مضامین

اپناگربیان۔۔۔میں عورت ہوں۔۔۔۔ذیشان سید

کائنات میں عورت کو اعلیٰ مقام حاصل ہے، حضرت حواءکو حضرت آدم علیہ السلام کی بائیں پسلی سے پیدا کیا ، تو حضرت فاطمہ الزہرہ امت محمدی کی ماںبنیں ، اور اس طرح عورت ذات کو مختلف شکلوں میں اس کائنات میں بھیج دیا، عورت کو کہیں پر ماں بنایا، تو کہیں بیٹی ، کہیں بیوی تو کہیں پر بہن کے رتبے سے نوازا گیا۔ مگر بدقسمتی سے اس دنیا نے عورت کو اپنا کھلونا سمجھ لیاہے۔ کہیں کہیں انکو صحیح رشتوں میں رکھ کر اپنا لےتے ہیں تو کہیں پر اس اعلی رتبہ رکھنے والی ذات کو ہم اپنا ٹائم پاس سمجھتے ہیں، جہاں عورت کو ہم مردوں نے اگر اپنے لئے تماشہ بنایا ہے تو وہی ان میں سب سے بڑا ہاتھ خواتین کا بھی ہیں، جو اپنے اپکو مردوں کے سامنے ایک شوپیس کی طرح رکھتے ہیں تاکہ ہر کسی کو پسند آجائے ، اور اس سماج کی خاص بات یہ ہے کہ وہ شیشے میں رکھے ہوئے شوپیس کو بہت جلد پسند کرتے ہیں۔ عورت کے ساتھ اپنا اچھا برا وقت گزارنا دنیا کا ریت و رواج ہے جو صدیوں سے چلا آرہا ہے، مگر کوئی اس اعلی مرتبہ رکھنے والوں پر اس طرح کے مظالم ڈھائے جو کہ سننے پر زمین پاوں کی نیچے سے کھسک جاتی ہیں۔ عورت ذات پر بحث کرنا ےا انکی مقام کو جاننا ہر انسان کے بس کا کام نہیں ، کیونکہ کہیں کہیں تربیت کا اثر ہوتا ہے خیر صرف اتنا جاننا ضروری ہے کہ اس ذات سے وابستہ میرا خاندان بھی ہیں، دیکھا جائے تو میری ماں ایک خاتون ہے، میری بیوی، میری بہن اور بیٹی بھی خاتون ہیں ، اگر میں نے کسی خاتون پر بُری نظر ڈالی تو اس سے پہلے زرا اپنے گریبان میں جھانکنے کی سخت ضرورت ہیں ، کہ میں بھی جس ماں کا بیٹا ہوں وہ خاتون ہے ، میرے خاندان پر بھی کوئی غلط نظر ڈال سکتا ہیں جو کہ میرے کئے کا جواب ہوگا ، اور اس بات سے ہمارا دین اسلام منع بھی کرتا ہے کہ کسی کے ساتھ غلط کرنے پر آپ کے ساتھ بھی غلط ہوگا ۔ مگر افسوس کہ نہ ہمیں اپنی عزت پیاری اور نہ دوسروںکی عزت ۔ ہمارا معاشرہ اتنا بگھڑ چکا ہے کہ نہ تو ہمیں اپنی بیٹی نظر آتی ہے اور نہ ہی کسی اور کی معصوم کلی، بس اپنی حوس بجھادیتے ہیں۔ بات اگر نئی دہلی میں چلتی ٹرین میں جواں سالہ لڑکی سے زیادتی کے بعد قتل کرنے کی ہو، یا کراچی کے چھ سالہ طوبی کی جس کو زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کیا گیا، بات آٹھ سالہ عمران کی اگر کی جائے جو فیصل آباد میں مدرسے کی قاری نے زیادتی کے بعدبرہنہ حالت میں تیسری منزل سے نیچے پھینک دیا تھا، ےا ڈیرہ اسماعیل خان میں سیاسی لوگوں کی سرپرستی میں جواں سالہ لڑکی کو برہنہ کرنے کی ، بات لاہور کی پانچ سالہ بچی کی کی جائے جو زیادتی کے بعد ملزم گنگارام ہسپتال میں چھوڑ کر چلتا بنا، یا بات قصور شہر کی اس 12 افسوس ناک واقعات کی جہاں انسانیت شرما گئی تھی ، یا اسی قصور شہر کی سات سالہ بچی زینب کے ساتھ درندہ صفت انسان کا کیا ہوا افسوس ناک واقعے کی کی جائے ، فیصل آباد میں میٹرک کے طالب علم کو زیادتی کے بعد قتل کرنے کی بات کی جائے ، آرے بات کس کس کی کریں ابھی زینب کا زخم بھرا نہیں تھا کہ درندوں نے سرگودھا میں 18 سالہ لڑکی کو زیادتی کے بعد قتل کردیا ، میں کہاں کہاں کی بات کرو کس کی ہاتھ پر تلاش کرو ں اپنے معصوم کلیوںکا خون، جس کے ہاتھوں میں کھلونے ہوتے ہیں ، قلم اور کتاب ہونا چاہئے ،ریپ جیسے گنونے کام سے آشنا کردیا ، پھر اس پھول کو مسلا گیا ، کبھی باپ ، بھائی اور رشتہ دار وںنے غیرت کے نام پر تو کبھی پنچائیت اور جرگے میں بیٹھے درندوں نے کسی طرح سے مسلا۔ سوال تو یہ ہے حکومت نے بچوں کی تحفظ کےلئے کونسے اقدامات اٹھائے؟ پاکستان میں ریپ کے جتنے واقعات ہوئے ان میں کس کو انصاف ملا؟ یا کیا زینب ، طوبی ، عمران جیسے سینکڑوں بچوں کو انصاف

 

Related Articles

Back to top button