256

سفرِ معراجِ خاتم النبیین حضرت محمد مصطفی ﷺ۔۔۔۔عبدالواحد

اسلامی سال کا ساتواں مہینہ رجب کے آخری ایام چل رہے ہیں۔ ماہِ رجب ان چار مہینوں میں سے ایک ہے، جن کو اللہ تعالی نے حرمت والے مہینے قرار دیئے ہیں۔
ماہ رجب وہ مبارک مہینہ ہے کہ جس میں محمد مصطفی ﷺ خدائے بزرگ و برتر کی دعوت پر سات آسمانوں کا سفر طے کر کے عرشِ معلی میں ان کے مہمان بنے۔ سفرِ معراج دو حصوں پر مشتمل ہے۔ پہلا حصہ سفر مسجدِ حرام (مکہ مکرمہ) سے مسجدِ اقصٰی(بیت المقدس ، قبلہ اول،فلسطین) تک ہے، جو آپ ﷺ براق پر سوار ہو کر طے فرمایا۔ اس سفر کو سفرِ اسراء کہا جاتا ہے۔ دوسرا حصہ سفر مسجدِ اقصٰی سے شروع ہو کر سات آسمانوں سے ہوتے ہوئے عرشِ معلی تک ہے، جسے معراج کہا جاتا ہے۔ چونکہ آپ ﷺ نے یہ سفر رات کے وقت طے فرمایا اسی نسبت سے اسے شبِ معراج کہا جاتا ہے۔ نبوت کے بارہویں سال ۲۷ رجب کو آپ ﷺ اپنی چچا زاد بہن ام ہانی کے گھر پر عشاء کی نماز پڑھنے کے بعد آرام فرما رہے تھے کہ اللہ کے حکم سے حضرت جبرائیل امین تشریف لائے اور آپﷺ کو سفرِ معراج کیلئے تیاری کی درخواست کی۔ جو آپ نے قبول فرمائی۔ آپ ﷺ کی سواری کیلئے براق کا انتظام کیا گیا۔ جو بجلی کی رفتار سے زیادہ تیز چلنے والا سفید رنگ کا جانور تھا۔ جس کا قد گدھے سے بڑا اور خچر سے چھوٹا تھا۔ وہ اپنا قدم وہاں تک رکھ سکتا تھا، جہاں تک اس کی نظر پہنچ سکتی تھی۔ آپ ﷺنے براق پر سوار ہو کر مسجدِ حرام (مکہ مکرمہ) سے مسجد اقصٰی کا سفر اختیار فرمایا۔ جس کا تذکرہ قرآنِ مجید کی سورۃ بنی اسرائیل کی پہلی آیت میں ہوا ہے جس کا ترجمہ ہے: ’’ پاک ہے وہ ذات جو لے گئی اپنے بندے (محمدﷺ) کو راتوں رات مسجدِ حرام سے مسجدِ اقصی تک۔ وہ (مسجدِاقصی) کہ برکت دی ہم نے جس کے ماحول کو تاکہ دکھائیں ہم اسے (محمدﷺ) اپنی کچھ نشانیاں۔ بے شک اللہ ہی سب کچھ سننے اور دیکھنے والا ہے‘‘براق کو مسجدِ اقصٰی کے دروازے کے قریب باندھ کر آپ ﷺ اندر تشریف لے گئے اور دو رکعتیں نماز ادا فرمائی ۔ اس کے بعد ایک زینہ لایا گیا جس میں نیچے سے اوپر جانے کے درجے بنے ہوئے تھے ۔ آپ ﷺ نے زینہ کے ذریعے سے آسمانوں کا سفر اختیار فرمایا۔ اس زینہ کی حقیقت خالقِ کائنات کو ہی معلوم ہے۔ پہلے آسمان پہنچے جہاں آپ ﷺ کی ملاقات حضرت آدم ؑ سے ہوئی۔ رہبرِ سفرِ معراج نے حضرت آدم ؑ سے آپﷺ کا تعارف کرایا۔ دوسرے آسمان پر حضرت عیسیٰ ؑ اور حضرت یحییٰ، تیسرے آسمان پر حضرت یوسف ؑ ، چوتھے آسمان پر حضرت ادریس ؑ ، پانچویں آسمان پرحضرت ہارون ؑ ، چھٹے آسمان پر حضرت موسیٰ ؑ اور ساتویں اور آخری آسمان پر حضرت ابراہیم ؑ سے ملاقات ہوئی۔ جبرائیل امین نے ان پیغمبروں سے درجہ بدرجہ آپ ﷺ کا تعارف کرایا۔ اس کے بعد آپ ﷺ ایسے میدان میں پہنچے جہاں تقدیر کے لکھنے کی آواز سنائی دے رہی تھی۔ آپ ﷺ سدرۃ المنتہٰی پہنچے جو اتنا حسین دکھتا تھا کہ اللہ کی کسی بھی مخلوق میں اتنی طاقت نہیں کہ اس کے حسن کو بیان کر سکے ۔ یہیں پر آپﷺ نے جبرائیل امینؑ کو ان کی اصل شکل میں دیکھا، جن کے چھ سو بازو تھے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں سے آگے مقرب ترین فرشتہ نے بھی ساتھ آگے چلنے سے معذرت چاہی اور کہا کہ مجھے یہاں سے آگے جانے کی اجازت نہیں۔ اور حبیب اللہﷺ اس مقام سے بھی آگے بڑھے۔ اس کا تذکرہ قرآن مجید کی سورۃ النجم کی آیت نمبر ۷ سے ۱۸ تک ملتا ہے۔جس کا ترجمہ ہے:
ُُُُ’ جبکہ وہ (محمدﷺ) بالائی اُفق پر تھا۔ پھر قریب آیا اور آہستہ آہستہ آگے بڑھا۔ یہاں تک کہ ہو گیا برابر دو کمانوں کے یا اس سے بھی کم فاصلہ رہ گیا۔ تب وحی پہنچائی اس نے اللہ کے بندے کو۔ جو وحی پہنچانی تھی، نہ جھوٹ جانا رسول کے دل نے جو دیکھا اس نے۔ کیا تم اس سے جھگڑتے ہو۔ اس چیزپر جو وہ (آنکھوں سے) دیکھتا ہے۔ اور بلا شبہ وہ اسے دیکھ چکا ہے، اترتے ہوئے ایک بار اور بھی۔ سدرۃ المنتہیٰ کے قریب۔ اس کے آس پاس ہے جنت الماویٰ۔ جب چھا رہا تھا سدرہ پر جو کچھ چھا رہا تھا۔ نہ چندھیائی نگاہ اور نہ حد سے بڑھی۔ بلاشبہ اس نے (محمدﷺ)دیکھیں اپنے رب کی بڑی بڑی نشانیاں‘‘۔
رسول اللہ ﷺ عرشِ معلی پر اللہ کے دربارِ خاص میں تشریف لے گئے۔ اللہ تعالی کا دیدار کیا، اللہ تعالی سے ملاقات کی، دوزخ دیکھی، جنت کی سیر کی۔ اس کے بعد آپ ﷺ واپس مسجدِ اقصٰی میں اُترے، جن انبیا ئے کرام کے ساتھ آسمانوں میں آپ ﷺ کی الگ الگ ملاقاتیں ہوئی تھیں، وہ سب آپ ﷺ کو رخصت کرنے کیلئے بیت المقدس تک ساتھ آئے۔ صبح کی نماز کا وقت ہو جانے پر تما م انبیائے کرام نے آپ ﷺ کی امامت میں صبح کی نماز باجماعت ادا فرمائی۔ اسی نسبت سے آپ ﷺ کو امام الانبیا ء کہا جاتا ہے۔ اس کے بعد آپ ﷺ براق پر سوار ہو کر بیت المقدس سے علی الصبح واپس مکہ مکرمہ پہنچے ۔ ام ہانی سے آپ ﷺ نے سفر معراج کا واقعہ بیان کیا۔ آپ نے آپ ﷺ کی چادر مبارک کا کونا پکڑتے ہوئے کہا کہ اس کا ذکر لوگوں سے نہ کریں۔ ورنہ وہ آپ ﷺ کی تضحیک کریں گے۔ آپ ﷺ نے فرمایا یہ بات تو بخدا لوگوں کو بتانا ہی پڑے گا۔ اسی صبح آپ ﷺ کعبہ کی مسجد میں چند دوسرے مسلمانوں کے ساتھ تشریف فرما تھے کہ ابو جہل آیا ، آپ ﷺ سے طنزاً بولا کہیے کوئی اور خبر ہے۔ آپ ﷺ نے اثبات میں سرِ مبارک ہلاتے ہوئے معراج کا واقعہ بیان فرمایا۔ ابو جہل نے پوچھا کیا آپ ﷺ یہ خبر اپنی قوم کو بھی سنا سکتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا یقیناً ۔ ابو جہل تھوڑی ہی دیر بعد بہت سے مشرکین مکہ کو لے کر وہاں آ گیا اور آپ ﷺ سے کہا اب وہ خبر جو آپ ﷺ نے مجھے ابھی سنائی تھی، انھیں بھی سنا۔ چنانچہ آپ ﷺ نے ابو جہل کے ساتھیوں کو بھی شبِ گذشتہ کے معراج کا واقعہ بیان فرمایا۔ یہ خبر سارے مکہ میں پھیل گئی۔ کچھ لوگ حضرت ابو بکر صدیق کے پاس گئے اور ان سے پوچھا کہ اس بارے میں ان کی کیا رائے ہے۔ آپ نے فرمایا اگر یہ بات رسول اللہ ﷺ نے فرمائی ہے تو آپ ﷺ نے بالکل سچ فرمایا ہے۔ اس طرح معراج کے واقعہ کی تصدیق کرنے پر آپ کو صدیق کا لقب مل جاتا ہے۔ بعد ازاں مشرکین مکہ کی بڑی تعداد آپ ﷺ کے گرد جمع ہو گئی اور آپ ﷺ سے ان کی زبانی معراج کا واقعہ سننے کی ضد کرنے لگے۔ تو آپ ﷺ نے سفرِ اسراو معراج کے سارے واقعات انہیں بیان فرمائے۔ تو انہوں نے تسلیم کر لیا۔ کہ واقع آپ ﷺ کا سفرِ معراج صداقت پر مبنی ہے۔ کیونکہ بیت المقدس کا جو نقشہ آپ ﷺ نے زبانی پیش کیا وہ کفارِ مکہ کی معلومات کے عین مطابق تھا۔اس واقعہ کے چند عرصہ بعد آپ ﷺ نے شاہِ روم، قیصر کے نام خط حضرت دحیہ ابن خلیفہ کے ہاتھوں بھیج دیا۔ شاہِ روم ہرقل نے نامۂ مبارک پڑھنے کے بعد آپ ﷺ کے حالات کی تحقیق کرنے کیلئے عرب کے ان لوگوں کو بلایا جو اس وقت شاہِ روم ہرقل کے ملک میں بغرض تجارت آئے ہوئے تھے۔ ان تاجروں میں سے ایک ابو سفیان ابن حرب بھی تھا۔ ابوسفیان کی دلی آرزو تھی کہ آپ ﷺ کے متعلق کچھ ایسی باتیں ہو جائیں جن سے آپ ﷺ کا(ناغوذباللہ) حقیر اور بے حیثیت ہونا ثابت ہو جائے۔ چنانچہ ابو سفیان نے سوچا کہ اس موقعہ پر اگر آپ ﷺ کے معراج کا واقعہ بیان کیا جائے تو شاہِ روم آپ ﷺ کو ضرور جھوٹا تصور کرے گا۔ اس غرض سے ابو سفیان نے واقعہ معراج شاہِ روم کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ وہ مدعی نبوت یہ کہتے ہیں کہ وہ ایک رات میں مکہ سے مسجدِ بیت المقدس پہنچے اور پھر اسی رات صبح سے پہلے مکہ مکرمہ میں ہمارے پاس واپس پہنچ گئے۔ بیت المقدس کا سب بڑا عالم ایلیاء شاہِ روم ہرقل کے قریب ہی کھڑا تھا، اس نے بتایا کہ میں اس رات سے واقف ہوں۔ شاہِ روم نے ایلیاء کی طرف متوجہ ہو کر پوچھا کہ آپ کو اس کا علم کیسے ہے؟ ایلیاء نے عرض کیا کہ میری عادت تھی کہ جب تک میں بیت المقدس کے سارے دروازے نہ بند کردوں تو میں سوتا نہیں تھا۔ چنانچہ اس رات میں نے معمول کے مطابق بیت المقدس کے تمام دروازے بند کر دئیے۔ مگر ایک دروازہ مجھ سے بند نہ ہو سکا۔ میں نے اپنے عملہ کو بلایا، ہم نے مل کر کوشش کی مگر دروازہ پھر بھی بند نہ ہو سکا۔ دروازے کے کواڑ اپنی جگہ سے حرکت نہیں کر رہے تھے۔ ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے ہم کسی پہاڑ کو ہلا رہے ہیں۔ میں نے ہار مان کر کاریگروں کو بلایا۔ انہوں نے دیکھ کر کہا کہ دروازے کے اوپر عمارت کا بوجھ پڑ گیا ہے۔ اب صبح سے پہلے اس کا کوئی حل نہیں نکل سکتا۔ میں مجبور ہو کر گھر آیا۔ دروازے کے دونوں کواڑ کھلے رہ گئے۔ صبح ہوتے ہی میں اس دروازے کے پاس گیا، تو دروازے کے پاس پتھر کی چٹان کو دیکھ کر معلوم ہو رہا تھا کہ اس کے ساتھ کوئی جانور باندھ دیا گیا تھا۔ اس وقت میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا تھا کہ رات کو اللہ تعالی شاید اس وجہ سے دروازے کو بند ہونے سے روک رہا تھا، کیونکہ کوئی نبی مسجد میں آنے والے تھے۔ اور پھر انھیں بتایا کہ رات کو انھوں نے ہماری مسجد میں نماز بھی پڑھی ہے۔اس واقعہ خاص سے اللہ تعالی کی کبریائی یوں ظاہر ہے کہ رسول اللہ ﷺنے مکہ سے بیت المقدس (فلسطین) اور بیت المقدس سے عرش معلی تک کا لمبا سفر اللہ تبارک و تعالی کی قدرتِ خاص سے صرف رات کے ایک حصہ میں مکمل کیا۔ آپ ﷺجب واپس گھر تشریف لے آئے تو دروازے کی زنجیر ہل رہی تھی، جیسے ابھی ابھی دروازہ کسی نے بند کیا ہو۔ آپ ﷺ کا بستر مبارک گرم تھا، جیسے ابھی ابھی کوئی وہاں سے اُٹھا ہو۔ آپ ﷺکے وضو کا پانی گرم تھا۔ اللہ تعالی جو خالقِ کائنات ہے۔ اس کیلئے کوئی بھی کام مشکل نہیں ہے۔واقعہ معراج کا مقصد ایک تو آپ ﷺ کو ایسا ارفع و اعلی مقام بخشنا تھا جو کسی بھی انسان حتیٰ کہ کسی مقرب فرشتہ کو بھی نہیں ملا ہے۔ جس طرح خواجہ میر درد ؔ فرماتے ہیں:
باوجودیکہ پر و بال نہ تھے آدم کے
واں پہنچا کہ فرشتے کا بھی مقدور نہ تھا
اس واقعہ کا دوسرا مقصد نماز کی فرضیت بھی ہے۔ اللہ تعالی نے تمام عبادات زمین پر نازل فرمائے ہیں۔ نماز واحد ایسی عبادت ہے جو معراج کے موقع پر اللہ نے اپنے حبیب ﷺ کو عرش معلی پر تحفہ کے طور پر بذاتِ خود عطا کی۔ اس سے نماز کی اہمیت کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ اپنے حبیب ﷺسے ملاقات کے دوران اللہ تعالی نے ان چیزوں کی وحی فرمائی جن کی وحی اس وقت فرمانا تھی۔ اور پچاس نمازیں فرض کیں۔ سفر معراج سے واپسی پر آپ ﷺ کی ملاقات حضرت موسیٰ ؑ سے ہوئی۔ انھوں نے فرمایا کہ آپ ﷺ کی اُمت ان پچاس نمازوں کی ادائیگی میں سستی دکھائے گی۔ یہ بہت زیادہ ہیں، لہذا اللہ تعالی سے ان میں کمی کی درخواست کریں۔ آپ ﷺ واپس گئے اور نمازوں میں کمی کی درخواست کی۔ پانچ نمازیں کم کی گئیں، آپ ﷺ پھر حضرت موسیٰ ؑ سے ملے۔ انھوں نے ان میں سے بھی تخفیف کروانے کو کہا۔ آپ ﷺپھر اللہ کے حضور تشریف لے گئے اور پھر پانچ نمازیں معاف کر دی گئیں۔ اس طرح حضرت موسیٰ ؑ کے کہنے پر کئی مرتبہ آپ ﷺ اللہ کے حضور تشریف لے گئے اور ہر مرتبہ پانچ نمازیں معاف کر دی گئیں۔ یہاں تک کہ صرف پانچ نمازیں رہ گئیں۔ حضرت موسیٰ ؑ نے ان میں سے بھی مزید کمی کی بات کی تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس سے زیادہ کمی کا سوال کرتے ہوئے مجھے شرم محسوس ہوتی ہے اور میں اپنے رب کے اس حکم کو تسلیم کرتا ہوں۔ اللہ تعالی کا کرم خاص دیکھیں کہ اپنے حبیب ﷺ کی اُمت سے کتنا پیار ہے۔ جب اللہ تبارک و تعالی فرماتے ہیں کہ نمازیں ہم پانچ کر دیتے ہیں مگر ثواب پچاس نمازوں کا ملے گا۔ آپ ﷺ کی اُمت پانچ نمازیں پڑھے گی ہم انھیں پچاس کا ثواب عطا کریں گے، کتنا بدقسمت ہو گا وہ شخص جو پانچ نمازیں بھی نہ ادا کر سکے۔سفر معراج کے دوران آپ ﷺ کو مختلف قسم کے گنہگاروں کے احوال دکھائے گئے کہ جن کو طرح طرح کی سزائیں مل رہی تھیں۔ اس سفر کے دوران آپﷺ کا گزر ایسے لوگوں کے پاس سے ہوا جن کے سر پتھروں سے کچلے جا رہے تھے، کچل جانے کے بعد پھر ویسے ہی ہو جاتے تھے، جیسے پہلے تھے۔ اس طرح یہ سلسلہ جاری تھا، ختم نہیں ہو رہا تھا۔ آپ ﷺنے پوچھا کہ یہ کون لوگ ہیں؟ رہبرِ سفرِ معراج حضرت جبرائیل امین نے جواب دیا یہ وہ لوگ ہیں جو دنیا کی زندگی میں نماز کی ادائیگی میں سستی دکھاتے تھے۔پھر آپ ﷺ کا گزر ایسے لوگوں کے پاس سے بھی ہوا، جن کے سامنے ایک ہانڈی میں پکا ہوا گوشت تھا اور ایک ہانڈی میں کچا اور سڑا ہوا گوشت رکھا تھا۔ یہ لوگ سڑا ہوا گوشت کھا ر تھے، آپ ﷺنے دریافت کیا ، یہ کون لوگ ہیں؟ رہبرِ سفرِ معراج نے کہا یہ وہ لوگ ہیں جن کے پاس حلال عورت موجودتھی مگر وہ زانیہ عورت کے ساتھ شب باشی کرتے تھے۔ اور صبح تک اس کے ساتھ رہتے تھے۔ اور وہ عورتیں ہیں جو حلال اور پاک شوہر کو چھوڑ کر کسی زانی اور بدکار شخص کے ساتھ رات گزارتیں تھیں۔حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جس رات مجھے سیر کرائی گئی، میں ایسے لوگوں کے پاس سے بھی گزرا جن کے پیٹ اتنے بڑے بڑے تھے جیسے انسانوں کے رہنے کے گھر ہوتے ہیں۔ ان میں سانپ تھے جو باہر سے ان کے پیٹوں میں نظر آ رہے تھے۔ میں نے کہا اے جبرائیل یہ کون لوگ ہیں؟ انھوں نے کہا یہ سود کھانے والے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں