327

آسمان تیری لحد پرشبنم افشانی کرے ۔۔۔۔۔ مولانا عبد الحی چترالی

کو ہ ہندوکش کی سب سے اونچی چوٹی تریچمیر کے دامن میں واقع گاوں شاگروم اپنے قدرتی حسن و جمال کے لحاظ سے بہت ہی پرکشش علاقہ ہے ۔ ہر روز آفتاب کی کرنوں کی ضیاء پاشی سے اس علاقے کا حسن دوبالا ہوجاتا ہے لیکن قدرتی حسن سے مالا مال یہ علاقہ اس وقت غم کی تاریکی میں ڈوپ گیا جب ۳۱ اپریل کی صبح علاقے کے ممتاز عالم دین مولانا زرنبی خان ؒ کی اچانک شہادت کی خبر ملی اور اس خبر سے علاقے کی فضاء سوگوارہوگی، سورج کا سنہری رنگ لوگوں کی غمگین نظروں میں پیلا پڑ گیا، چہچہاتے پرندے سہم کر اپنے گھونسلوں میں واپس چلے گئے، نیلگوں آسمان بھی غم و ماتم کا نظارہ پیش کرنے لگا ، اس وادی کے پہاڑ، ندیاں، چشمے ،أبشاریں سبھی سوگوار ہوگئے ۔ہر طرف آہ و فغاں تھی ، سسکیاں فضا میں ابھر رہی تھیں، ہر آنکھ اشک بار تھی، ہر دل فگار تھا، ہر ایک غم سے نڈھال تھا اور وادی کے باسیوں کا غم و اندوہ کی تصویر بننا کوئی تعجب خیز بات نہیں تھی کیونکہ آج علاقے کا ایک ایسا فرزند اپنے پھول جیسے تین بچوں اور ایک جوان سال بھائی کے ساتھ راہی آخرت ہوا جو اس علاقے کیلئے آفتاب و ماہتاب کی حیثیت رکھتا تھا ۔
بچپن سے مولانا مرحوم کے ساتھ بیتے ہوئے ایام کو تصور میں لاکر ان کی شخصیت پر کچھ لکھنے کی بارہا کوشش کے باوجود ہجوم غم کی وجہ سے قلم قرطاس پر دل شکستہ کی ترجمانی سے انکار کرتا رہا ، اور یہ بھی ایک مشکل انتخاب ہے کہ آپ کے اوصاف جمیلہ میں سے کس کس وصف کو زیب قرطاس کیا جائے ۔کاش حرف لفظ اور لفظ جملے بن کر میرے قلب و جگر کی ترجمانی کی صلاحیت رکھتے تو میں اس غم آگینی، علاقے کے ہر شخص کی سوگواری اور ہر آنکھ کی اشکباری کی تصویر کشی کرکے چشم دیدہ سے دکھا سکتاکہ ایک عالم ربانی کی جدائی پر شدت غم کا کیا علم ہوتا ہے ؟
وجیہہ چہرہ ، نورانی پیشانی ، متوازن قدو قامت ، لبوں پر مسکراہٹ ، تقویٰ کے پیکر ، تواضع و خاکساری کا مجسمہ، پر مغز اور نپی تلی گفتگو ، سراپا خلوص، لباس میں سادگی ، سیرت و صورت میں سنت کے سو فیصد پیرو، اور ایک متوزن شخصیت (Balanced Personality) کے حامل انسان تھے ۔
ساغر جو گل کھلے تھے وہ غنچے کہاں گئے
ہنگامہ بہار میں پامال ہوگئے
مولاناؒ ۲۰۰۴ ؁میں ملک کے مشہور و معروف دینی درسگاہ نصرۃ العلوم سے فارغ ہوئے تو اساتذہ کرام نے ان کو جامعہ ہذا میں تدریس کرنے کی پیش کش کی جسکو انہوں نے اپنی سعادت سمجھ کر قبول کیا ۔ اور بارہ سال تک کاروان علم کو چشمہ علوم نبوت سے سیراب کرتے رہے ، ٹھوس علمی استعداد او ر دل نشین انداز تدریس کی وجہ سے طلباء آپ سے بہت مانوس رہتے تھے ۔ آپ کی ذ۱ت پر علم کو فخر اور عمل کو ناز تھا۔
مولانا کے ا ستاذ محتر م، ملک کے نامور مذہبی اسکالر ، قلم کار مولانا زاہد الراشدی صاحب آپ کے بارئے میں تحریر فرماتے ہیں : ’’مولانا رحمہ اللہ انتہائی شریف النفس، عبادت گزار، معمولات کے پابند اور عمدہ مدرس تھے،،۔
أپ کے ایک اور استاذ مولانا محمد فیاض خان سواتی أب کے بارے میں رقم طرازہیں کہ:’’ مولانا بہت سی باطنی خوبیوں سے مالامال تھے جن میں سب سے نمایاں وصف ہمیشہ رات کے آخری پہر اٹھ کر تہجد گزاریاور بارگاہ الہی میں گریہ وزاری تھا،، .
بروز سوموار یکم مئی۷۱۰۲ کو صبح نو بجے ہزاروں اشکبار آنکھوں کے سامنے مولانا کو ان کے تین بچوں اور حوان سال بھائی کے ان کے ابائی گاؤں میں سپرد خاک کردیا گیا۔
اللہ تعالی مرحومیں کی قبور کو نور سے بھردیں اور ان پر اپنی رحمت کی شبنم افشانی کرتا رہے۔ اور پسماندہ گان کو صبر جمیل عطا فرمائیں۔
آسمان تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں