250

مائیک پومپیو کی دھمکی

ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی
بڑی خبر یہ ہے کہ امریکی سیکرٹری خارجہ مائیک پومپیو نے تخت کابل کے دو اُمیدواروں یعنی اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کو امریکی امدادمیں کمی کی دھمکی دی ہے۔مائیک پومپیونے روان ہفتہ کابل کا ہنگامی دورہ کرکے اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ سے الگ الگ ملاقاتیں کیں۔ان ملاقاتوں میں دونوں متوازی اور متحارب صدارت کے اُمیدواروں کو باہمی اتحاداور اتفاق سے متحدہ حکومت بنانے کا مشورہ دیا جو صدر ٹرمپ کا خصوصی پیغام تھا۔کابل میں قیام کے دوران مائیک پومپیونے محسوس کیا کہ دونوں متحارب رہنماؤں کا رویہ وہی ہے جو 1994میں استاد برہان الدین ربانی اور انجینئر گل بدین حکمتیار کارویہ تھا جس کے نتیجے ان کی حکومت معزول ہوئی سیکرٹری خارجہ نے اپنے تاثرات سے صدر ٹرمپ کو آگاہ کیا۔صدر ٹرمپ نے کہا دونوں ہمارا لقمہ کھاتے ہیں۔ان کو بتاؤ کہ اگر دونوں ہمارا لقمہ کھاتے ہیں۔ان کو بتاؤ کہ اگر دونوں نے آپس میں اتفاق نہیں کیا تو ایک ارب ڈالر کے امداد میں کٹوتی کی جائیگی۔اورکابل حکومت کے ساتھ امریکی امداد میں مزید کمی ہوگی۔مختلف شعبوں میں کابل حکومت کو بے دست وپا کردیا جائے گا۔اندر کی خبر لانے والے کہتے ہیں کہ عبداللہ عبداللہ کے ساتھ مائیک پومپیو نے سخت جملوں کا تبادلہ کیا۔اُنہوں نے یہاں تک کہا کہ ملا برادر اور ملا ہیبت اللہ آگئے تو تمہارا نام ونشان نہیں رہے گا۔صدر اشرف غنی کے ساتھ ملاقات میں امریکی سیکرٹری خارجہ نے سفارتی زبان میں افغان صدر کو بتایا کہ افغان جنگجووں کے ساتھ قطر میں جو معاہدہ ہوا ہے۔اُس میں امریکہ فریق نہیں ہے۔زلمی خلیل زاد اور ملا برادر دونوں افغان ہیں۔اگر تمہاری حکومت مستحکم نہیں ہوگی توقطر کا معاہدہ کابل کے تخت کو بچانے کی ضمانت نہیں دے گا۔لیکن اشرف غنی اپنے موقف پر ڈٹے رہے کہ عبداللہ عبداللہ کے ساتھ ملکر دوسری بار حکومت کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔اس ہٹ دھرمی کی وجہ سے مائیک پومپیو مایوس ہوگئے۔ادھر وائٹ ہاؤس اور پینٹاگان میں بھی مایوسی کی گھنٹیاں بجائی گئیں۔کابل میں مقیم ہمارے دوستوں کا خیال ہے کہ مایوسی کی کوئی بات نہیں سب کچھ پہلے سے تیارشدہ منصوبے (سکریٹ) کے مطابق ہورہاہے افغان خانہ جنگی کایہ نیا منظرنامہ ہے۔ایک منظر نامہ وہ تھا جیب 1978ء میں ترقی پسند سیاسی کارکن امیر خیبر کو قتل کرکے اُس بہانے سے انقلاب کانعرہ لگایا گیا۔سردار داؤد کی حکومت کا تختہ اُلٹ دیا گیا۔ڈگر وال عبدالقادر نے اقتدار سنبھال لیا۔ایک ہفتہ کے اندر خلق پارٹی کے لیڈر نورمحمد ترہ کئی افغانستان کے صدر بن گئے۔پرچم پارٹی کو پیچھے دھکیل دیا گیا۔پرچم والے چین نواز انقلابی تھے۔یہ تبدیلیاں بالکل سکریٹ کے مطابق ہورہی تھیں۔اس کے بعد باگ ڈور امریکہ کے ہاتھوں میں آگئی آگے جوکچھ ہوا وہ تاریخ میں محفوظ ہے۔ریڈیو اور ٹیلی وژن خبروں کے شایقین نیزاخبارات کے قارئین کو یاد ہوگا کہ1994میں ملا بورجان نے قندہار سے اپنی تحریک کا آغاز کیا۔حکمتیار اوربرہان الدین ربانی نے راہ فرار اختیار کی کابل کے تخت پر ملاعمر کی حکومت قائم ہوئی جنہوں نے امیر المومنین کا لقب اختیار کیا تاریخ اس معاملے پر اب تک خاموش ہے کہ تخت کابل پر قبضے کے بعد ملابورجان کدھر گیا اور کابل کے سقوط کے وقت ملاعمر کہاں سے میدان میں آگیا؟تاریخ میں یہ بھی مذکور نہیں کہ ملابورجان اور ملاعمر سے ملاقات کرنے والا کوئی حکمران،کوئی افیسر یا کوئی صحافی اب تک سامنے کیوں آیا؟یہ تاریخ کا سربستہ راز ہے۔کسی کو بھی علم نہیں تاریخ ان سربستہ رازوں سے کب پردہ اُٹھائیگی۔
تھا ضبط بہت مشکل اس سیل معانی کا
کہہ ڈالے قلندر نے اسرار کتاب آخر
درحقیقت مائیک پومپیو کا دورہ کابل ناکام نہیں ہوا۔اس دورے کے نتیجے میں امریکی حکومت کو مایوسی بھی نہیں بلکہ تھوڑی سی مسرت ہوئی ہوگی کہ حالات ٹھیک جارہے ہیں۔اگر اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کے درمیان صلح ہوا تو امریکہ کو کیا ملے گا؟اگر افغان حکومت نے جنگجوؤں کے ساتھ مفاہمت کرلی تو افغانستان میں امریکہ کا کردار کیا ہوگا؟ظاہر دونوں سوالوں کا جواب صفر ہی ہے؟سیانے کہتے ہیں بنیئے کا بچہ کچھ دیکھ کرہی گرتا ہے۔اس انتشار اور طوائف املوکی میں بنیئے کا فائدہ ہے۔قطر کے دارالحکومت دوحہ میں دوافغان فریقوں کے درمیان مذاکرات اور امن معاہدے کا ڈرامہ ویسے نہیں رچایا گیا قطر میں جنگجوؤں کے دفتر کا بھاری بھرکم خرچہ ثواب کی نیت سے امریکہ نہیں دے رہا ہے اس کے پیچھے امریکی مفادات کی ڈوری ہے جو بہت لمبی ہے۔اصل بات یہ کہ مائیک پومپیو نے تخت کابل کے دونوں دعویداروں کی تھپکی دی ہے اور کہا ہے کہ ڈٹے رہو۔ادھر زلمے خلیل زاد کی وساطت سے ملابرادر اور ملاہیبت اللہ کو کہا جارہاہے کہ تمہاری حکومت امارت اسلامی افغانستان پکی ہے امریکہ کا قومی مفاد تینوں کی لڑائی میں ہے۔اور یہ تینوں لڑتے رہینگے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں