333

کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ۔۔۔۔۔تحریر :تقدیرہ خان……

تحریر :تقدیرہ خان……

کرہ ارض پر معاشرتی  زندگی کا آغاز  حضرت آدم ؑ اور حضرت حواؓ کے قیام اور اُن کی اولاد کے ظہور سے ہوا۔ حضرت آدمؑ اور حضرت نوحؑ کے درمیانی عرصہ میں حضرت ادریس ؑ کا دور ہوگزرا ہے جسے ظاہر ی علوم وفنون کا دور کہا جاتاہے۔ حضرت آدم ؑ اور اُن کے بیٹے حضرت شیش ؑ کے ادوار میں خالصتاً روحانی اور دینی معاشرہ قائم ہوا جس کی ضروریات سادہ اور مختصر تھیں۔ انسان اپنے ابتدائی دور میں انتہائی مضبوط اور قوی تھا۔ اُس کی زندگی عبادات الہٰی اور مشائدات سے میزن تھی۔ قدرت نے اس ابتدائی معاشرے کو ایک ایسے تمدن میں ڈھال رکھا تھا جہاں ہوس وحرص کا کوئی شاہبہ نہ تھا۔
حضرت ادریس ؑ کے ظہور تک معاشرہ کئی قبیلوں اور کنبوں میں تقسیم ہو کرکرہ ارض کی وسعتوں تک پھیل چکا تھا اور ایک قبائلی معاشرہ اور ریاست وجود پذیر ہو چکی تھی۔ انسان اپنی بنیادی ضروریات حاصل کرنے کا ہنر جانتا اور ان ضرورتوں کے حصول کے لیے ایجادات کی طرف بھی متوجہ تھا۔
قرآن کریم میں ذکر ہے کہ جب شیطان نے تمہیں برہنہ کر دیا توتمہارے ربّ نے تمہیں لباس عطا کیا۔ پھر فرمایا کہ بہترین لباس تقویٰ اور پرہیز گاری ہے۔ ابتداء میں خالق کائنات نے اپنے بندے کو جو لباس عطا کیا یقینا وہی لباس اولاد آدم ؑ کو بھی عطا ہوا۔ جو خوراک آدم ؑ اور حوا ؓ کے لیے منتخب کی گئی وہی اُن کی اولاد کے لیے بھی مہیا کی گئی تاوقتیکہ ربّ نے ابتداء میں فرشتوں کے ذریعے اور پھر اپنے منتخب بندوں، نبیوں، رسولوں اور ولیوں کے ذریعے انسان کو علم دیا تاکہ وہ اپنی بڑھتی ہوئی ضروریات کے مطابق علم کے ذریعے ایجادات اور مشاہدات ظاہر یہ کی روشنی میں ظاہری ومادی ترقی کی منازل طے کرسکیں۔
اللہ خالق و مالک نے کسی بھی دور میں اپنے بندوں کو اُن کے حال پر نہ چھوڑا۔ انسان کی ظاہری اور باطنی زندگی کے لیے وقت اورحالات کے مطابق رہنما اصول و ضابطے خدائی احکامات کی صورت میں نازل ہوتے رہے تاکہ انسان بے راہ روی کی زندگیاں اختیار نہ کرے اور اُس کی نشو و ارتقأ کی منازل آسان ہوں۔ انسانی زندگی میں کچھ ایسے ادوار بھی آئے جب الہٰی قوانین کانزول کچھ وقت کے لیے روک دیا گیا۔ سلسلہ رُشد وہدایت میں وقفہ ہوا اور کچھ عرصہ کے لیے کوئی نبی یا رسول انسانوں کی رہبری کے لیے مبعوث نہ ہوا۔ دیکھا جائے تو انسانی تاریخ میں یہی وہ ادوار ہیں جب انسان اللہ کے احکامات اور مروجہ قوانین شریعت وہدایت سے روگرداں ہو کردیو مالائی روایات اور مادی علوم کا مبلغ ٹھہراجس کی مثال مصری، بابلی، یونانی اور ہندی تہذیبوں کے طویل ادوارہیں۔ یہ ادوارمادی علوم کی معراج تو تصور کئیے جاتے ہیں مگر خدا کی واحدانیت کا ان میں کو ئی تصور نہیں۔
فرمان ربی ّ ہے کہ اور زمین کی وسعتوں میں اترو اور مشاہدہ کروکہ تم سے پہلے کتنی اُمتیں آئیں اور جب اللہ کے حکم و ہدایات سے روگردان ہو کر شیطانی قوتوں کے تابع زمین پر شرو فساد پھیلانے کا موجب بن گئیں تو اللہ نے اپنے حکم سے انہیں نیست و نابود کر دیا۔
رُشدو ہدایت کے وقفے کے دوران بندگان خدانے ایک عرصہ تک اللہ کا پیغام اُس کی اصل صورت میں لوگوں تک پہنچانے اور صحائف میں درج احکامات کی روشنی میں لوگوں کی تربیت کا مشن جاری رکھا مگر باطل قوتوں اور مادیت کے پیرو کاروں نے احکامات الہٰی کو اپنی ترقی، خوشحالی اور عام لوگوں پر حکمرانی کی راہ میں رکاوٹ سمجھ کر ایسے حربے اور چالیں اپنائیں تاکہ لوگ دین حق اور صراط مستقیم سے ہٹ کر ایسے خداؤں کی پوجا کرنے پر مجبور ہو جائیں جو جبر و ظلم کے پیا مبرتھے۔
انسانی معاشرتی، سیاسی اور مادی زندگی میں ایسے ادوار کا ہونا ایک قدرتی امّر ہے۔ ربّ کائنات نے انسانوں کو عقلی وشعوری قوتوں سے میزن کرنے کے بعد ثابت کیا کہ انسانی علم وعقل کا دائرہ محدود اور شعور حکمت سے عاری اور بے راہ روی کا شکار ہو کر انسان کو تباہی کی طرف مائل کرنے کا موجب بن جاتا ہے۔
انسان کے مقابلے میں دیگر مخلوق حکم، عمل، عدل اور شعور کی راہ پر گامزن ہے اور حکم الہٰی، امر ربی ّسے اپنے دائرے سے باہر نہیں نکل سکتی۔ سوائے انسانوں کے زمین پر بسنے والی مخلوق شعوری راہوں پر چلتی ہے اور کسی عقلی یا علمی دلیل کی روشنی میں شعوری زندگی سے ہٹ کر کوئی دوسری راہ اختیار نہیں کرتی۔
سمندری مخلوق زمین پر نہیں آتی اور نہ ہی زمینی مخلوق سمندروں پر اپنا حکم و ارادہ مسلط کرتی ہے۔ اڑنے، رینگنے اور زمین پر چلنے والی مخلوق اپنے دائر ہ کار میں رہتے ہوئے اپنی متعین زندگی گزار کر اپنے اختتام کو پہنچ جاتی ہے اور امر الہٰی سے روگردانی کا تصور ہی نہیں کر سکتی۔
اللہ خالق ومالک کے سواکائنات کی ہر چیز مخلوق ہے اور اُسی کے حکم و ارادے کی محتاج ہے۔ فرمان ربی ّہے کہ ”اللہ کے ہاتھ ہی بادشاہی ہے۔ وہ برکت والا ہے اور ہر چیز پر قادر ہے۔ اُسی نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تمہاری آزمائش کر ے کہ تم میں سے کون اچھے عمل کرتا ہے،، پھر فرمایا ”اُسی نے سات آسمان اوپر تلے بنائے، ذرا دیکھ تمہیں ان میں کوئی نقص، کوئی شگاف نظر نہیں آتا ہے “؟؟
دیکھا جائے تو یہ ایک بڑا چیلنج ہے کہ انسان اپنی عقلی، علمی، شعوری قوتوں اور ایجادات کے باوجود اس حکمت کو نہیں پاسکتا کہ اُسکے سر پر قائم آسمان درحقیقت سات منزلوں پرمشتمل ہے۔ جس مین برج اور راستے بھی ہیں۔ آگے چل کر فرمایا قسم ہے آسمان جالیدار کی۔ کیا کوئی انسان اپنی تحقیق میں اس بات کا کھوج لگا سکتا ہے کہ یہ سب کیسے تخلیق ہوا اور خالق کائنات نے اپنی حکمت، قدرت اور ارادے کو کس طرح بروئے کار لا کر یہ سب کارخانہ محض چھ دنوں میں قائم کر کے انسان کو باور کروایا کہ صرف اللہ ہی زبردست حکمت اور علم والا ہے۔ مخلوق کا وہی خالق ہے اور کوئی چیز اُس کے حکم وارادے سے باہر نہیں۔انسان پر فرض ہے کہ وہ اللہ کی بہترین مخلوق ہونے کا ثبوت دے اور اُس کے حکم کے مطابق زندگی بسر کرے۔ وہ اللہ کی حاکمیت کے تابع اس کے بتلائے راستے صراط مستقیم پر گامزن رہے اور اپنی ظاہر و باطنی زندگی میں روگردانی نہ کرے۔
ایک کامل ومکمل انسان کے لیے ضروری ہے کہ وہ سب سے پہلے اپنی پہچان کرے تاکہ اُس کی ظاہری و باطنی زندگی میں ہم آہنگی برقرار رہے۔ جب تک انسان ذات کی پہچان سے غافل رہتا ہے وہ انسانیت کے اعلیٰ درجے پر فائز نہیں ہوسکتا ہے اور نہ ہی وہ معاشرے اور ریاست میں رہتے ہوئے کوئی مثبت عمل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ابتدائے آفر نیش میں ربّ تعالیٰ نے اپنے بندے حضرت آدم ؑ پر چھ صفحے نازل کیے تاکہ اولاد آدم ؑ شیطانی چالوں اور حربوں سے بچ کر صراط مستقیم پر قائم رہے۔ تاریخ کے بیان کے مطابق حضرت آدم ؑ ایک ہزار سال یا اس سے کچھ زیادہ عرصہ تک دنیا میں رہے۔ آپ ؑکی زندگی میں ہی آپؑ کے بیٹے حضرت شیت ؑ درجہ نبوت پر فائز ہوئے اور یہ رسم آئندہ زمانوں میں بھی چلتی رہی۔
حضرت ابراہیم ؑ اور حضر ت اسمعیل ؑ ایک ہی دور کے پیغمبر ہیں۔ کچھ روایا ت میں ہے کہ حضرت اسحاق ؑ کو بھی حضرت ابراہیم ؑ کی زندگی میں نبوت عطاہوئی۔ حضرت داؤد ؑ اور حضرت سلیمان ؑ کا زمانہ نبوت بھی ایک ہی ہے جبکہ حضرت موسیٰ ؑکی دعا اور درخواست قبول ہوئی اور حضرت ہارون ؑ کو درجہ نبوت پر فائز کر کے حضرت موسیٰ ؑ کی معاونت کا فریضہ سونپا گیا۔ حضرت یعقوب ؑ اور حضرت یوسف ؑایک دور کے پیغمبر ہیں۔ کچھ روایات میں ہے کہ حضرت یعقوب ؑ اور حضرت یوسف ؑ ایک ہی دور کے پیغمبر ہیں۔ کچھ روایات میں ہے کہ حضر بنیامین ؑ بھی درجہ نبوت پر فائز تھے۔
حضرت ابراہیم ؑ کو جو فرشتے حضرت اسحاقؑ کی خوشخبری دینے آئے وہی فرشتے قوم لوط ؑاورقوم صالح ؑکے لیے عذاب الہٰی کا پیغام بھی لائے۔ ایک دور میں ایک ہی قبیلے یا خاندان سے دو یا تین پیغمبروں کا ہونا یا پھر ایک ہی دور میں زمین کے مختلف حصوں پر اللہ کے نبیوں اور رسولوں کا مبعوث ہونا اس امر کی دلیل ہے کہ اللہ نے زمین پر کوئی انسان، قبیلہ، معاشرہ اور ریاست نہ چھوڑ ی جہاں اُسکا پیغام اُس کے منتخب بندوں،نبیوں، رسولوں، علمائے حق اولیائے کاملین کی وساطت سے نہ پہنچا ہو۔ اگر ایک نبی کی زندگی میں یا پھر نبی کے بعد دوسرا مرسل نہ آیا تو ایک طویل دور تک علمائے حق شریعت و طریقت کو اس کی اصل حالت میں بحال رکھنے میں کامیاب رہے اور عوام و حکمران شریعت کے تابع طریقت کے اصولوں پر گامزن رہے۔ شریعت ہی وہ طریقہ ہے جس کی روشنی میں انسان خداکے نازل کردہ احکامات پر یکسوئی سے قائم رہ کر طریقہ کار یعنی صراط مستقیم کی راہ اختیار کرتا ہے تاکہ اللہ کے احکامات سے کسی صورت روگردانی نہ ہو۔ شریعت کے بغیر نہ تو طریقت کی راہ متعین ہوتی ہے اور نہ ہی ایک انسان اپنی پہچان کا فریضہ ادا کر سکتا ہے۔
نبیوں، رسولوں اور علمائے حق کا اولین مقصد انسان کوپہچان کے مراحل سے گزارنا اور اسے بندگی کے آداب سکھلانا تھا۔ ہر شخص اپنی پہچان سے ہی اپنے ربّ کی پہچان کرتا اور اُسی کے بتلائے ہوئے اصولوں کے مطابق زندگی گزارنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ موجودہ دور بظاہر سائنس و ترقی کا دور ہے۔ مگر اصلاً ہم ایسے دور میں جی رہے ہیں جو مصنوعی، بے ہنگم اور بے مقصد ہے۔ انسانی اخلاقیات کا فقدان ہے اور انسان نہ صرف خالق کی پہچان سے معذور ہے بلکہ اپنی ذات سے بھی بے فکر ہے۔ قارون، فرعون،نمرود، شداد، بخت نصراورسکندر طاؤس کی شکل میں مودی، ٹرمپ، حسینہ واجد، آنگ تان سوئی، نتن یاہوااور ان جیسی سوچ والے حکمرانوں نے مسلم دنیا سے وہی برتاؤ شروع کر رکھا ہے جو انسانی تاریخ میں درندگی، بے حسی اور انسانی تذلیل کا دور کہلاتا ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ اس کا جواب بڑاسہل اور آسان ہے۔ جب انسان اللہ اور اپنی پہچان بھول جاتا ہے تو اُسکا حشر یہی ہوتا ہے جوآج مسلمانوں کیساتھ ہورہاہے۔ دنیا کے وسائل کا ستر فیصد مسلمانوں کی دسترس میں ہے مگر محض دین سے دوری کی بناء پر ذلت و رسوائی کی زندگی جینے پر مجبور ہیں۔ کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ سب ہمارے ساتھ ہی کیوں ہے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں