے وقت نے اسے ایڈیٹر کی ڈاک والے خانے میں فٹ کر دیا۔ بیرسٹر امجد یقینا بڑے قانون اور انسانی حقوق تنظیم کے اعلیٰ عہدیدار بھی ہیں اور ان کی تحریر سے پتہ چلا کہ وہ علم نجوم کے بھی ماہر ہیں۔ ہمار ا تو پختہ ایمان ہے کہ بادشاہی اللہ کی ہے اور وہی قادرِ مطلق ہے۔مگر بیرسٹر امجد نے پاکستان کی تقدیر نواز شریف سے منسلک کر دی ہے۔ میں نہ تو جوتشی ہوں اورنہ ہی بیرسٹر، یہ بھی پتہ نہیں بیرسٹری میں منطق پڑھائی جاتی ہے یا نہیں۔ یورپ والوں نے اپنی تعلیمی درسگاہوں سے منطق اور الہایات کو تقریبا ً خارج کر رکھا ہے اور اس کی جگہ استھیٹک کی تعلیم دی جاتی ہے۔پتہ نہیں کہ بیرسٹرامجد صاحب نے کس دلیل اور اصول کی بنیاد پر لکھا ہے کہ پاکستان اور نواز شریف لازم و ملزوم ہیں۔
اس سے پہلے دنیا ٹیلی ویژن چینل پر چلنے والے پروگرام میں نواز شریف اور مریم نواز کے مستقل حمایتی دانشورنے کہا کہ یہ ملک نواز شریف کا ہے اور پاکستان کا مستقبل نواز شریف سے وابسطہ ہے۔سوال یہ ہے کہ جب نواز شریف نہ تھا تو ملک کیسے چل رہا تھا۔ کیا 1947 ء سے 1977ء تک پاکستان نام کی کوئی چیز نہ تھی اور یہاں کوئی ویران جزیرہ تھا جو میاں شریف نامی امیر البحر نے دریافت کیا اوراُن کے بچوں اور بھائیوں نے ملکر اسے آباد کیا۔کیا یہ ملک ایک بے نام ریاست تھی جس پر شریف خاندان نے بزور شمشیر قبضہ کیا اور پھر اسے پاکستان کی صورت میں ایک ملک بنایا۔
علم ودانش کے موتی بکھیرنے والوں سے عرض ہے کہ 1977سے پہلے شریف خاندان کی کوئی پہچان نہ تھی۔ یہ لوگ جس جہاز پر بیٹھ کر سیاست کے میدان میں اُتر ے تھے اسکا کپٹن جنرل جیلانی اور کمپنی کامالک جنرل ضیا الحق تھا۔ انہیں آداب سیاست سکھانے میں کسی ٹیلی ویژن اینکر اور صحافی کا کوئی کردار نہیں اور نہ ہی اس متکبر نو د ہ لیتے خاندان نے کبھی ان لوگوں کو قابل توجہ سمجھا ہے۔وہ دولت کی قوت سے درجنوں اینکر،ڈاکٹر،دانشور،صحافی اور غرض مند سیاستدان خرید سکتے ہیں۔ اگر کوئی بکنے اور جھکنے سے انکار کر دے تو بقول ضیا شاہد کے کئی بابو وارث بدمعاش اور سعد رفیق ان کی خدمت پر مامور ہیں۔
سلیمان کھوکھر ایڈووکیٹ نوائے وقت کے مستقل کالم نگار ہیں۔ آپ نے ایک کالم میں لکھا کہ تحریک استقلال کے سربراہ ائیر مارشل اصغر خان (مرحوم)جنرل ضیا الحق کے حکم پر ایبٹ آباد اپنے گھر میں نظر بند تھے۔کسی کو انہیں ملنے کی اجازت نہ تھی۔ اس نظر بندی کے دوران عمر اصغر کی شادی پر ایبٹ آباد گئے جہاں نواز شریف بھی موجود تھے۔ اصغر خان نے بڑی مشکل سے چند ساتھیوں سے ملاقات کی اور کہا کہ نواز شریف اور دیگر کو بتا دیں کہ وہ ضیا الحق کے جھانسے میں نہ آئیں۔باہر آکر نوازشریف کوپیغام دیا تو کہنے لگے کیوں نہ آئیں، کیا ہمیں ساری زندگی اصولوں کے شکنجے میں گزارنی ہے۔
سلیمان کھوکھر کی تحریر سے صاف ظاہر ہے کہ میاں خاندان نے بے اصولی کی سیاست کا آغاز کیا اور اصولوں اور ضابطوں کو توڑ نے کا رویہ اپنا کر ملک کو بد حال او رقوم کو کنگال کر دیا۔سلیمان غنی اور دوسرے عاشقان نے میکاولی کا یہ قول تو ضرور پڑھا ہوگا کہ حکمران کو اصولوں کا پابند نہیں ہونا چاہیے۔ اسے لومڑی کی طرح مکار اور شیر کی طرح خونخوار ہونا چاہیے۔شاید میاں برادران نے سوچ سمجھ کر شیر کا نشان منتخب کیا ہے تاکہ وہ بائیس کروڑ پاکستانیوں کا آسانی اور مرضی سے شکار کر تے رہیں۔
“سچ تویہ ہے “کے مصنف اور ق لیگ کے سر براہ چوہدری شجاعت حسین لکھتے ہیں کہ جنرل ضیاالحق نے ٹیک اور کر تے ہی قوم سے خطاب کیا اور نوے دنوں کے اندر الیکشن کروانے کا اعلان کر دیا۔ہم الیکشن مہم میں مصروف ہوگے اور مٹینگوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔یہ 1977ء کی بات ہے اور ہمارے گھر میں ایک میٹنگ جاری تھی۔ملازم نے بتایا کہ باہر ایک نوجوان برآمد ے سے بیٹھا ہے اور چوہدری ظہور الہیٰ سے ملنا چاہتا ہے۔چوہدری صاحب میٹنگ میں مصروف تھے،آپ نے پرویز الہی کو باہر بھجوایاتا کہ وہ نوجوان کی بات سن لیں۔ میٹنگ ختم ہوئی تو والد صاحب نے پرویز الہی سے مہمان لڑکے کے متعلق پوچھا تو پتہ چلا کہ اتفاق فاؤنڈری والے میاں شریف کا بیٹا نوا ز شریف آیا تھا۔اس نے کہا کہ مجھے میرے والد میاں شریف نے بھیجا ہے،وہ آپ کی الیکشن مہم میں فنڈدینا چاہتے ہیں۔ چوہدری صاحب نے بتایا کہ اسے بتانا تھا کہ ہم الیکشن کے لیے فنڈ ا کھٹا نہیں کرتے۔پرویز الہی نے کہا کہ بتادیا ہے اور وہ اپنا تعا رفی کارڈ دے کر چلا گیا ہے۔
چوہدری شجاعت حسین لکھتے ہیں کہ اس سے پہلے نہ کبھی نواز شریف کو دیکھاتھا اور نہ ہی نام سنا تھا۔ چوہدری شجاعت حسین کے اس بیان کی روشنی میں کہا جاسکتا ہے کہ تب افتخار احمد،بیر سٹر امجد،سلیمان غنی اور دیگر عاشقان وعارفان نے بھی سیاست کے افلا طون کا نام نہ سنا ہوگا مگر پاکستان کا حدود اربعہ چودیں صدی میں سلطان شہاب الدین غوری نے متعین کر دیا تھا۔ تاریخ فرشتہ میں لکھا ہے کہ سلطان نے پر تھوی راج چوہان کے نام خط میں لکھا کہ سندھ،بلوچستان،دریائے گاگرہ کے مغربی حصے کا پنجاب اور کوہ ہند وکش تک کا علاقہ میرے حوالے کردو اور باقی ہندوستان سے مجھے غرض نہیں۔ مگر پرتھوی راج چوہان نہ مانا اور نیست و نابود ہوگیا۔
سیّد ہ عابدہ حسین اپنی تحریر” اور بجلی کٹ گئی” میں لکھتی ہیں کہ گورنر پنجاب جنرل سوار خان سے ملنے گئی۔ ملاقات کے بعد گورنر ہاؤس سے باہر نکلی تو راستے میں گورنر کا اے ڈی سی او رایک گورا چٹا،سرخ رنگت والا نوجوان مٹھائی کا بہت بڑا ڈبہ اُٹھائے کھڑا تھا۔اے ڈی سی مجھے گاڑی تک چھوڑنے آیا اور کہا یہ میاں نواز شریف ہے۔جیسے میں اسے پہلے جانتی ہوں۔
عابدہ حسین لکھتی ہیں کہ یہ سن کر مجھے حیرت ہوئی۔ اس سے پہلے یہ نام کبھی نہ سنا تھا۔ آگے چل کر لکھتی ہیں کہ صدر فاروق لغاری نے شریف برادران سے ملنے سے انکار کر دیا تو ان لوگوں نے میرے والد کرنل عابد حسین اور صدر لغاری کے والد کے درمیان دوستانہ تعلقات استعمال کرنے کی ٹھان لی۔میرے لاکھ انکار کے باوجود پرانے لیگیوں نے مری لے جا کرمیری ملاقات میاں شریف اور ان کے بیٹوں سے کروائی۔ میاں شریف نے عاجزانہ انداز گفتگو کا آغاز کیا او رکہا کہ 1954ء میں، میں نے ایک چھوٹی سے فاؤنڈری لگائی۔آپ کے والد نے مجھے جھنگ بلایا جہاں میں نے آپ کی زمینوں پر ٹیوب ویل لگایا۔ پھر انہوں نے مجھے چوٹی زیریں اپنے دوست سردار محمد خان لغاری کی زمینوں پر ٹیوب ویل لگانے کے لیے بھیجوادیا۔ عابدہ حسین لکھتی ہیں کہ میاں خاندان کے کئی کاروباری روپ ہیں اور سیاست بھی ان کے کاروبار کا حصہ ہے۔ بوقت ضرورت وہ عاجزی اورانکساری کا ہتھیار استعمال کرتے ہیں اور ضرور ت نہ ہوتو اپنے انتخابی نشان شیرکی طرح چیر پھاڑ سے بھی کام لیتے ہیں۔
میکاولی کا قول ہے کہ حکمران کوکبھی رحم دل نہیں ہونا چاہیے اور نہ ہی اصولوں پر کار بند رہنا چاہیے۔دیکھا جائے تو میاں خاندان کی سیاست اور حکمرانی میں چانکیائی اور میکا ولین نظریات کی جھلک موجود ہے۔
جناب ضیا شاہد کی کتاب” نواز شریف میرا دوست” میاں خاندان کی سیاسی،کاروباری اور معاشرتی زندگی کے ہر پہلو کی ترجمان ہے۔لکھتے ہیں کہ میاں نواز شریف کی الیکشن مہم فوج نے چلائی اور جنرل جیلانی نے روزنامہ جنگ کو انہیں سیاست میں نہ صرف متعارف کروانے بلکہ قومی لیڈر بنانے کا ٹھیکہ بھی دیا۔ اس ٹھیکیداری میں کیا کیا مراحلے آئے اس کی تفصیل کتاب پڑھنے سے ہی معلوم ہوسکتی ہے۔
لکھتے ہیں کہ بقول میاں شریف مرحوم کے،نواز شریف کی پہلی الیکشن مہم پر تین ارب خرچ ہوئے اورمیاں خاندان نے بدلے میں نو ارب کما کر کرپشن کی ابتدائی کی۔ مرحوم مجید نظامی اور جنرل حمید گُل کے مشوروں کا بھی ذکر ہے کہ انہوں نے میاں شریف (مرحوم) کومشورہ دیا کہ جب تک آپکا بیٹا وزیر اعظم ہے کوئی نئی فیکٹری نہ لگائیں۔میاں صاحب نے کہا کیوں نہ لگاؤں۔ اب ہی تو فیکٹریاں لگانے کاو قت ہے۔
29اکتوبر کے ایک ٹیلی ویژن شو میں جنرل عبدالقیوم ملک نے کہا کہ میاں صاحب کوئی فیکٹریاں چلاتے تھے۔کوئی ان جنرل سے پوچھے کہ بتائیں کہ وہ فیکٹریوں کے علاوہ کیا کرتے تھے،ان کی سیاست بھی تو فیکٹری ہی ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں