ایک اور یتیم کا اعلان……. شمس الرحمن تاجک
چترال کو دو اضلاع میں تقسیم کرنا ہر لحاظ سے ایک مناسب بلکہ بہتر فیصلہ ہے۔ مگر تیاری کے بغیر یہ فیصلہ رحمت کے بجائے زحمت بن سکتا ہے۔ الیکشن کمپئن اپنی جگہ، عمران خان صاحب کئی دفعہ گزشتہ پانچ سالوں میں چترال کا دورہ بھی کرچکے ہیں، ان کی مقبولیت کا گراف چترال میں کافی بہتر ہے مگر کچھ بالکل بنیادی سوالات اگر ان سے نہیں تو کے پی کے میں حکومت چلانے والے ان کی پارٹی کے لوگوں سے ضرور بنتے ہیں۔ جس میں سب سے اہم 2015 کے سیلاب متاثرین کی تاحال بحالی میں ناکامی سب سے بدترین سوال ہے۔ حالانکہ 2016 میں عمران خان اپنے دورہ چترال کے دوران ڈی سی چترال کی انفرااسٹرکچر کی بحالی کے سلسلے میں دیئے گئے بریفنگ کے بعد یہ فرما چکے تھے کہ بحالی کا کام چترال میں وفاقی حکومت کررہی ہے یا کرچکی ہے تو پھر ووٹ پرپی ٹی آئی کس طرح اپنا حق جتا سکتی ہے۔ گرم چشمہ روڈ پر جس پل کو عمران خان صاحب پیدل کراس کرکے تصویر بنا چکے تھے وہ پل تین سال بعد اب پیدل چلنے والوں کے لئے عذاب بن چکا ہے۔ چترال کے طول و عرض میں سڑکوں کا نظام بری طرح متاثر ہوا تھا اور کافی انتظار کے بعد جب حکومتی سطح پر کوئی بحالی کا کام ہوتا نظر نہیں آیا لوگوں نے خود سڑکوں کی مرمت شروع کی اور عوامی سطح پر مرمت شدہ ان سڑکوں پر آج تک مزید کوئی کام نہیں ہوا۔
اگر اس قدرتی آفات سے صرف نظر بھی کیا جائے اور بالکل بنیادی انسانی ضروریات پر توجہ دی جائے تو ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال چترال میں انسانی جان بچانے اور مختلف قسم کے ٹیسٹ کے لئے ضروری مشنری کی شدید قلت ہے۔ ایکسرے مشین چلانے کے لئے ہمیشہ بجلی اور جنریٹر کی عدم دستیابی کی شکایت موجود رہتی ہے۔ انتظامی لحاظ سے ہسپتال کا عملہ اتنا منظم یا پھر اسٹاف کی کمی کا شکار ہے کہ حکومت کی طرف سے مہیا کردہ ادویات لوگوں میں بروقت تقسیم کرنے کے بجائے زائدالمعیاد ہونے کے بعد دریا برد کرنا زیادہ بہتر تصور کرتے ہیں۔ خبر میڈیا پر آنے کے بعد تفتیشی کمیٹیاں بھی بنتی ہیں مگر یہ کمیٹیاں رپورٹ بناتی بھی ہیں یا نہیں اگر بناتی ہیں تو پھر اس کے نتائج عوام تک نہیں پہنچ پاتے۔ یہ بدانتظامی سے بھی بڑا المیہ ہے۔ کیا نئے ضلع میں ان بدانتظامیوں سے بچنے کا کوئی پلان تیار ہوا ہے؟
ٹی ایم او کے پاس چترال کا کچرا اٹھانے کے لئے کوئی بندوبست نہیں ہے، ان کے بقول نہ تو ان کے پاس گاڑیاں ہیں اور نہ ہی اسٹاف، نہ کچرا کنڈی۔چترال کے مضافات والے ایسی عیاشی کا تصور بھی نہیں کرسکتے کہ حکومتی اہلکار آکر ان کے گاؤں سے کچرا اٹھائیں یہاں چترال شہر روز کچرے کا ڈھیر بنتا جارہا ہے کوئی پرسان حال نہیں۔ بلکہ کسی کو پتہ بھی نہیں ہے کہ یہ کس کی ذمہ داری ہے۔ ایک اور سب سے اہم مسئلہ نادرا آفس میں اسٹاف کی کمی ہے۔ میں بذات خود تین مہینے سے ایک فیملی ممبر کے کارڈ کے حصول کے لئے نادرا آفس ہر دوسرے دن پہنچ جاتا ہوں اگر آپ صبح چھ بجے بھی نادرا آفس پہنچ جائیں دوپہر تک آپ کی باری نہیں آتی۔ کیونکہ پورے چترال کی پانچ لاکھ کی آبادی کو سروس مہیا کرنے کے لئے صرف ایک آدمی بیٹھا ہوتا ہے۔ تین مہینے میں ایک دفعہ خوش قسمتی سے میرا نمبر بھی آیا مگر آگے سے جواب آیا کہ آپ کا کارڈ غلطی سے باجوڑ ایجنسی چلا گیا ہے۔ اب بیس دن سے میں دوبارہ نادرا آفس کے اس مخصوص اور اکلوتے کاونٹر تک پہنچنے کی کوشش میں سرگرداں ہوں۔ اگر نیا ضلع بن جاتا ہے تو کم از کم اگلے بیس دن کے اندر میں اپنے کارڈ کے حصول کی امید تو رکھ سکتا ہوں۔
سب سے اہم ترین ایشو چترال کے لئے ایجوکیشن بورڈ کے قیام کا ہے۔ سابقہ تجربات کی روشنی میں نہیں لگتا کہ پشاور میں موجود مافیاز کبھی چترال میں بورڈ کے قیام کو عملی جامہ پہنانے کی اجازت دے گی۔ کیونکہ چترال سے سالانہ کروڑوں روپے فیس کی مد میں پشاور بورڈ اور ہر گلی کوچے میں کھلے ہوئے یونیورسٹیز کے پاس جمع ہوتا ہے اسی فیس سے ان کی دکانداری چلتی ہے۔ یہ مافیاز اپنی دکانداری بند نہیں ہونے دیں گے۔ کیایہ بات کسی چترالی یا غیر چترالی نمائندے نے کبھی عمران خان صاحب کی نوٹس میں لایا ہے کہ چترال کے مہذب اور علم دوست لوگ پشاور کی گلیوں میں ڈگری کے حصول کے لئے ہر روز کس طرح ذلیل و خوار ہورہے ہوتے ہیں۔خاص طور پر جب بیٹیوں کے ڈگری کے حصول کا مسئلہ درپیش ہو۔
عمران خان صاحب ملک بھر کی طرح چترال میں بھی ہر دلعزیز لیڈر کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ مگر کیا ہم ان سے توقع رکھ سکتے ہیں کہ وہ ضلع اپر چترال کے اعلان کے بعد ڈی ایچ کیو ہسپتال چترال کا دورہ کریں گے۔ کسی وارڈ کے اندر جاکر دو منٹ ٹھہر سکتے ہیں؟ نادرا آفس جاکر اتنی بڑی لائن اور ایک فرد کا سہولت کار کے طور پر موجود ہونے کی بابت پوچھ سکتے ہیں؟ یا اپنے ساتھ موجود پرویز خٹک صاحب یا ایجوکیشن منسٹر سے پوچھ سکتے ہیں کہ چترال ایجوکیشن بورڈ بننے میں کیا چیز مانع ہے۔ یقیناًوہ بہت بڑے لیڈر ہیں وہ یہ سب نہیں کرسکتے۔ کم از کم اتنا تو کرسکتے ہیں کہ ہندوکش ہوٹل کے پرتعیش رہائش گاہ کی طرف جاتے ہوئے راستے میں موجود کچرے کے ڈھیر کا معائنہ کریں اور جس کو وہ ذمہ دار سمجھتے ہیں اس سے اس سلسلے میں باز پرس کریں۔ ورنہ ضلع اپر چترال بھی ایک گھر میں موجود دوسرا یتیم ہوگا۔