410

فاتح یا نیم فاتح۔۔۔۔ تحریر:تقدیرہ خان

فاتح یا نیم فاتح جسے انگریزی میں “Complete victory” یا Partial victoryکہتے ہیں اگر چہ Self explanatoryہے مگر اپنی نوعیت کے لحاظ سے اختلاف رائے کی گنجائش بھی موجود ہے۔ اگر ہم کسی ایک جنگ یا جنگی معرکے کو مکمل فتح قرار دیتے ہیں اور دلائل سے ثابت کرتے ہیں کہ اس میں مکمل فتح سے منسلک نتائج موجود ہیں تو دوسرے فریق کو بھی حق ہے کہ وہ اسے نیم فتح کہنے کے حق میں دلائل کا سہارا لے۔ فتح یا نیم فتح کو مکمل شکست کہناگرچہ کوئی گناہ نہیں اور نہ ہی اس پر کوئی پابندی عائد ہے مگر محض تسکین قلب اور دوسرے کی بات کو سر دست رد کرنے کے لئے ایسا کہنا بے وزن اور ایک حد تک علم کی کمی کا باعث ہے۔ فاتح، نیم فاتح یا شکست کی طرح مشاہداتی علم، معلوماتی علم اور کتابی علم میں بھی فرق ہے۔ وہ لوگ جو میدان جنگ میں ہوتے ہیں ان کا علم مشاہداتی ہوتا ہے۔وہ خود لڑتے ہیں یا لڑائیوں کا آنکھوں دیکھا حال بیان کرتے ہیں۔ وہ لوگ جو جنگوں یا جنگی معرکوں میں تو حصہ نہیں لیتے مگر وہ جنگ زدہ علاقوں کا مشاہدہ کرتے ہیں، متاثرین سے ملتے ہیں، جنگ سے پہلے اور بعد کے حالات کی معلومات اکٹھی کرتے ہیں اور جنگ کے اثرات سے ہونے والی معاشرتی، سیاسی اور ثقافتی تبدیلیوں کا جائزہ لے کر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں۔ تیسرا درجہ ان علمأ کا ہے جن کے پاس کتابی علم ہوتا ہے یا پھر وہ مختلف حوالوں سے معلومات اکٹھی کرکے ان پر تبصرہ کرتے ہیں۔ میری رائے میں سب سے معتبر میدان جنگ کا سپاہی اور افسر ہے۔ دوسرے نمبر پر وہ شخص ہے جو زمینی مشاہدے اور متاثرین جنگ سے مل کر اپنی رائے کا اظہار کرتا ہے اور تیسرے نمبر پر وہ شخص ہے جو کتابی علم رکھتا ہے اور مختلف مصنفین اور ماہرین کے رائے پر ایک نتیجہ اخذ کرتا ہے۔
امریکہ نے ویتنام کے بعد افغانستان میں طویل جنگ لڑی جو کوریا، ویتنام، عراق، شام اور دیگر امریکہ جنگوں اور جنگی کاروائیوں سے مختلف تھی۔افغانستان سے روسی انخلأ کے بعد طویل عرصہ تک افغانستان خانہ جنگی کا شکار رہا۔ روسیوں کے بعد ڈاکٹر نجیب اللہ کی سوشلسٹ حکومت آئی جسے روس کے علاوہ بھارت اور سارے سوشلسٹ بلاک کی حمائت حاصل تھی۔ وارسا پیکٹ کے خاتمے اور سویت یونین کے اختتام پر کولڈ وار کا خاتمہ ہوا تو دنیا کا سیاسی اور معاشی ماحول بھی بدل گیا۔
ڈاکٹر نجیب اللہ کے بعد آٹھ جماعتی افغان اتحاد کے درمیان مکہ اکارڈ ہوا جس کی شرائط کے مطابق جناب نبی محمدی پہلے افغان صدر بنے جن کی سبکدوشی کے بعد جناب پروفیسر برہان الدین ربانی نے عہدہ صدارت سنبھالا مگر اپنی ٹرم مکمل ہونے کے بعد عہدہ چھوڑنے سے انکار کردیا۔ پروفیسر ربانی کا تعلق ازبک قبیلے سے تھا جس کا سردار احمد شاہ مسعود تھا۔ افغان تاریخ میں سوائے پختونوں کے کبھی ازبک، تاجک، ترکمان یا ہزارہ صدر یا بادشاہ نہیں رہا۔ ببرک کارمل روسیوں کا مسلط کردہ تھا جبکہ اصل اقتدار روسی جرنیلوں کے ہاتھ تھا۔ پروفیسر ربانی کو ایک ٹرم کے لئے تو برداشت کر لیا گیا مگر اقتدار سے الگ ہونے کے انکار پر ملک عملاً دو حصوں میں تقسیم ہوگیا۔ شمالی اتحاد نے روس، بھارت اور دیگر کی مدد سے الگ حکومت قائم کرلی اور قندہار سے اٹھنے والی طالبان قیادت نے کابل کے شمال اور شمال مشرق و مغرب کے نوے فیصد علاقوں پر قبضہ کر لیا۔
پاکستان، سعودی عرب اور کچھ عرب ریاستوں نے طالبان کی حکومت کو تسلیم کر لیا مگر دیگر دنیا خاص کر مغربی ممالک اور امریکہ نے طالبان کو قبول نہ کیا۔
9/11کے واقع کی آڑ میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے شمالی اتحاد اور دیگر افغان گروپوں اور وارلارڈز کی مدد سے طالبان کا اقتدار کابل اور دیگر بڑے شہروں سے تو ختم کردیا مگر دیہاتوں، پہاڑی اور صحرائی علاقوں پر طالبان کا اقتدار قائم رہا۔
ہم کہہ سکتے ہیں کہ سوائے روس، چین اور شمالی کوریا کے ساری دنیا امریکہ اتحاد میں شامل تھی اور کسی نہ کسی صورت میں ہر ملک کا فوجی دستہ،خفیہ ایجنسی یا کوئی مبصر گروپ افغانستان میں موجود تھا۔ چھوٹے شہروں اور قصبوں میں تعینات دستوں نے جلد ہی احساس کر لیا کہ طالبان سے اچھے تعلقات قائم کیے بغیر وہ ان علاقوں میں حفاظت سے نہیں رہ سکتے۔ دیہی علاقوں میں تعینات فوجی دستوں نے طالبان سے خاموش مفاہمت کر لی اور انہیں ماہانہ معقول رقم کے علاوہ راشن، طبی سہولیات اور دیگر مراعات سے بھی نوازنے لگے۔
جہاں تک جنگی اخراجات کا تعلق ہے تو اس کے دوذریعے تھے۔ امریکی اتحادی اپنے خرچے پر نیم دلانہ کاروائیوں میں مصروف تھے۔ وہ بیک وقت امریکہ کے اتحادی اور طالبان کے دوست تھے۔ اس کے علاوہ امریکہ نے سعودی عرب، عرب امارات اور یورپی یونین پر جنگی ٹیکس لگا رکھا تھا۔ آسٹریلیا، کینڈا، نیوزی لینڈ اور جاپان بھی ایک معقول رقم امریکی اکاؤنٹ میں ڈالتے تھے۔ ہیروئن اور دیگر منشیات کا دھندا بھی عروج پر تھا اور انٹیلی جنس ایجنسیاں اربوں ڈالر کما رہی تھیں۔
جہاں تک مکمل فتح، عارضی یانیم فتح یا شکست کا تعلق ہے تو آج کے دور میں کوئی بھی بات حتمی نہیں۔ امریکہ اقوام متحدہ کی منظوری سے ساری دنیا کی مدد لے کر افغانستان آیا مگر اپنا پہلا ہدف طالبان خاتمہ نہ کر سکا۔ امریکہ کا دوسرا ہدف القائدہ اور اسامہ بن لادن کا خاتمہ تھا۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ امریکہ کو اس میں کچھ کامیابیاں حاصل ہوئیں۔ اسامہ بن لادن کے علاوہ کچھ طالبان لیڈروں کا تو خاتمہ ہوا مگر القائدہ احمد الزواری کی قیادت میں زیرزمین چلی گئی۔ القائدہ کی جگہ داعش آگئی جو تا حال افغانستان سمیت کئی ملکوں میں موجود ہے۔ عرب بہار اور عراق پر داعش کے قبضے نے امریکہ سمیت ساری دنیا کا سیاسی، اقتصادی اور معاشی نقشہ بدل دیا۔ ترکی، روس اور چین کے عروج اور عربوں کی بدحالی نے امریکہ اتحاد کمزور کردیا۔ امریکہ نے عربوں کی بیخ کنی کے لئے اسرائیل کو استعمال کیا اور اسی تجربے کو دہراتے ہوئے بھارت کو چین کے خلاف میدان میں لایا۔ امریکہ کا یہ تجربہ ناکامی کی طرف جھکا تو امریکہ نے ثالث کا روپ دھار لیا جسے چین نے ٹھکرادیا۔
امریکہ نے افغانستان میں رہتے ہوئے جو اہداف حاصل کیے وہ نیم فاتح کے زمرے میں آتے ہیں۔ ان اہداف کے علاوہ امریکہ نے بھارت کو مضبوط کیا اور وسطی ایشیائی ریاستوں میں بھی قدم جمالیے۔ تائی پی گیس منصوبے کے علاوہ کرغزستان، ترکمانستان اورقازقستان میں امریکی کمپنیوں کو اربوں ڈالر کے ٹھیکے دلوانے کا کام امریکہ نے افغانستان میں رہتے ہوئے کیا۔ حالیہ امریکہ طالبان مذاکرات کی اہم کامیابی امریکہ کو ایک مدت تک بگرام، قندہار اور ہرات میں ملٹری بیس قائم رکھنے کی اجازت اور وسطی ایشیائی ریاستوں میں امریکی تجارتی مفادات کا یقینی تحفظ شامل ہے۔ ایران اور خلیجی ریاستوں کے حوالے سے بھی امریکہ نے طالبان سے کچھ گارنٹیاں لی ہیں جن کا ذکر معاہدے میں نہیں۔ زمینی حقائق کا کھلے دل سے جائزہ لیا جائے تو امریکہ کئی حوالوں سے نیم فاتح ہے اور خطے میں اپنے اثرورسوخ کی گہری جڑیں پھیلا کر باعزت واپسی چاہتا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں