231

مُسَیملہ کذاب کی بازگشت۔۔۔۔ڈاکٹرعنایت اللہ فیضی

چترال سے قیدیوں کو لیکر ڈی آئی خان جانے والی سرکاری بس کے حادثے میں متعدد قیدی اور پولیس اہلکار زخمی ہوئے زخمیوں کی دیکھ بھال اور خبر گیری کے لئے چترال سے 22خاندانوں کے لوگ ڈی آئی خان پہنچ گئے ہیں یہ نئے مُسَیملہ کذاب کی طرف سے دعوائے نبّوت اور گستاخی رسول کی صدائے بازگشت ہے واقعے کو ایک ہفتہ بیت گئے شاہی مسجد کے خطیب مولانا خلیق الزمان نے ملعون رشید مدعی نبوت کو مسلمانوں کے عنیض وغضب سے بچاکر پولیس کے حوالے کیا تھا واقعے کے نتیجے میں مشتعل ہجوم کی طرف سے پولیس اسٹیشن پر حملہ ہوا توڑپھوڑ ہوئی اس الزام میں متعدد افراد کو گرفتار کیا گیا ختم نبوت کے قیدیوں کو ڈی آئی خان لیجایا جا رہا تھا کہ حادثہ پیش آیا اگرچہ دفعہ 144نافذ کر کے حالات پر چترال سکاؤٹس اور جی او سی ملاکنڈ نے قابو پالیا ہے تاہم عوام کا اشتعال اپنی جگہ مو جود ہے جب تک ملعون رشیدمدعی نبوت کو پھانسی نہیں دی جاتی ،عوام کا اشتعال ٹھنڈ انہیں ہوگا چترال سکاؤٹس کے کمانڈنٹ کرنل نظام الدین شاہ نے ملعون کے گھر والوں کو عوام کے مشتعل ہجوم سے بچانے کے لئے محفوظ مقام پر منتقل کر دیا ہے اور ان کے خالی گھر پر پولیس کا پہرہ لگا دیا ہے عوامی حلقوں نے پرنٹ اور سوشل میڈیا کے ذریعے شاہی مسجد کے خطیب مولانا خلیق الزمان کے لئے سول ایوارڈ نشان پاکستان یا ہلال پاکستان کا مطالبہ کیا ہے خطیب صاحب نے ملعون شخص کو زندہ پکڑکر پولیس کے حوالے کر کے بہت بڑے فساد سے عوام اور پاکستان کو بچالیا اور ثابت کیا کہ علماء قوت برداشت رکھتے ہیں قوت فیصلہ کے مالک ہیں اور صلح جو ،امن پسند شہری ہیں دہشت گردی اور بد امنی کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں اب سول انتظامیہ اور سول عدالتوں سے عوام کو انصاف کی کوئی توقع نہیں ہے اس لئے علماء نے اپنی تقریروں میں جو ڈیشل انکوائری اور عدالتوں سے سزادلوانے کے بجائے معلون مدعی نبوت مُسَیملہ کذاب رشید کو ملٹری کورٹ سے سزا دلوانے کا مطالبہ کیا ہے مدعی نبوت پر تین مقدمات بنتے ہیں تینوں کی سزا موت ہے پہلا مقدمہ مر تد کا بنتا ہے دوسرا مقدمہ مدعی نبوت کا بنتا ہے اور اس میں عقیدہ ختم نبوت کا انکا ر بھی شامل ہے اور تیسرا مقدمہ توہین رسالت کا بنتا ہے اور یہ تما م مقدما ت ایسے ہیں جنکو ثابت کرنے پر مجرم کو سزائے موت دی جا سکتی ہے زیربحث مقدمے کا مشکوک پہلو یہ ہے کہ میڈیا میں بعض حلقوں نے ملعون رشید ولد محمد نور کو دما غی مریض قرار دینے کی کوشش کی ہے اور یہ کوشش ایسی ہے جن کی بناء پر ملزم کو سزاسے بچانے کی سازش کا پتہ چلتا ہے اس طرح کی کو ششوں سے ماضی میں خطرناک جرائم میں ملوث مجرموں کو سزاسے بچا لیا گیا ہے پشتو میں ضرب المثل ہے’’ہر چا سرہ پنچ ما سرہ نہ پنچ‘‘ کہتے ہیں کہ گھنا ونے جرم کا ملزم گرفتار ہوا وکیل نے اس کو سمجھایا کہ خود کو پاگل بنا ؤ ایک ہی بات کہو ’’پنچ‘‘میں تمہیں قید اور سزا سے بچا وں گا ملزم نے پولیس افسیر ، ڈاکٹر اور جج کے سامنے ہر سوال کے جواب میں پنچ کہا ضما نت ہو گئی با ہر آیا تو وکیل نے کہا میری فیس کا بقایا اداکرو ملزم نے کہا ’’پنچ ‘‘وکیل نے کہا دیکھو ؛ہر ایک کے ساتھ پنچ ہوتا ہے میرے ساتھ پنچ نہیں ہوتا میں تمہیں دوبارہ گرفتار کراونگا اور ثابت کرونگا کہ یہ شخص پاگل نہیں ہے ہمارے ہا ں تندرست کو پاگل ثابت کرنا ذیادہ مشکل نہیں جو شخص بڑے مقدمے میں گرفتار ہواہو اُس کے گھر کو تالا لگ گیا ہو ماں باپ اور بیوی بچے پولیس کی تحویل میں نا معلوم مقا م پرمنتقل ہو چکے ہوں اس کے مکا ن کو کسی بھی وقت جلائے جا نے کا خطرہ ہو وہ ذہنی دباؤ کا شکا ر ضرور ہو گا مگر جس دن اُس نے مسجد میں آکر ہزاروں نمازیوں کے سامنے ہر زہ سرائی کی اُس دن وہ کسی ذہنی دباؤ کا شکار نہیں تھا بالکل تندرست تھا اُس کو بچانے کے لئے سول عدالت ، وکیل اور حیلے حوا لے سے کام نہیں لینا چاہیے سول عدالتوں نے خودکُش جیکٹ اور راکٹ لانچر کے ساتھ رنگے ہاتھوں گرفتارہونے والے مجرموں کو بری کر دیا ہے یہ صرف چترال کا مسئلہ نہیں یہ پورے ملک کا مسئلہ ہے خصوصاًہمارے صوبے اور ملاکنڈڈویژن کا مسئلہ ہے مسلمانوں کے عقیدے کا مسئلہ ہے عقیدہ ختم نبوت کا مسئلہ ہے اتنی آسانی کے ساتھ ملزم کو پاگل قرار دے کر قانون کی گرفت سے چھڑایا نہیں جا سکتا یہا ں نہ ’’قطری شہزادے ‘‘کی گواہی معتبرہے نہ مقامی حیلہ سازوں کی حیلہ سازی کااعتبار کیا جا سکتا ہے اگر ملعون رشید کو فوجی عدالت کے ذریعے سزائے موت نہیں دی گئی تو آئیندہ کسی ملزم کو قانون کے حوالے نہیں کیا جا ئے گا لوگ مشال خان کے قتل کی طرح قانون کو اپنے ہاتھ میں لینگے ہر بات کافیصلہ ہجوم کرے گا اور یہ جنگل کے دستور میں ہوتا ہے مہذب دنیا میں ایسا نہیں ہوتا مُسَیملہ کذاب بھی مدعی نبوت تھا خلیفہ اول حضر ت ابو بکر صدیقؓ کے دور خلافت میں اس کا سر قلم کر دیا گیا ملعون رشید بھی ایسا ہی مجرم ہے اس کو بھی ایسی ہی سزا ملنی چاہیے عوام کو اس بات کا سو فیصد یقین ہے کہ فوجی عدالت کے بغیر کسی اور عدالت سے انصاف نہیں ملے گا ۔بقول فیضؔ
مٹ جائیگی مخلوق تو انصاف کروگے
منصف ہو تو حشر اب اُٹھا کیوں نہیں دیتے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں