Mr. Jackson
@mrjackson
مضامین

داد بیداد ۔۔چین کا خوف ۔۔ڈاکٹرعنایت اللہ فیضی

ادھر چین کے شہر تیان جن میں شنگھائی تعاون تنظیم کا سربراہ اجلاس ہوا جو علا قائی تعاون کی سب سے بڑی تنظیم ہے اس کے ممبروں کی تعداد 10ہے تاہم یہ تنظیم دنیا کے 24فیصد رقبے اور 42فیصد آبادی کی نمائندگی کرتی ہے اس کامعاشی اور سماجی ڈھانچہ ایساہے کہ دوسری علاقائی تنظیم چاہے افریقہ کی ہو یورپ کی یا لا طینی امریکہ کی ہو اس کا مقا بلہ نہیں کرسکتی اس وجہ سے جب بھی SCOکا سربراہ اجلا س ہوتا ہے مغربی ممالک پر چین کا خوف طاری ہوتا ہے غیر جانبدار مبصرین اس خو ف کو نفسیات کی انگریزی اصطلاح میں سینو فو بیا (Cino Phobia) کا نام دیتے ہیں اس کی متعدد سیاسی، سماجی اور عسکری وجوہات ہیں شنگھائی تعاون تنظیم کے حوالے سے دو وجوہات خصو صی طور پر قابل ذکر ہیں پہلی وجہ ہے چین کی اچھی ساکھ اور اچھی شہرت، دوسری وجہ ہے چین کی معاشی اور صنعتی ترقی، ان وجوہات کی بناء پرچین خطے میں سب کے لئے قابل قبول سفارتی طاقت رکھتاہے چین کی اچھی ساکھ یہ ہے کہ وہ کسی دوسرے ملک کے اندرونی معاملات میں مدا خلت نہیں کرتا کسی دوسرے ملک پر حملہ نہیں کرتا کسی دوسرے ملک میں فوجی اڈے نہیں بناتا کسی دوسرے ملک سے فوجی اڈے مانگ کر پھڈا نہیں ڈالتا کسی دوسرے ملک کے خلاف دہشت گرد کاروائیوں کے لئے مسلح جتھوں کو مدد فراہم نہیں کرتا، منشیات کی سمگلنگ، اسلحے کی سمگلنگ اور منی لا نڈرنگ یا ہیومن ٹریفکنگ کے بڑے بڑے نیٹ ورک نہیں چلاتا ایک بے آزار اور رکم آزار ملک ہے چین کی معاشی طاقت بھی اس کی اچھی شہرت کی طرح نظر آنے والی خوبی ہے اور دنیا اس کی متعرف ہے چین کی پیدا واری صلاحیت میں ہر 10سال کی پالیسی مزید اضافہ کرتی ہے چین جو پالیسی بناتا ہے اُس پر سو فیصد عمل کرکے دکھاتا ہے 2015ء میں چین نے صنعتی شعبے کے لئے عالمی رہنما، مسا بقتی شراکت دار اور تقلید میں بے مثال کے تین درجوں میں ایک ہمہ گیر پالیسی بنائی تھی پالیسی میں سمی کنڈکٹرز، سو لرپینلز، کمرشل ہوائی جہازوں کی صنعت میں اختراعات، مصنوعی ذہانت، روبوٹکس، بُلٹ ٹرین، الیکٹرک گاڑیوں کی تیاری، جنگی جہاز، ڈرون اور بیٹریوں کی صنعتوں میں نئی ایجادات پر توجہ مرکوز کی گئی تھی دس شعبوں میں سے6شعبوں میں چین نے عالمی رہنما (Global leader) کی حیثیت حاصل کرلی دنیا میں سولر پینلز کی مارکیٹ کا 80فیصد، ڈرون جہازوں کی ما رکیٹ کا 75فیصد اور لیتھیئم آئن بیٹریوں کی مارکیٹ کا 75فیصد چینی کمپنیوں کے پا س ہے عالمی جی ڈی پی میں چین کا حصہ2010 میں 9فیصد تھا 2025میں 17فیصد ہوگیا ہے امریکی معیشت میں مینوفکچرنگ کا حصہ 16فیصد سے کم ہو کر 10فیصد رہ گیا ہے جو صرف 3ٹریلین ڈالر ہے اس کے مقابلے میں چین 4ٹریلین اور رہ60بلین ڈالر کے ساتھ دنیا میں پہلے نمبر پر ہے اور یہ عالمی معیشت کا 26فیصد ہے امریکہ، جرمنی اور بھارت مل کر بھی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتے اگر علاقائی تناظر میں دیکھا جائے تو 1990میں بھا رت اور چین معاشی لحاظ سے برابر تھے 2025ء مین چینی معیشت نے 6گنا ترقی کی ہے جبکہ بھارت 1990کی سطح پرہے یہ مسابقتی میدان میں چین کی بڑی فتوحات میں سے ایک ہے امریکی صدر ڈونلڈ ٹر مپ 2016ء میں پہلی بار اقتدار میں آئے تو ان کا ہدف یہ تھا کہ میں چین کو آگے بڑھنے نہیں دونگا، اپنے پہلے دور حکومت میں وہ بری طرح ناکام ہوا، دوسری بار حکومت میں آیا تو اس کے سر پر چین کا خوف سوار تھا چنانچہ تیان جن میں شنگھائی تعاون تنظیم کی سربراہ اجلاس نے مغرب کے سینو فوبیا (Cino Phobia) میں مزید اضافہ کر دیاہے کہ ”یہ ٹو ٹا ہوا تارا مہ کا مل نہ بن جائے“ مغر ب اس خوف میں بھی مبتلا ہے کہ چین اسلامی ملکوں کی حما یت جاری رکھیگا، روس کے ساتھ ملکر مضبوط بلاک بنائے گا، یہ خدشہ اور خطرہ بھی ہے کہ انڈسٹریل اینڈکمرشل بینک آف چائینہ (ICBC) چند سالوں میں عالمی معیشت میں ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کی اجا رہ داری کو چیلینج کرنے کی پوزیشن میں ہوگا خلاصہ کلام یہ ہے کہ مغرب میں چین کا خوف بلاوجہ اور بے سبب نہیں
بے خودی بے سبب نہیں غالب
کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button