262

سرکار اور محکمہ ایریگیشن کی بندر بانٹ کے پراجیکٹ کی بدولت گرم چشمہ کی امن کو درپیش خطرات۔۔۔۔۔۔تحریر:شیراعظم

اہلیانِ گرم چشمہ انجگان (لٹکوہی)  اپنی مثالی امن اور صلح پسندی کے لئے ضلع  بھرمیں مشہور ہیں۔ اپنے چھوٹے موٹے اندرونی مسائل مل بیٹھ کر مصالحت کے ذریعے حل  کرنے کو ترجیح دیتے ہیں    مشکل ترین حالات کے اندر بھی انتہائی قدم   اٹھانا نہیں چاہتے۔  لیکن  ماضی کی طرح اب بھی ہمارا اتحا دو اتفاق اور بھائی چارہ   ان لوگوں کو ہضم نہیں ہو رہا   ہے  جو ہماری نا اتفاقی  اور  لڑائی جھگڑوں سے  فائدہ اٹھاتے رہے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جو کبھی نسلی ،کبھی مسلکی اور کبھی علاقائی نفرتیں اور نا اتفاقی  پیدا کرکے  ہمارے اوپر کسی نہ کسی شکل میں مسلط رہے ہیں اور اب بھی وہ یہی چاہتے ہیں  کہ ہمارے ہی  سر پر قدم رکھ کر وہ اپنے لئے آسمان سے چاند ستارے اُتار لا سکیں ۔  وہ اس فن کے بھی ماہر  ہیں   کہ کس طرح عوام کو تقسیم  کر کےانہیں آپس میں لڑا کر درمیان سے اپنی حکمرانی اور وسائل پر قبضے کے لئے راستہ ہموار کیا جاتاہے۔ علاقہ گرم چشمہ آج کل ایسے ہی صورتِ حال  اور کشمکش    کا شکار ہو چکاہے ۔علاقے کا ایک بااثر بیٹا  اپنی ذاتی اور سیاسی اثر رسوخ کو استعمال کر  تے ہوئےمحکمہ ایری گیشن لوئر چترال کی جانب سے   کروڑوں مالیت کی پراجیکٹ     منظوری کروا کر اس کی من منشا کامیابی کے لئے گرم چشمہ کی امن کو داؤ پر لگایا ہوا ہے۔ سیاسی تعلقات  اور اداراجاتی پشت پناہی   کی بنیاد پر فردِ واحد کو نوازے جانے والےاس پراجیکٹ کی وجہ سے گرم چشمہ کے دونو ں بڑے  ویلیز کے عوام  آپس میں دست وگریبان ہیں   مار دھاڑ اور ڈنڈا بردار جتھوں کا ایک دوسرے کے اوپر حملہ اور ہونے کا سلسلہ زور وشور سے جاری ہے خونی تصادم کی نوبت آ چکی ہے وہ لوگ جو شادی ،غمی میں ایک ساتھ بیٹھ کر ایک دوسرے کے خوشی  اورغم  بانٹا کرتے  تھے وہ آج کل  اس پراجیکٹ کی وجہ سے ایک دوسرے کے  خون کے پیاسے ہو چکے ہیں۔ سیاسی تعلق،ٹھیکیداری نظام ، خاندانی اثر رسوخ  اور اداروں کی پشت پناہی کا یہ   گورکھ دھندہ ہاتھیوں کی لڑائی کی سی صورت اختیار کر گئی ہے جس میں ناکامی  و بربادی صرف کمزور کی  مقدرہے۔     اہل ِ ثروت  کی ظلم وبربریت  اور حالات کی سنگینی سے متعلق مختلف اوقات میں مختلف  ذرائع  سےفریقین کی جانب  سےبارہا دفعہ  یہ بات ضلعی انتظامیہ  اور متعلقہ سرکاری اداروں کے نوٹس  میں لایا گیا تھا  لیکن ان سب کے باوجود تمام ادارے اور ذمہ داران  پر اسرار طور پر خاموش تماشائی بنے بیٹھے رہے۔علاقائی امن و آمان کے حالات سنگینی کے حدوں کو چھو جانے کے باوجود بھی متعلقین کی جانب سے خاموشی اور بے حسی کا یہ سلسلہ   اگر اس طرح جاری رہا تو بہت جلد یہی حالات چھچھوندر بن کر سرکاری سانپوں کے گلے میں اٹک جائیں گےاور تب تک علاقائی امن و آمان کا تہ و بالا ہو چکا ہوگارشتہ داریاں اور تعلقات دشمنی میں بدل چکے ہونگےاور پھر ہمارے ہاتھ کچھ بھی نہیں آنے والا کیونکہ حالات بگڑنے میں ساعت درکار ہوتی ہے اور سنورنے میں صدیاں بیت جاتی ہیں۔

لہذاحالات کا تقاضا یہی ہے کہ حکام کی جانب سے  ذمہ دارانہ انداز میں  بگڑتےحالات  کوکنٹرول کرنے کی سنجیدہ  کوشش تیز تر کئے جائیں ورنہ   مذکورہ بالا تمام کردار حالات کا ذمہ دار بن کر تاریخ کے مجرموں  میں اپنا نام رقم کر لیں گے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں