582

وادی کیلاش کے دامن میں۔……تحریر۔حماد گیلانی

کالم لوگو۔ حرف تمام
ہم جمعہ کے دن 1 بجے اسلام آباد سے نکلے تھے۔13 گھنٹے کی مسلسل ڈرائیو کے بعد رات گئے چترال وارد ہوئے۔
راستے میں درجن بھر پولیس، ایف سی اور لیوی کی چیک پوسٹوں پر انٹریاں کروانی پڑیں۔ مردان سے ذرا آگے ایف سی اہلکار کے پی کے سے باہر والوں کو واپس بھیج رہے تھے مگر ایک نہایت ہی مہربان اہلکار نے متبادل راستے کی رہنمائی کر کے آگے جانے کا موقع فراہم کیا۔اپر دیر سے سڑک کی تعمیر کا کام شروع ہے جس وجہ سے ٹریفک کی روانی شدید متاثر ہوتی ہے اور یہ سلسلہ تقریباً چترال سے 15 کلو میٹر پہلے تک چلتا ہے۔وادی چترال میں ہر سو فطرت کے حسین مناظر بکھرے ہوئے ہیں۔ چاروں طرف سے پہاڑوں میں گھڑی یہ وادی 321قبل از مسیح کی یونانی تہذیب سے جڑی ہوئی ہے۔
چترال کے شمال میں تقریبا 30کلومیٹر کے فاصلے پر کیلاش کی وادی ہے جو تین دل فریب وادیوں کا مجموعہ ہے۔یہاں کی خواتین لمبے سیاہ چوغے اور پوشاکیں پہنتی اور سروں پر ٹوپیاں لگاتی ہیں، جو سیپیوں اور موتیوں سے بنی ہوتی ہیں۔
چترال سے کیلاش ویلی جانے کے لیے علی الصبح سفر کا ارادہ کیا۔چوں کہ اس سے پہلے رات اسلام آباد سے چترال تک کے سفر کے بعد نیند کے لیے چند گھنٹے ہی دستیاب آئے تھے، جس وجہ سے تھکاوٹ کے آثار نمایاں تھے۔اسکے باوجود رخت سفر باندھا اور چل دیے۔
چترال دیر شاہراہ سے کیلاش وادی کی جانب جانے والی سڑک پر مڑے تو پولیس ناکے پر روک لیا گیا، حکم ہوا کہ جب تک ڈی سی چترال یا اے سی سے اجازت نامہ نہیں بنوا کر لاتے آپ آگے نہیں جا سکتے۔
پولیس کے معاملے میں روایتی ہتھکنڈوں کے باجود جب کوئی سبیل نِظر نہ آئی تو ایک اہلکار نے کسی ڈرائیور کا نمبر دیتے ہوئے معنی خیز جملے ادا کیے جس سے مایوسی کے لمحات اچانک خوشی میں بدل گئے، پولیس اہلکار بولا ”آپ مہمان ہیں، بس یہ نمبر لیں، گاڑی والے کو بتائیں وہ سب معاملات حل کر دے گا”.
آیون بازاد پپنچ کر ڈرائیور سے ملاقات ہوئی اور آگے کا سفر اس کی ایک پرانا ماڈل پچارو میں طے کرنے کا پلان بنا۔
اپنی گاڑی وہیں پارک کی اور حیدر استاد کے ساتھ پر خطر پہاڑی سلسلہ میں کچی سڑک پر روانہ ہوئے۔ اس سڑک پر بھی حیدر کا ڈرائیونگ سٹائل موٹر وے سے کم نہیں تھا۔بر حال چند کلو میٹر کے بعد قائم لیوی چیک پوسٹ تک پہنچ گئے، جہاں ڈرائیور کے ذاتی مراسم کام آئے اور کیلاش ویلی تک کے سفر کا پروانہ جاری ہوا۔
پچکولے کھاتی گاڑی، رومانوی نغموں اور ایڈونچر سے بھر پور سڑک نے سفر کا مزہ دوبالا کر دیا۔
سڑک کے ساتھ ساتھ بہتی صاف اور نیلے پانی کہ نہر میں عجیب تازگی کا احساس تھا، نظر اوپر اٹھتی تو سنہری پہاڑوں کے ایک طویل سلسلہ دعوت نظارہ دینے لگتا، کہیں پہاڑ برف سے ڈھکے پڑے تھے۔
سڑک کی ناگفتہ حالت کا ذمہ دار کون ہے، اس کا جواب فی الحال نہیں مل سکا مگر شاید کیلاش ویلی کا جانب جاتی سڑک پختہ ہو جائے تو سیاحوں کی ایک بڑی تعداد وہاں کا رخ کر سکتی ہے۔
گزشتہ برس تقریباً 6 لاکھ گاڑیاں کیلاش وادی میں داخل ہوئیں تھیں، تو اس کا مطلب سڑک مناسب ہو تو یہ تعداد کئی گنا زیادہ بھی ہو سکتی ہے۔
کیلاش وادی میں داخل ہوئے تو ایک نئی دنیا کا احساس ہوا۔ایک مقامی ریسٹورنٹ پر چائے پی اور گاؤں کی سیر کو نکل پڑے۔خوبصورت نیلی آنکھوں والے لوگ اور پر کشش ملبوسات کی بہار نے تھکاوٹ کے احساس کو کم کر دیا۔یہ علاقہ اور یہاں کے لوگ جدید ترقی یافتہ دور کی آسائشوں سے آج بھی ناآشنا ہیں لیکن اپنی روایات کے مطابق انتہائی خوش و خرم زندگی گزار رہے ہیں۔ ان لوگوں کی آمدنی کاشت کاری اور سیاحوں کی آمدپر منحصر ہوتی ہے۔ یہاں ہر طرف اخروٹ، سیب، ناشپاتی، انگور، آلو بخارا، شہتوت اور انجیر کے باغات ہیں۔ یہاں دریاو?ں میں شکار کے لیے ٹراو?ٹ مچھلی بھی ہے۔
کیلاش لوگ لوگ مہمان نواز ہیں، جہاں سے گزریں ”شپاتا” (کیلاشیوں کا سلام) سے استقبال کیا جا رہا ہوتا ہے۔ روایتی ملبوسات کی چھوٹی چھوٹی دکانوں پر خواتین سلیقہ مندی سے اشیاء کی تشہیر کر رہی ہوتی ہیں۔ان کے گھروں کو دیکھنے جائیں یا قدیم تہذیب سے جڑی ثقافت پر بات کریں، وہ خوبصورت انداز اور مہذب لہجے میں گفتگو کرتے ہیں۔
کیلاش کمیونٹی کی پر اسرار، منفرد اور دلچسپ ثقافت کا محور کیا ہے، اس بارے میں مختلف آراء ہیں۔البتہ وہ لوگ خدا پر یقین تو رکھتے ہیں مگر باقی کسی الہامی کتاب یا نبی کو نہیں مانتے۔ان کے مذہب میں انسان کی زندگی کا ہر واقعہ خوشی کا سبب ہی ہے یہی وجہ ہے کہ وہ لوگ جنازے پر بھی رقص کرتے اور دعوتیں اڑاتے ہیں۔
سیاحوں کی نظریں اس علاقے کی خوبصورتی اور لوگوں کا حُسن دیکھ کر تو واپس لوٹ جاتی ہیں، مگر وہ مقامی لوگوں کی فکروں، درد و جذبات سے بے نیاز رہتے ہیں۔ ہمارے مختصرسفر میں جہاں ہم نے وادء کیلاش کی خوبصورتی کو سمیٹا وہیں ہمیں وہاں کے باسیوں کی فکریں اور جذبات کو قریب سے دیکھنے اور محسوس کرنے کا موقع میسر آیا۔
کیلاش کمیونٹی کے لیے ایک بات جو باعث تشویش ہے وہ سیاحوں کا رویہ ہے، ایک مقامی ہوٹل کے مالک کا کہنا تھا کہ یہاں آنے والے سیاحوں کی اکثریت کا پہلا سوال یہی ہوتا ہے کہ لڑکی کہاں سے ملے گی۔کیلاش کمیونٹی کے افراد اس رویے کی شکایت کرتے نظر آتے ہیں۔
کیلاش قبیلے کی آبادی 4 ہزار 200 نفوس پر مشتمل ہے۔ اس قبیلے کے لوگ کیلاش کی تینوں وادیوں میں مقیم ہیں، لیکن ان کی اکثریت بمبورت میں رہتی ہے۔ کیلاش کا مطلب ہے ’کالے کپڑے پہننے والے‘، اس نام کی وجہ مقامی لباس کو دیکھنے پر معلوم ہوجاتی ہے۔ یہاں کی خواتین سیاہ لمبے فراک نما کُرتے پہنتی ہیں۔
کیلاش کی وادی بمبوریت کی ایک عمارت کے گیٹ پر بہت سی لڑکیاں آپس میں گپ شپ کرتی نظر آئیں۔ یہ وہاں موجود گھروں اور ہوٹلوں سے کچھ مختلف عمارت لگی جس کی پیشانی پر ایک سیاہ تختی پہ لکھا تھا ’خبردار! بشالی کی حدود ممنوعہ علاقہ ہے۔‘ پوچھنے پر معلون ہوا کہ کیلاش قبیلہ اپنے گاؤں کو ’اونجسٹہ‘ کہتا ہے یعنی پاک جگہ اور بشالی ’پرگاتہ‘ یعنی ناپاکی کی حالت میں عورتوں اور لڑکیوں کو یہاں آنا پڑتا ہے۔
جب ہم بمبورت قصبے کے درمیان گزرتے دریا پر بنے ہوئے لکڑی کے پُل کو عبور کرکے ان کے قدیم قبرستان میں داخل ہوئے تو ایک وہشت سے بھر پور منظر سامنے تھا۔ قبرستان میں ایک طرف ڈبوں میں ہڈیاں پڑی ہوئی نظر آرہی تھیں جبکہ دوسری طرف کچھ ایسی بھی قبریں نظر آئیں جن کے اوپر چارپائی اُلٹی پڑی ہوئی تھیں۔یہ لوگ پہلے پہل اپنے مردوں کو دفن کرنے کے بجائے لکڑی کے ڈبے میں ان کی ذاتی اشیاء کے ساتھ اس جگہ پر چھوڑ دیتے تھے۔ بعد ازاں مختلف وجوہات کی بنا پر مقامی لوگوں نے مردوں کو دفنانا شروع کردیا۔
قبرستان میں مقامی قبروں میں ایک قبر ایک ہسپانوی انگریز ’جورڈی میگنر‘ کی بھی ہے،مقامی افراد کا کہنا تھا کہ یہ انگریزکیلاش ثقافت کا اسیر تھا۔اس نے وصیت کی تھی کہ اسے بعد از موت کیلاش کمیونٹی کے طریقہ کار کے مطابق دفن کیا جائے۔2002ء میں اسے قتل کر دیا گیاتھا۔
یہاں موت سوگ کے بجائے خوشی کا موقع ہوتا ہے۔ مرنے والی کی لاش کمیونٹی ہال میں رکھی جاتی ہے اور مہمانوں کے لیے بکرے ذبح کئے جاتے ہیں۔۔ ان کے عقیدے کے مطابق مرنے والے کو اس دنیا سے خوشی خوشی روانہ کیا جانا چاہیے۔
ہم گاؤں میں موجود ایک بڑے میدان میں گھنٹہ بھر تصاویر اتارتے رہے۔۔ ڈرائیور حیدر کے مطابق یہاں مذہبی رسومات سے لے کر سالانہ 3 مشہور تہوار منائے جاتے ہیں، جن میں شامل پہلا تہوار چلم جوشی 13 مئی سے 17 مئی تک، دوسرا ’اوچاو‘ نامی تہوار 21 سے 23 اگست جبکہ تیسرا ’چاو مس‘ نامی تہوار 9 دسمبر سے 23 دسمبر تک منایا جاتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ کیلاش پہنچنے کا راستہ انتہائی کٹھن اور مشکل تھا۔ لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ برف پوش پہاڑیاں، دریا، قدرتی مناظر، قدیم ثقافت،کیلاشیوں کی خوبصورتی اور ان کی مہمان نوازی تھنک کا احساس کم کر دیتی ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں