216

وزیر اعلی صاحب!پروفیسروں کی بھی سن لیں۔۔۔۔تحریر: امیرجان حقانی

محکمہ ایجوکیشن گلگت بلتستان کا شعبہ کالجز گوناگوں مسائل کا شکار ہے۔گلگت بلتستان میں ٹوٹل 25کالجز ہیں جن میں ہزاروں طلبہ و طالبات زیر تعلیم ہیں۔ گلگت بلتستان لیکچرار اینڈ پروفیسر ایسوسی ایشن ان کالجز اور فیکلٹی کی نمائندہ تنظیم ہے۔ایسوسی ایشن نے ان کے مسائل ہر فورم میں مناسب طریقے سے اٹھایا ہے۔کالجز گلگت بلتستان کا واحد شعبہ ہے جہاں پانچ سو کے قریب گزٹڈ آفیسر ہیں جو انتہائی مشکلات میں تدریسی خدمات انجام دے رہے ہیں۔جی بی کے کسی بھی محکمے میں اتنے اعلی اور تعلیم یافتہ آفیسر نہیں ہیں۔
آج کی محفل میں وزیر اعلی گلگت بلتستان، وزا کرام، ممبران اسمبلی،چیف سیکریٹری، سیکریٹری صاحبان اور دیگر ارباب حل و عقد کی خدمت میں گلگت بلتستان کے کالجز کے پروفیسروں کی چند گزارشات پیش کرنے کی جسارت کی جارہی ہے۔مجھے امید ہے کہ ان بنیادی مطالبات کو فوری حل کیا جائے گا جو حل طلب ہیں۔
جناب وزیر اعلی صاحب! یہ بھی ذہن میں رہے کہ کالجز کے فیکلٹی کی یہ ایسوسی ایشن کوئی مفاداتی گروپ ہے نہ ہی کوئی پریشر گروپ۔ہمیشہ کوالٹی ایجوکیشن اور سسٹم کی بہتری کی بات کی ہے۔جب جب متعلقہ حکام نے کوئی اچھی کارکردگی دکھائی ہے ایسوسی ایشن نے بھرپور ساتھ دیا ہے۔ اچھے کاموں کو تحسین کی نگاہ سے دیکھا ہے۔ ایسوسی ایشن نے انتہائی مجبوری کے عالم میں بھی محکمہ اور حکومت کو ڈسٹرب نہیں کیا ہے۔یہی پڑھے لکھے اور انٹیلیکچول لوگوں کا رویہ بھی ہونا چاہیے اور اپروچ بھی، جو گلگت بلتستان کے پروفیسروں میں بدرجہ اتم پایا جاتا ہے۔
جناب وزیر اعلی صاحب! نوٹ کرنے کی بات ہے کہ کالجز کے پی سی فور کے مطابق ٹوٹل اکیڈمک اسٹاف کی تعداد565ہونا ہے جن میں 210پوسٹوں کی کریشن ہی نہیں ہے۔باقی موجودہ SNE (Schedule of New Expenditure) کے مطابق 355پوسٹوں کی کریشن ہے۔جن میں دو پروفیسر، 20ایسوسی ایٹ پروفیسر،ایک ڈائریکٹر،22 اسسٹنٹ پروفیسر، دو ڈپٹی ڈائریکٹر، 82لیکچرارز کی پوسٹیں خالی ہیں۔ ان تمام خالی آسامیوں پر ڈیپارٹمنٹل پروموشن اور فیڈرل پبلک سروس کمیشن سے عدم تقرری کی وجہ سے تمام پروفیسر اور کالجز سخت مسائل کا شکار ہیں۔
جناب وزیراعلی صاحب! دیگر صوبوں بالخصوص کے پی کے اور پنجاب کی طرح گلگت بلتستان میں بھی سروس اسٹرکچر Revised 4_tier یا 5_tier اور Higher Time Scale کا اطلاق ضروری ہے جس کے لیے ہنگامی بنیادوں پر احکامات صادر ہونے چاہیے تاکہ پروفیسروں میں پایا جانے والا اضطراب ختم ہو۔ وفاق سمیت دیگر صوبوں میں اس پر عمل درآمد ہوچکا ہے۔
جناب وزیراعلی صاحب! جی بی کالجز میں BS پروگرامات شروع کیے جانے والے ہیں اس کے لیے بھی بہترین پالیسی میکنگ کی ضرورت ہے۔قراقرم یونیورسٹی بھی معاملات سلجھانے کے بجائے الجھائے جارہی ہے۔جو قابل افسوس ہے۔قراقرم یونیورسٹی کی غیر ضروری حرکتوں کی وجہ سے بورڈ فیڈرل منتقل ہوا جس کی وجہ سے گلگت بلتستان کو سالانہ کروڈوں کا نقصان ہوا ہے۔ خود یونیورسٹی دیوالیہ بنتا جارہا ہے۔ اگر گلگت اور دیامر ریجن کی کالجز بھی BS پروگرامات کے لیے کہیں اور کا رخ کرتی ہیں تو یہ بھی علاقہ سمیت کے آئی یو کے لیے المیہ اور نقصان کا سبب ہوگا۔کسی مناسب طریقے سے یونیورسٹی اور صوبائی گورنمنٹ کے درمیان اس پر ایک کنٹرکٹ کی ضرورت ہے۔یہ بھی آپ کی ذمہ داری بنتی ہے۔ورنا بہت سار ے لوگ علاقے کو نقصان دینے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔
جناب وزیر اعلی! جتنا تعاون گلگت بلتستان حکومت نے قراقرم یونیورسٹی اور بلتستان یونیورسٹی کیساتھ کیا ہے کسی صوبہ میں اس کی مثال نہیں ملتی کہ فیڈرل کے ایک ادارے کیساتھ اتنا تعاون کیا گیا ہو۔دونوں یونیورسٹیوں نے محکمہ تعلیم کی کالجز پر یونیورسٹی اور کیمپس شروع کیے ہیں۔ اور موجودہ حکومت نے تو کرڈوں کا گرانٹ بھی دیا ہے۔باوجود اس کے ان کا رویہ اور پالیساں علاقائی مفاد کی بجائے نقصان پر منتج ہیں۔میں نے تحریری طور پر یونیورسٹی کے وی سی اور رجسٹرار و کنٹرولر کو آٹھ صفحات پر لکھ کر بھی دیا تھاکہ کے آئی یو کا رویہ بہتر بنانے کی ضرورت ہے بصورت دیگر بورڈ جائے گا مگر ان کے کانوں میں جوں تک نہ رینگی اور بورڈ سے ہاتھ دھو بیٹھے اور اپنے سمیت علاقے کو بھی بھاری نقصان سے دو چار کیا۔اب BS پروگرامات کے اجرا میں بھی یہی اٹھکھیلیاں کررہے ہیں۔
جناب وزیراعلیٰ صاحب! جی بی کالجز کے درجنوں مسائل ہیں لیکن سر دست وزیراعلی اور دیگر تمام ممبران اسمبلی کی خدمت عالیہ میں گلگت بلتستان پروفیسر ایسوسی ایشن کے صدر اور جنرل سیکرٹری نے کابینہ اور فیکلٹی کی مشاورت سے22نومبر 2019کوایک اپیل کی ہے۔ ایسی ہی ایک اپیل ستمبر 2019 میں بھی آپ کی خدمت میں پیش کی جاچکی ہے۔ چونکہ ابھی چند دونوں میں اسمبلی اجلاس اور کابینہ کی میٹنگ ہونی ہے توآپ کی خدمت میں یہ اپیل دوبارہ اس لیے پیش کی جاتی ہیں کہ آپ حضرات سنجیدگی سے ان مسائل کو اپنے ایجنڈا کا حصہ بنائیں گے اور ممکن حد تک حل فرمائیں گے۔اپیل حسب ذیل ہے جو من و عن درج کی جاتی ہے۔
َ ًًٍٍَِ”محترم جناب حافظ حفیظ الرحما ن صاحب، وزیر اعلی گلگت بلتستان
محترم جناب ابراہیم ثنائی صاحب، وزیر تعلیم گلگت بلتستان
جملہ وزرا کرام اور ممبران اسمبلی صاحبان
عنوان: گلگت بلتستان پروفیسر اینڈ لیکچرار ایسوسی ایشن کے حل طلب بنیادی مطالبات
گلگت بلتستان پروفیسر اینڈ لیکچرار ایسوسی ایشن گلگت بلتستان کی تمام کالجز(میل و فی میل) کے فیکلٹی ممبران کی نمائندہ تنظیم ہے۔ایسوسی ایشن نے بار بار ارباب اختیار کو اپنے مسائل سے آگاہ کیا مگر شنوائی نہیں ہوئی۔لہذا جناب وزیر اعلی صاحب اور وزیر تعلیم صاحب سے مکرر التماس کرتے ہیں کہ ان جائز اور بنیادی مطالبات پر مشفقانہ غور فرمائیں اور اپنے احکامات صادر کریں۔مطالبات حسب ذیل ہیں:
۱۔ ہائر ٹائم سکیل پرومووشن
اس کی فائل 2017 سے ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ میں زیر التوا ہے۔جبکہ فیڈرل اور دیگر صوبوں میں 2012،2013،2014 میں کو لاگو ہوچکا ہے۔
۲۔سروس اسٹرکچر یعنیRevised 4_tier
اس سروس سٹرکچر پر دیگر صوبوں میں 2012میں عملدرآمد ہوچکاہے۔
۳۔ٹیچنگ الاونس (تمام اساتذہ کا تدریسی الاونس کم از کم 20ہزار کیا جائے)
جناب وزیراعلی اور کابینہ کی منظوری سے ہی گلگت بلتستان کے کئی ڈیپارٹمنٹ کو الاونس دیے گئے اور بڑھائے گئے ہیں۔جو خوش آئند ہے۔ موجودہ مبلغ ایک ہزار(1000) تدریسی الاونس سے بڑھا کر بیس ہزار کردیا جائے۔
۴۔تکمیل شدہ سکیم(کالجز) کی آسامیوں کی کریشن
گلگت بلتستان میں پندرہ کالجز کے فیکلٹی اسٹاف سے 25 کالجز چلائے جارہے ہیں جس کی وجہ سیکالجز میں کوالٹی ایجوکیشن میں مسائل پیدا ہورہے ہیں۔
۵۔محکمہ ایجوکیشن بالخصوص کالجز کی عمارتوں کی حفاظت اور دیگر اداروں سے خالی کرانا
جناب وزیر اعلی،وزرا کرام اور ممبران اسمبلی سے گزارش ہے کہ اسکول، کالجز اور ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کی عمارتوں اور اثاثوں کی حفاظت کے لیے خصوصی ایکٹ لایا جائے تاکہ تعلیمی اداروں کی عمارتیں کسی اور مقصد کے لیے استعمال نہ ہوسکیں۔
پروفیسر ارشاد احمد شاہ(صدر)
پروفیسر محمد رفیع(جنرل سیکریٹری)“۔
ہم امید کرتے ہیں کہ آپ ان تمام معاملات کوبہت سنجیدگی سے لیں گے۔ یہ بھی یاد رہے کہ آپ کی پہلی توجہ کالجز اور ان کے فیکلٹی کے مسائل پر ہونی چاہیے۔اگر آپ نے ان کالجز کے مسائل اور فیکلٹی کی محرومیوں اور مسائل کو حل کیا تو یہ پروفیسر حضرات آپ کے ہمیشہ ممنون و مشکور رہیں گے۔وزیر اعلی مہدی شاہ صاحب نے پروفیسروں کچھ مسائل حل کیے تھے، جس کا کریڈیٹ آج بھی برادری میں اس کو دیا جاتا ہے۔تب کے وزیر تعلیم اور سیکرٹری تعلیم پروفیسروں کے وکیل بن گئے تھے وزیراعلی کے سامنے۔کیا آج بھی کوئی ایسا کردار ادا کرسکتا ہے؟۔
جناب وزیراعلی صاحب!آپ ایک وژنری اور فعال انسان ہیں۔آپ کے وزیر تعلیم اور وزیر قانون بھی معاملات اور مسائل کو اچھی طرح سمجھتے ہیں۔سیکریٹری ایجوکیشن بھی ایک فعال، انرجیٹک اور موسٹ سینئر آفیسر ہیں جنہوں نے کئی محکموں میں بہترین کارکردگی دکھائی ہے۔آپ کا پرسنل سیکرٹری حاجی ثنا اللہ صاحب بھی پروفیسروں اور کالجز کے ایک ایک مسئلہ سے مکمل آگاہ ہیں اور ہمدردی بھی رکھتے ہیں۔
جناب وزیر اعلی صاحب!کابینہ کے اراکین کو بھی باردگر مطالبات سے آگاہ کیا جاچکا ہے۔ ان تمام ذمہ دار لوگوں کیساتھ آپ ایسوسی ایشن کے جائز اور بنیادی مطالبات پر توجہ دیتے ہیں تو یقین جانیں آپ ہمیشہ کے لیے لیکچراروں اور پروفیسروں کے ہیرو بن جائیں گے۔تب یہ مانا بھی جائے گا کہ آپ واقعی استادوں کا احترام کرتے ہیں، تعلیم دوست ہیں اور علم پرور ہیں۔ ورنا تقاریب میں تقاریر کرکے،استادوں سے اظہار محبت کرکے، ایوارڈ اور ریگارڈ دینے کی بات کرکے،عملی طور پر ان سے ملاقات بھی نہ کرکے اور نہ ہی مسائل پر توجہ دے کر، تاریخ اور پروفیسروں کے دلوں میں امر نہیں ہوسکتے۔آپ نے تمام جی بی کے ملازمین کو سردیوں کی مد میں ملنے والا الاونس دیا جو بڑے آفیسر ہڑپ کر جاتے تھے۔یہ الاونس سب ملازمین کو ملا،مگر مسلسل شکر گزار اساتذہ ہیں۔آپ کے لیے خصوصا سردی کے دنوں میں اساتذہ کی دعائیں نکلتی ہیں۔یہ لو گ تھوڑے پر بھی قناعت کرتے ہیں مگر کوئی مائل بہ کرم تو ہو۔
جناب وزیر اعلی صاحب!کتنے المیے کہ بات ہے کہ گزشتہ سترہ اٹھارہ سالوں سے ایک لیکچرار اسی گریڈ یعنی سترہ گریڈ میں کام کررہا ہے۔ کوئی پروموشن نہیں ہوئی۔ جبکہ انہیں استادوں سے تعلیم حاصل کرکے ڈگریاں لینے والے طلبہ دیگر ڈیپارٹمنٹ میں گریڈ سولہ اور سترہ میں بھرتی ہوئے ہیں اور چند سالوں میں پروموشن کے ذریعے گریڈ اٹھارہ،انیس اور بیس تک پہنچے ہیں۔ایسے بہت سارے مسائل اور مشکلات ہیں جن کی وجہ سے سخت قسم کا اضطراب پایا جاتا ہے۔پروفیسر برادری آپ سے یہی امید کرتی ہے کہ جو آپ کے اختیار میں ہیں پہلی فرصت میں حل کیجیے اور وفاقی اختیارمیں جو امور ہیں ان تک بھی آپ ذاتی طور پراپروچ کرکے، کالجز کو اپنا گھر سمجھتے ہوئے لاینحل مسائل، حل کرانے میں ممد ومعاون ثابت ہونگے۔ان شا اللہ آپ انٹیلکچول برادری کے مسائل پر توجہ دے کر اور ان کے ساتھ کوالٹی ایجوکیشن کے لیے کام کرکے بہت طمانیت محسوس کریں گے۔اور عنداللہ وعندالناس ماجور و ممنون ہونگے۔
میری چیف سیکرٹری،سیکرٹریز اور بالخصوص سیکرٹری ایجویشن، ایڈیشنل سیکرٹری، ڈپٹی سیکرٹری اور ڈائریکٹر ایجوکیشن اور دیگر عملے سے بھی پرزور درخواست ہوگی کہ آپ بھی ان مسائل کو انتہائی سنجیدگی سے لیں گے۔اور پروفیسروں میں پائی جانے والی مایوسی کو دور کرنے میں ممد و معاون ہونگے۔ اور ایک انٹیلکچول برادری کو محاذ آرائی پر مجبور نہیں کریں گے۔اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں