317

قومی غیرت کہاں ہے۔۔۔؟۔۔۔تحریر:تقدیرہ خان

آخری کمانڈر انچیف جنرل گل حسن کی یاداشتوں میں لکھا ہے کہ بمبئی سے روانگی سے قبل قائداعظم اپنی زوجہ مرحومہ کی قبر پر گئے تو سوائے ڈرائیور آزاد کے اور کوئی ساتھ نہ تھا۔ منٹو نے آزاد کے حوالے سے لکھا کہ وہ کچھ دیر وہاں کھڑے رہے اور پھر کافی دیر تک قبرکے سرہانے خاموش بیٹھے رہے۔ اُٹھ کر گاڑی میں بیٹھے اور خاموشی سے گھر آگئے۔ لکھتے ہیں کہ بحیثیت گورنر جنرل آف پاکستان کراچی پہنچے تو آپ کا طیارہ لینڈ کرنے کے بجائے دیر تک فضا میں گھومتا رہا۔ قائداعظم نے گھڑی دیکھی اور مجھے بلا کر پوچھا کہ طیارہ لینڈ کیوں نہیں کر رہا۔ میں نے پائلٹ سے دریافت کیا تو پتہ چلا کہ ماڑی پور کے ہوائی اڈے پر انسانی سمندر اُبل پڑا ہے۔ لوگ پولیس کے کنٹرول سے باہر ہیں اور رن وے پر چڑھ آئے ہیں۔ پائلٹ نے کہا کہ جناب آپ کی قوم آپ کے استقبال کے لیے جمع ہوئی ہے۔ قائداعظم نے فرمایا یہ قوم نہیں بلکہ کر اؤڈ ہے جسے ڈسپلن سکھانا اور قوم میں بدلنا ابھی باقی ہے۔
دیکھا جائے تو ہم آج بھی کوئی قوم نہیں بلکہ کراؤڈ ہی ہیں اور ہر لحاظ سے بے عقل اور بے شعور ہیں۔ مافیا کے تنخواہ دار دانشور، صحافی، شاعر او رادیب جس قومی شعور اور اجتماعی سوچ وفکر کی بات کرتے ہیں اُس کا وجود عملی نہیں بلکہ خیالی ہے۔ بحیثیت کراؤڈ ہم نے جو بھی فیصلے کئے وہ سب غلط ہی نہیں بلکہ بڑی حد تک تباہ کن اور ھلاکت خیزکیے۔ اعتراز احسن اور دیگر کی سوچ و فکر لاڑکانہ سے بلاول ہاؤس لاہور آکر ختم ہو جاتی ہے۔ اسی طرح نون لیگی دانشوروں کے خون کے خلیوں میں میاں شریف کے لفافوں میں شامل جرثومے گھر کر چکے ہیں جس کی وجہ سے اُن کے پلیٹ لیٹس ناہموار، بے قائدہ اور بڑی حدتک بے فائدہ ہوچکے ہیں۔ سہیل وارئچ، حامد میر سمیت نودانشوروں کے ٹولے کی سوچ کا محور مریم کی محرومیاں اور خواہشات کی تشریح ہی ملک، قوم اور اُن کے اختراعی عقیدے کی خدمت ہے۔ یہ ٹولہ اور ان کے ہمنوا ملک اور فوج دشمنی میں اسقدر حواس باختہ ہیں کہ بھارتیوں سے پہلے ہی بھار ت کے ترجمان بن جاتے ہیں۔ سوچنے کی بات ہے کہ یہ سب کچھ ایک ایسے ملک میں ہو رہا ہے جہاں غیرت کے نام پر قتل ہوتے ہیں۔
نچلی ذات اور اہل حرفہ کو کوئی سید، راجپوت، اعوان، پختون جاٹ اور مارشل ریس سے تعلق رکھنے والا کسان، مزدور، ہاری، مفلس اور بے گھر رشتہ نہیں دیتا چاہے وہ اعلیٰ سے اعلیٰ عہدے پر فائز ہو یا دولت کے انبار پر بیٹھا ہو۔ کہتے ہیں کہ 1947کی ہجرت کے دوران ایک لڑکا اپنے مالک کے ساتھ اُسکا سامان اٹھائے کسی طرح لاہور پہنچ گیا۔ مالک کی بیوی راستے میں چل بسی اور مالک والٹن کے مہاجر کیمپ سے سفر آخر پر چل دیا۔ مرنے سے پہلے مالک نے نوکر کو کہا کہ میرے سامان میں بہت سا روپیہ اور سونا ہے۔ میں سیّد زادہ ہوں اور یہ سب حلال کی کمائی ہے۔ اس مال میں سے کچھ غریب مہاجرین کی خدمت کرنا اور باقی تمہاری خدمت کا صلہ ہے۔
لڑکا جوان تھا۔ مال ملاتوطورو اطوار بدل گئے۔ شاہ صاحب کی زمینوں کے کاغذات لیکرکئی مربع زمین الاٹ کروائی اور ایک آستانہ بنا کر بیٹھ گیا۔ شادی کی اور ایک بیٹی کا باپ بن گیا۔ صاحبزادہ صاحب کی اس کے علاوہ کوئی اولاد نہ ہوئی تو ایک بے سہارا بچہ پال لیا۔ بیٹی اور بالکا دونوں جوان ہوگئے اور پھر وہ وقت قریب آ گیا جب شاہ وگدا سطح زمین سے زیر زمین منتقل ہو جاتے ہیں۔
شاہ صاحب نے بالکے کو گدی سونپ دی اور اسے بھی اپنی طرح شہزادہ بنا دیا۔ مرض بڑھتا گیا اور موت کا لمحہ قریب آگیا۔ شاہ صاحب نے اپنے گدی نشین سے درخواست کی کہ وہ اُن کی بیٹی سے شادی کر لے تاکہ روحانی سلسلہ چلتا رہے۔ بالکے نے عرض کی کہ حضور میں ذات کا میراثی ہوں آپ سیّد ہیں میں سیّدزادی سے شادی نہیں کر سکتا۔ شاہ جی نے کہا، بیٹا میری اور تیری ایک ہی ذات ہے مجھے سیّد نے پالا تو سیّد بن گیا میں نے تجھے پالا اور سیّد زادہ ہوگیا۔
سر لیپل گریفن اور ہماے کچھ ادیبوں نے ایسے سینکڑوں اعلیٰ خاندانوں کے شجرے، گوتیں اور ذاتیں لکھی ہیں جو مارشل ریس تو نہ بن سکے مگر اپنی اپنی فیلڈ کے فیلڈمارشل بن کر ملک اور معاشرے کو شرو فساد کا گڑھ بنا دیا۔ میرے ایک دوست کو پرندے پالنے کا شوق تھا۔ وہ جہاں جاتا وہاں پرندوں کی مارکیٹ کا چکر ضرور لگا تا۔ ایک باروہ کوئٹہ کی پرندہ مارکیٹ میں گیا جہاں اسے ایک طوطا نما پرندہ پسند آگیا۔ کوئی بیس سال پہلے اس پرندے کی قیمت سات ہزارروپے تھی۔ میرا دوست تریالے خان دکاندار سے بحث کرنے کے بعد پرندہ پانچ ہزارروپے میں خریدنے میں کامیاب ہو گیا۔ پوچھا اس طوطا نما چیز کی خوبی کیا ہے؟ کہنے لگا یہ گوشت خور ہے اور جلد انسانوں سے مانوس ہو جاتا ہے۔ آواز دیکر بلاتا ہے اور جلدی باتیں کرنے لگتا ہے۔ دو تین ماہ کے بعد آزاد بھی کردو تو بلی اور کبوتر کی طرح واپس گھر آجاتا ہے۔
کچھ عرصہ بعد خان سے ملاقات ہوئی تو میں نے پرندے کا پوچھا کہنے لگا اُس پرندے نے میری زندگی اجیرن کر دی تھی۔ وہ فارسی اور پشتو کے علاوہ ہند کو بھی سیکھ گیا تھا۔ پہلے وہ کسی قندہاری کے پاس تھا۔ وہ لوگ فارسی بولتے تھے اسے اُس کے گھر کے سارے راز ازبر تھے۔ وہ جب بھی عورتوں کو دیکھتا قندہاری کے گھر کی خواتین کے راز افشاں کر تا۔ کوئٹہ کسی پختون کے گھر رہا جو منشیات کا سمگلر تھا۔وہ عورتوں اور بھکاریوں کے ذریعے منشیات کا دھندہ کرتا تھا۔ طوطے کی حرکات دیکھتے ہوئے میں نے اسے ایک جاننے والے کو تحفے میں دے دیا۔ جاننے والے کی ماں اور اُس کی بیوی میں اکثر لڑائی رہتی تھی۔ جب بہو گھر میں نہ ہوتی تو ساس اُس کا کچہ چھٹہ گنواتی۔ یہی حال بہو کا تھا۔ جب بھی کوئی مہمان گھر آتا طوطا دونوں کی کہانیاں او ر گالیاں مزے سے سناتا اور آخر میں پوچھنا سمجھ آئی ہے۔ پھر کیا ہوا؟ میں نے تریالے سے پوچھا کہنے لگا اُس کی آنکھوں پر پٹی باندھی اور اُسے واپس کوئٹہ بھجوا دیا۔ پہنچانے والا کوئلے کے ٹرک کا ڈرائیور تھا۔ ڈرائیور نے اسے کولپور کے قریب

ویرانے میں چھوڑ دیا۔ کچھ دنوں بعد میں اپنے کاروبار کے سلسلے میں کوئٹہ گیا اور پرندہ مارکیٹ کا بھی چکر لگایا۔ یہ دیکھ کر میں حیرت زدہ ہوگیا کہ پرندہ دکان پرموجود ہے۔ مجھے دیکھتے ہی کہنے لگا آگے زن مرید، درحقیقت یہ القاب میری ماں نے مجھے دے رکھا تھا۔ میں پریشان ہو کر دکان سے نکلنے لگا تو پرندے نے بلند آواز میں کہا، دفع ہو جاؤ شام تک شکل نہ دکھانا یہ میری بیوی کے الفاظ تھے۔ کہنے لگا کہ میں نے اس نایاب پرندے کے بعد پرندوں کے شوق سے توبہ کر لی۔ میں اس پرندے سے اتنا خوفزدہ ہو ا کہ اب ہر پرندہ مجھے کوئٹہ والے پرندے کا کزن یا دا زدان لگتا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ ہر پرندہ میرے رازوں سے واقف ہے۔ تریالے خان خٹک کوئلے کا بزنس کرتا ہے۔ وہ ٹریڈ یونین کا صدر اور ایک سیاسی جماعت کا اہم رکن بھی رہا ہے۔ پرندے سے خائف ہو کر اُس نے سیاست سے بھی کنارہ کشی کر لی ہے۔ کہتا ہے کہ سیاست میں قومی غیرت کا نام و نشان ہی نہیں رہااس لئے ذاتی غیرت کا تقاضہ ہے کہ ان طوطا چشم سیاستدانوں سے دوری اختیار کی جائے۔ سیاست کی دنیا میں کوئی ایسا نہیں جو کسی ایک جماعت سے وابستہ رہا ہو۔ وہ جو وابستہ وہ پیوستہ ہیں وہ سب کے سب پاکستان دشمن قوتوں اور دین بیزار تنظیموں کے آلہ کار اورمفاد پرست ہیں جنہیں سیاستدان کہنا سیاست کی توہین ہے۔
میرے پڑوس میں باٹنی کی پروفیسرنجمہ سلطانہ رہتی ہے۔ نیول آفیسر کی بیٹی ہے۔ کراچی یونیورسٹی سے ماسٹر اور پھر جرمنی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد جرمنی، فرانس اور امریکہ کی مختلف یونیورسٹیوں میں پڑھانے کا تجزیہ ہے۔ نجمہ سلطانہ غیر شادی شدہ ہے اور اُس کی بہن ایک فیڈرل سیکریٹری کی بیوی ہے۔ نجمہ طالب علمی کے دور میں سیاست سے بھی وابستہ رہی ہے۔ شادی نہ ہونے کی وجہ سے پوچھی تو کہنے لگی اچھا رشتہ نہیں ملا۔ پوچھا تمہیں کیسا رشتہ چاہیے تھا۔ کہنے لگی جیسا میرے نبی ﷺ کا فرمان ہے۔ خاندان قبیلہ، حسب و نسب، شکل وصورت مالی حالت اور علمی معیار پھر خو د ہی وضاحت کی کہ ایسے لوگ معاشرے میں موجود ہیں مگر ہمیں پہچان نہیں۔آج کل خاندان و قبیلے سے مراد نودولیتے خاندان ہیں جن کے حسب ونسب کی پہچان مشکل ہے۔ سورہ تغابن میں فرمان ہے کہ میں تمہارے اچھی اچھی صورتیں بنائیں مگر ہم نے اُن میں طرح طرح کے بھگاڑ پیدا کر لیے میری بد قسمتی کہ جتنے مالدار دیکھے سب کے سب کرپٹ، قومی چور اور پید اگر نکلے، حالانکہ وہ معاشرے میں بلند مقام رکھتے تھے اور اعلیٰ ایوانوں میں بیٹھتے تھے۔ آخر میں کہنے لگی علم ڈگری کا نام نہیں اور نہ ہی یونیورسٹیوں سے عالم اور حکیم بن کر نکلتے ہیں۔ میری بہن کا خاوند بائیسویں گریڈ میں ہے۔ کہتا ہے حسینی سیّد ہوں مگر نبی رحمت ﷺ نے اپنی اولاد کی جو خوبیاں بیان فرمائی ہیں ان میں سے ایک بھی اس میں نہیں۔ اندرون ملک اور بیرون ملک بے نامی جائیدادیں ہیں۔ اسلام آباد میں ایک پرائیویٹ کلب کا ممبر ہے۔ جہاں اعلیٰ اشرافیہ کے مردوزن اپنے اصل اور حقیقی حسب و نسب اور نسل کے روپ میں جلوہ افروز ہوتے ہیں۔ کہنے لگی کہ بہت پہلے ایک ناول پڑھا تھا جس کا نام ”ماؤنٹن آف ولچر تھا“ یہ ایک اونچے پہاڑ کی کہانی تھی جہاں ہزاروں چیل اور گدھ رہتے تھے۔ یہ ان کا آبائی اور صدیوں پرانا مسکن تھا۔ پھر ایک وقت آیا کہ گدھ اچانک مرنے لگے۔ گدھوں کے سردار نے گدھ مجلس طلب کی تاکہ اس حادثے کی وجہ معلوم کی جائے۔ مجلس کے بعد پتہ چلا کہ پوسٹ مارٹم کے بعد انسانی جسم سے نکالے گئے اجزاء اور اسقاط حمل سے نکلا ہوا مواد گندگی کے ڈھیروں او ر ویرانوں میں پھینکاجاتا ہے جو پرندے یہ فضلہ کھاتے ہیں وہ نہ صرف خود بلکہ اپنے مکسن میں رہنے والے دیگر پرندوں کو بھی بیمار کر دیتے ہیں۔ سردار گدھ نے کہا کہ ہم صدیوں سے انسانی گوشت کھا رہے ہیں۔ جنگوں، وباؤ، ہجرت اور قحط سالی کے دوران لاکھوں انسان مرتے رہے اور ہم انہیں کھاتے رہے مگر کبھی کوئی گدھ بیمار نہ ہوا۔ عقلمند گدھ نے کہا کہ یہ لوگ مجبور، معذور، بیمار، پریشان حال، بھوکے اور بے گھر ہوتے تھے۔ نہ اُن کا پوسٹ مارٹم ہوتا تھا اور نہ بچوں کو بے وقت ماؤں کے رحم سے خارج کر کے گندگی کے ڈھیروں پر پھینکا جاتا تھا۔ با پ، مائیں اور بچے حرام کی کمائی کھاتے ہیں جن کے جسموں میں حرام کے جرثومے پل کر پروان چڑھتے ہیں جو کبھی مرتے نہیں۔ کانفرنس میں فیصلہ ہوا کہ آئیندہ کوئی گدھ ایسا فضلہ نہ کھائے جو گندگی کے ڈھیر پر پڑا ہوا اور جس میں حرام جرثومے شامل ہوں۔
اور وہ بچے جوان کی منکوحہ عورتیں پیدا کرتی ہیں اُن کے متعلق تمہار ا کیا خیال ہے۔ میرے پوچھنے پر کہنے لگی وہ اعلیٰ اشرافیہ اور سپر کلاس کے ورثے کے مالک ہیں۔ آزادی کے بعد اس اعلیٰ نسل کی تیسری پیٹری پروان چڑھ چکی ہے اور ملکی نظام چلا رہی ہے۔ حرام جرثوموں کی پیدائش نطفے سے ہی نہیں بلکہ حرام خوراک، لباس، رہن سہن اور معاشرتی ماحول میں بھی ہوتی ہے۔ جرثومہ کسی بھی نسل سے تعلق رکھتا ہو وہ ایک ساز گار ماحول کے بغیر پروان نہیں چڑھتا اور نہ ہی اپنی نسل اور قسم برقرار رکھنے کی سکت رکھتا ہے۔ دیگر جانداروں کی طرح ہر انسان کی الگ کیمسٹری ہے اور اپنے جیسی نسل پیداکرتا ہے۔ بہت سے محققین اس بات سے متفق نہیں مگر انسانی عصیبت انسانی کردار و افعال کی بنیاد ہے۔ مولانا فضل الرحمن سے بہتر نفس امارہ کی تشریح کون کرسکتا ہے۔ مروجہ سیاست اور مور مملکت چلانے والوں کی اکثریت نفس امارہ کی مقید اور نفس لوامہ کے اثرات سے مبرا ایک ایسی مخلوق ہے جس کی اصلاح ممکن ہی نہیں۔ جب مملکت کا نظام ایسے گروہ کے ہاتھ ہو جن کی پیدائش، پرورش اور معاشرتی ماحول میں منفی، مضر اور حرام النسل جرثوموں کی کثرت سے ہووہاں رزق حلال کا حصول اور فلاحی معاشرے کا قیام ناممکن ہو جاتا ہے۔ بظاہر انسان نما درندہ صفت مخلوق میں اُن ہی کی نسل، عمل اور فعل سے تعلق رکھنے والی مخلوق ہی سما سکتی ہے۔ شادی بیاہ ہو یا معاشرتی تعلق کسی دوسری خویا عصبیت کا فرد اس مخصوص جرثیمی اثرات کے تابع رہنی والی مخلوق کے دائرہ کار میں آہی نہیں سکتا۔ بالفرض اگر آبھی جائے تواسے بہر حال میں اسی ماحول میں ڈھل کر ثابت کرنا ہوتا ہے کہ وہ ان سے بڑھ کر نئے اور مضر جراثیمی ماحول کا مقلد ہے۔ مگر مشاہدے میں آیا ہے کہ اوّل ایسے ترک ماحول افراد کی تعداد کم ہوتی ہے یا پھر وہ نئے ماحول میں رہ کر جلد ہی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتے ہیں۔
ماحول چاہے سیاسی ہو یا معاشرتی، منفی ومثبت رویے اور حلال و حرام کے اثرات بڑے واضح نظر آتے ہیں۔ میرے نزدیک شادی بیاہ ہو یا معاشرتی میل جول، سیاسی یا نظریاتی وابستگی ہو یا پھر علمی، عقلی سوچ و فکر، تصوراتی یوٹوپیاہو یا حقیقی سوچ و عمل، منفی اور مثبت اثرات کا غلبہ اور باہمی کشمکش کا میدان ہمیشہ ہی سجا رہتا ہے۔ وہ کہتی ہے کہ انسانی اور دیگر مخلوق میں فرق کی بنیاد سیاسی او ر نفسیاتی ماحول اور معاشرہ ہے جہاں وہ عقلی اور شعوری کاوشوں کو بروئے کا ر لا کر معاشرتی اور ریاستی

ماحول کے اجر اء کی ابتدا کرتا ہے۔ موسمیاتی اور جغرافیائی حالات بھی انسانی ماحول اور معاشرے پر اثر انداز ہوتے ہیں جس کی وجہ سے مختلف خطوں میں بسنے والے انسانوں کی تہذیب و ثقافت کے الگ الگ انداز دیکھنے میں آتے ہیں۔ مذہب، روایات اور اخلاقیات فرد اور معاشرے کی ایسی ضروریات ہیں جن کے بغیر انسان محض دو ٹانگوں والا حیوان تو ہوسکتا ہے مگر وہ کسی بھی لحاظ سے مہذب، متمدن، باشعور اور بااخلاق ماحول اور معاشرے کا فرد نہیں ہوسکتا۔
میں نے موجودہ سیاسی اُتھل پتھل اور پاکستان ڈیموکرٹیک موومنٹ کی بات کی تو نجمہ نے اپنے علم اور مشاہدے کی بنیاد پر جواب دیتے ہوئے کہا کہ ہم ایک جذباتی، بے شعور، عقلی لحاظ سے معذور اور منتشر معاشرتی ماحول میں بسنے والے مختلف الخیال گروہ ہیں جنہیں ایک ایسا طبقہ حیوان سمجھ کر ہانک رہا ہے جسے اس ملک او ر اُس کی جغرافیائی حدود میں بسنے والے انسانوں سے اتنی ہی غرض ہے جتنی عہد قدیم کی بابلی، یونانی اور مصری تہذیبوں کے بادشاہوں اور نوکر شاہی کو تھی۔ زرداری، فضل الرحمن اورنواز شریف، گل گا مشن،اشونا، ارنمو اور حمو رابی کی سیاست، خواہشات، ہوس وحرص، طرز حکمرانی اور ذاتی زندگیوں میں کوئی فرق نہیں۔ وہ اولیّت اپنی ذات کو دیتے تھے، مال ودولت اور سونا چاند جمع کرتے تھے۔ اپنے اور اپنے خاندانوں کے لیے محل تعمیر کرواتے تھے۔ دنیا کی ہر قیمتی چیز اُن کی دسترس میں تھی۔ ان کی اولادیں اُن کی حکمرانی کی وارث تھیں۔ سیاسی لحاظ سے وہ خدائی کے دعویدار تھے اور اُن کی ماتحت بیوروکریسی معاون خد ا تھیں۔ وہ ایک پارلیمنٹ جس میں وقت کے ذہن و فطین افراد، عالم، مورخ، قانون دان، ہیت دان، جادو گر، جوتشی، فلسفی، انجینئر،وید اور ہر صنعت سے تعلق رکھنے والے ماہرین شامل تھے۔
تین ہزار قبل مسیح میں عراق کے بادشاہ ارنمو کے دور میں پہلا آئین پارلیمنٹ نے منظور کیا اس کے بعد اشنونا، حمدرابی اورلپت اشتر کے دور میں آئین مرتب ہوئے جنہیں نافذ کرنے کے بعد ان کی روشنی میں قوانین مرتب کیے گئے۔ اس دور میں عدالتی نظام بھی تھا اور بیوروکریسی بحیثیت معاون خداؤں کے ان قوانین پر عمل درآمد بھی کرواتی تھی۔ عدلیہ عام آدمی سے وہی سلوک کرتی تھی جیسا آج کر رہی ہے۔ جج اور بیوروکریٹ کی مراعات، تنخواہ، دیگر سہولیات میں بھی کوئی فرق نہ تھا۔ معاون خدا، بادشاہ اورا س کا قبیلہ آئین سے مبرا تصور کیا جاتا تھا۔
عام آدمی کے لیے قوانین بنائے جاتے تھے جن میں اُن کی روزانہ، ماہانہ اور سالانہ مزدوری کا تعین کیا جاتا تھا۔ کسان کی سب سے بڑی عبادت غلہ پیدا کرنا اور اُسے معبد کی نذر کر دینا تھا۔ دیکھا جائے تو آج ہم یعنی اہل پاکستان بابلی دور میں ہی جی رہے ہیں۔ فضل الرحمن، زرداری اور شریف خاندان سیاسی خداؤں سے کسی طرح کم نہیں اور پاکستانی بیورو کریٹک نظام کے کل پرزے ان نام نہاد مادی خداؤں کے نائبین ہیں۔ وہ ان ماری خداؤں کے اشارے پر سمگلنگ کرواتے ہیں، ذخیرہ اندوزی ہوتی ہے۔ کک بیک، کمیشن، رشوت، جرائم کی آبیاری، عام آدمی کی بیج کنی، مافیا کی سرپرستی، ملک دشمن عناصر سے روابط اور سہولت کاری سے لیکر زندگی کا ہر شعبہ ان نام نہاد مادی خداؤں اور اُن کے معاون خداؤں کی وجہ سے مفلوج ہے۔
عوام الناس سوچے سمجھے بغیران نام نہاد مادی خداؤں کے سیاسی عقیدے، فلسفے اور نظریے کی مقلد ہے۔ کوئی پاکستان مردہ باد کا نعرہ لگا رہا ہے تو کوئی بلوچستان کی آزادی کا خواہاں ہے، کوئی فوج کو بغاوت پر اُکسا رہا ہے اور کسی کے اشارے پر عام آدمی کو دو وقت کی روٹی نصیب نہیں ہو رہی۔ مگر باوجود اس کے عوام میں سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت ہی نہیں کہ دور جدید کے ارنمو، اشنونا، گل گا مش اور لپت استر اور اُن کے شہزادے اور شہزادیاں کس طرح انہیں دینی، فکری، معاشرتی، معاشی، سیاسی اور نفسیاتی لحاظ سے مفلوج کر کے انہیں مزید ذلت و رسوائی کے دلدل میں دھکیلنے کی منصوبہ بند کر رہے ہیں۔
نجمہ کہتی ہے کہ میری ماں پڑھی لکھی عورت ہے۔ پولیٹیکل سائنس کی اُستاد رہ چکی ہے اور بڑے سیّد ذاد ے داماد کی حرکات دیکھتے ہوئے عرصہ تک میرے لیے ایک بہتر رشتے کی تلاش میں رہی ہے۔ دوسری جانب مسلکی اعتبار سے جمعیت علمائے اسلام کی حامی ہے۔ میں اکثر ماں سے سوال کرتی ہوں کہ ایک جانب تمہیں ایک اچھے خاندان کے داماد کی تلاش ہے اور دوسری جانب تم پاکستان مخالف سیاسی جماعت کی حامی ہو۔ مولانا مفتی محمود اور مولانا فضل الرحمن کی منفی سیاست کے باوجود تم ان کی پیرو کار ہو۔ میری ماں تو اس پرخاموش رہتی ہے مگر حامد میر، سہیل وڑائچ، سلیم صافی اور درجن بھر مریم اور زرداری آئیڈیالوجی کے مقلد دانشوروں کے پاس بھی اسکا جواب نہیں۔ یہی سوال بائیس کروڑ پاکستانیوں سے بھی ہے کہ ذاتی اور خاندانی غیرت قومی غیرت سے الگ کیوں ہے۔ نصر ت جاوید بھی سیّد ہے مگر عصبیت اور اجتماعی غیر ت سے الرجک ہے۔ قومی غیرت اور عصبیت کی بات کرنے والوں کو وہ غیرت بریگیڈ سے تشبہہ دیتا ہے۔
قومی غیرت نامی اگر کوئی چیز ہوتی تو صفد راعوان حیوانوں کی طرح قائداعظم ؒ کی قبر پر جوتوں سمیت ناچنے اور آئین گروں کے خاندان سے تعلق رکھنے والی اپنی بیوی کو مادر ملت کے خطاب سے نواز نے کی ہمت نہ کرتا۔ خاندانی عصبیت کا کوئی شاہبہ ہوتا تو بلاول زرداری کا سر شرم سے نہ جھکتا اور نہ ہی اعتزاز احسن مریم کے حق میں بیان دیتا۔ خاندانی غیر ت اور عصبیت کے جرثومے زندہ ہوتے تو ایاز صادق اپنی فوج کی بزدل اور بھارتیوں کو ہیرو قرار دنہ دیتا۔ جمعیت کی پاکستان دشمنی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں اور نہ ہی باچا خان، عبدالصمد اچکزئی اور کانگر س کی اکھنڈبھارت آئیڈلوجی میں کوئی فرق ہے۔ سرحدی گاندھی اورمہاتما گاندھی کے آئیڈیا لوجیکل چرثومے وہی ہیں جو تریالے خان کے پرندے اور نجمہ کے بہنوئی سیّد زادے اور دیگر موسمیاتی سیّدزادوں کے ہیں۔ کچھ لبرل اور کھوکھلے ذہنوں کے حامل اینکر اور اینکرنیاں کوئٹہ وال طوطے کی طرح بھاشن دیتے نہیں تھکتے کہ خدا را غداری کے سرٹیفکیٹ نہ بانٹو۔ یہ سب محب وطن ہیں بس عمران خان سے ناراض ہیں۔کوئی ان عقلمندوں سے نہیں پوچھتا کہ کیا عمران خان پاکستان کا نام ہے اور پاک فوج عمران کی ذاتی فوج ہے۔ دوسرا سوال یہ ہوتا ہے کہ باہم ڈائیلاگ کیے جائیں۔ کوئی یہ بھی نہیں پوچھتا کہ کس بات پر ڈائیلاگ کیے جائیں۔ قائدکی قبر پر صفد ر کے ڈانس پر، بلاول کے شرم سے سرجھک جانے پر، قومی دولت لوٹنے کی چھوٹ پر، پاک فوج کی بزدل کہنے پر، نواز شریف کی پاکستان مخالف آئیڈلوجی پر یا قومی غیرت اورحمیت پر،میاں طفیل اور جنرل ضیاء الحق کی سفارش پر پروفیسر بننے والے احسن

اقبال نے دھکمی دیتے ہوئے کہا کہ چیئرمین نیب جناب چیف جسٹس اور چیف آف آرمی سٹاف بات چیت کر راستہ کھولیں ورنہ نفرت کی آگ گلی محلوں تک پہنچ گئی تو کنٹرول کرنا مشکل ہو جائے گا۔ قوم غیر ت اگر جھاگ اُٹھے تو کوئی ان سیاسی آتش بازوں کو پیغام دے کہ تم جتنی آگ لگاسکتے ہو لگاؤ شاید تمہاری آگ کی تپش سے ہماری غیرت جھاگ اٹھے اوروہ قوم اور قبیلے جو نچلی ذاتوں کو بیٹی کا رشتہ نہیں دیتے شاید وہ نچلے ذہنوں کے حامل سیاست دانوں کی بیخ کنی ہی کر سکیں۔
غیر ت کے نام پر قتل کرنے والوں کی قومی غیرت جوش میں آجائے اور ملک دشمن آئیدیالوجی کے حامل مجرموں کو کم از کم ایک تھپڑہی رسید کر دیں۔ پی ڈی ایم کے جلسوں کو دیکھ کر اکثر لوگ پوچھتے ہیں کہ ہماری غیرت کہاں ہے۔ اس کا جوا ب قوم کو دیتا ہے اور ثابت کرنا ہے کہ وہ ایک ہجوم نہیں بلکہ ایک غیر مند قوم ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں