276

خودکشی حرام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تحریر:سیدنذیرحسین شاہ نذیر

خودکشی جرم بھی ہے صبر کی توہین بھی ہے
اس لیے عشق میں مر مر کے جیا جاتا ہے
عبرت صدیقی
خودکشی حرام ہے، لیکن خود کو موت کے حوالے کرنے والے زندگی کو نہ ہی نعمت تصور کرتے ہیں، نہ ہی انہیں حلال و حرام سے کوئی غرض ہوتی ہے۔ اپنے سماجی و نفسیاتی مسائل سے چھٹکارے کے لئے خواتین و مرد اور نو عمر جس تکلیف دہ راستے کا انتخاب کرتے ہیں۔اپنی زندگی کو اپنے ارادے اور اپنے ہاتھوں سے ختم کرلینا ایک بھیانک اور تکلیف دہ احساس ہے۔ لیکن انسان جینے کے ہاتھوں تنگ آکر کب ایسا کرلیتا ہے اور کون سے محرکات اْسے ایسا کرنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔
چترال کی روایتی دستور،خاندانی اُونچ نیچ، مہنگائی، بے روزگاری اور بے بسی کا احساس بڑھنے کی وجہ سے لوگوں میں جینے کی اْمنگ کم ہوتی جارہی ہے۔گزشتہ چند برسوں سے چترال میں خودکشی کے بڑھتے رحجان نے بہت سے سوالات کو جنم دیا ہے۔ دست یاب اعداد و شمار کے مطابق چترال میں روان سال خودکشیوں کی تعدادآب تک تقربیا44تک بتائی جاتی ہیں۔ خودکشی کرنے والے زیادہ تر افراد کی عمریں 30 برس سے کم ہوتی ہیں۔ ان میں سے مرد عموماً طلباء وطالبات،شادہ شدہ اورغیرشادی شدہ خواتین ہوتی ہیں۔دریامیں چھلانگ لگانا، پھندا لگالینا، بندوق کا استعمال یاخطرناک زہریلی اشیاء استعمال کرکے اپنے زندگی کاچراغ گل کردیتے ہیں۔ عام وجوہات میں گھریلو مسائل،امتحانات میں کم نمبر، خاندانی جھگڑے، نفسیاتی الجھن اور نفسیاتی مرض شامل ہیں۔
چترال میں خودکشی کے روک تھام اورایک صحت مند معاشرے کی تشکیل کیلئے ہر ایک شخص کو چائیے کہ وہ اپنے اردگرد، اپنے خاندان، احباب، پڑوسی اورآس پاس دیہات میں نظر رکھے کہ کوئی خود پر مایوسی کو طاری تو نہیں کررہا؟ اگر ایسا ہے تو آپ کی بھی ذمہ داری ہے کہ اْس شخص کی ذہنی کیفیت سمجھتے ہوئے اسے دلاسہ دیں، خوش گمانی اور اْمید کے سہارے اْس کو زندگی کی رعنایوں کی جانب متوجہ کیجئے، اور ساتھ ہی حکومت کو چاہئیے کہ وہ خود کشیوں کے بڑھتے ہوئے رحجان کے تدارک کیلئے سرکاری سطح پر ایسے سمینار اور کانفرنسسز منعقد کرائے جن میں مناسب کاؤنسلنگ کے ذریعے مایوسی اور شدت پسندی جیسی ذہنی کیفیات کا حل پیش کیا جائے۔ اِس حوالے سے مختلف این جی اوز اور طبی ادارے بھی مشترکہ کاوشوں سے موثر کردار ادا کرسکتے ہیں۔ کیونکہ خود کشی جیسا انتہائی قدم نہ صرف قانونی اور مذہبی نقطہ نظر سے جرم ہے بلکہ ایسے واقعات کا تسلسل انسانوں کے مہذب معاشرے پر بھی سوالیہ نشان ہے۔

نہ توزمین کے لئے ہے نہ آسمان کے لئے
جہاں ہے تیرے لئے تونہیں جہاں کے لئے
علامہ اقبال
یکم ستمبرسے 26دسمبرتک ہونے والے 4خودکشیوں کی تفصیل کچھ یوں ہیں۔
2ستمبر2018کوچترال میں خود کشی کا ایک واقعہ پیش آیا جس میں ایک شادی شدہ جوان نے دریا میں چھلانگ لگا کرزندگی کا خاتمہ کردیا چترال پولیس کے مطابق خو دکشی کے واقعے میں یارخون لشٹ کی رہائشی چالیس سالہ جوان صدر الدین ولد گلاب خان گزشتہ دو دنوں سے لاپتہ تھا جس کی لاش کو اتوار کے روز یارخون وادی کے میراگرام نمبر دو گاؤں کے قریب دریا سے برامد کیا گیا۔وہ دوبچوں کا باپ بتایا جاتا ہے اور کافی عرصے سے بے روزگار تھا
5ستمبر2018کوچترال سے 43کلومیٹر دور گرم چشمہ کے نواحی گاؤں بشقیر میں سکول ٹیچر نے اپنے گلے میں رسی کا پھندا ڈال کر خودکشی کرلی۔ پولیس اسٹیشن گرم چشمہ کے ایک اہلکار نے خودکشی کرنے والے کا نام محمد قاسم ولد ثمر خان بتایاکہ گورنمنٹ پرائمری سکول بشقیر کے ہیڈ ٹیچر تھے اور تین بچوں کا باپ تھا جبکہ ان کی عمر 56سال تھی۔ پولیس نے بتایاکہ خودکشی کی فوری وجہ معلوم نہ ہوسکی اور لاش کی ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز ہسپتال میں پوسٹ مارٹم کے بعد ضابطہ فوجداری کے دفعہ 174کے تحت انکوائری شروع کردی جائے گی۔ تین دنوں کے اندر خودکشی کا دوسرا واقعہ ہے۔
9ستمبر2018کو چترال سے 100کلومیٹر انتہائی شمال میں واقع گاؤں ریچ میں ایک شادی شدہ خاتون نے دریا میں چھلانگ لگاکر زندگی کا خاتمہ کردیا۔ پولیس اسٹیشن تورکھو کے ایس ایچ او شیر نواز بیگ نے بتایاکہ سکینہ بی بی دختر شیر بیرش خان کی شادی تین سال قبل زار احمد خان سے ہوئی تھی جس کے ایک ماہ بعد وہ سعودی عرب جانے کے بعد گزشتہ مئی کو واپس آئے تھے۔ انہوں نے مزید بتایاکہ سکینہ کی عمر 17سال کی لگ بھگ تھی اوردونوں کانوں سے بہری تھی اور ان کا سسروالوں سے معمولی نوعیت کا لڑائی جھگڑا رہتا تھا کیونکہ کوئی بھی آپس میں بات کرتے تو ان کو شک پڑجاتی تھی۔ گزشتہ رات وہ گھر سے غائب ہوئی تو ان کی تلاش شروع ہوئی اور ان کے موبائل ٹیلی فون سیٹ اور دوسرے سامان دریا کے کنارے پر پتھر کے اوپر رکھے ہوئے ملے اور صبح ہونے پر ان کی لاش کی تلاش جاری ہے مگر تاحال کامیابی نہیں ہوئی ہے۔ ایس ایچ او کا کہنا تھاکہ تلاش کے کام میں پولیس کے جوان بھی گاؤں کے باشندوں کی مدد کررہے ہیں۔ پولیس نے ضابطہ فوجداری کے دفعہ 156کے تحت مقدمہ درج کرکے انکوائر ی کا آعاز کردیا ہے۔
19ستمبر 2018کوچترال شہر کے نواحی گاؤں کاری بالا میں ایک طلاق یافتہ خاتون نے زہر کھاکر خودکشی کرلی۔ چترال پولیس کے مطابق پرواز 23سالہ بی بی دختر قدیر خان نے گزشتہ رات کے پچھلے پہر اپنے گھر میں زہر کھاکر موقع پر ہی جان بحق ہوگئی جسے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز ہسپتال میں پوسٹ مارٹم کے بعد دفنادیا گیا ہے جبکہ خودکشی کی ابتدائی وجہ گھریلو تنازعہ بتایا جاتا ہے۔ گاؤں والوں کے مطابق پرواز بی بی کی پنجاب کی کسی گاؤں میں شادی ہوئی تھی لیکن انہوں نے بعدازاں طلاق لے کر واپس آگئی تھی اور ان کے ساتھ بیٹا بھی تھا جس کی عمر ابھی چھ سال کے لگ بھگ ہے۔
ہوتی ہے تیرے نام سے وحشت کبھی کبھی
برہم ہوتی ہے یون بھی طبیعت کبھی کبھی
ناصرکاظمی
چترال کے عوامی حلقوں کے مطابق بغیر تحقیق کے چترال سے باہر لڑکیوں کی شادی نہ صرف ناکامی سے دوچار ہوتے ہیں بلکہ ان کی اکثریت کا انجام بھی خودکشی پر ہوتی ہے اور ایسی شادیاں بعض پیشہ ور دلال کراتے ہیں۔ مردوں کے نسبت خواتین کمزورہوتی ہے
یہ درست ہے کہ خودکشی کے بڑھتے ہوئے رحجان پر قابو پانے کے لیے کئی طریقوں سے کام کرنے کی ضرورت ہے اور یہ تنہا حکومت کے بس کی بات نہیں ہے۔ اس مقصدکے لئے ہم سب کو مل جل کر کام کرنا ہوگا۔ ہمیں بھی اس طرح قدم بہ قدم آگے بڑھنا ہوگا اور امداد باہمی کے ادارے قائم کرنا ہوں گے۔ اس کے علاوہ معاشرے کے ہر فرد کو دوسروں کے لئے اپنے دل میں گنجائش پیدا کرنا ہوگی اور ایک دوسرے کی مدد کرنے اور اختلافات کو برداشت کرنے کا جذبہ پیدا کرنا ہوگا۔
کہہ دویہ کوہ کن سے کہ مرنانہیں کمال
مرمرکے ہجریارمیں جیناکمال ہے
جلیل مانکپوری

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں