صدا بصحرا ۔۔۔۔۔ چابہار او ر گوادر۔۔۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی ؔ
خبر آئی ہے کہ بھارت سے چا بہار کی بند ر گاہ کے ذریعے گندم ، چاول اور دیگر اشیا ئے خوراک کی پہلی کھیپ افغانستان پہنچے گی تو جشن کا سماں نظر آئے گا اس جشن کی تیاریاں کی گئی ہیں چا بہار ایرانی بندر گاہ ہے بھارت نے چا بہار کی بند ر گاہ سے قند ہار، ہرات اور کابل تک تجارتی شاہر اہ کی تعمیر کا کام مکمل کر کے اشیا ئے خوراک کی پہلی کھیپ روانہ کی ہے اگر نقشے پر غور سے دیکھا جائے تو چا بہار کی بند ر گاہ ہماری گوادر والی بندر گاہ کے مقابلے میں افغانستان اور بھارت کی دوستی کا ثبوت ہے جس دور میں امریکہ نے پاکستان کو ایران کے ساتھ معاشی ، تجارتی اور ثقافتی تعلقات ختم کر نے پر مجبور کیا گیس پائپ لائن منصوبے سے پاکستان کو دست بردار کیا کوئیٹہ سے زاہد ان اور مشہد جانے والے قافلوں پر امریکیوں نے پے درپے حملے کرکے دونوں ہمسایہ ملکوں کو ایک دوسرے سے دور کیا ان سالوں میں بھارت نے چا بہار کی بندر گاہ سے افغانستان کے لئے شاہراہ کی تعمیر پر سر مایہ کاری کی اُسکا مقصد یہ تھا کہ امریکہ ،بھارت اور افغانستان زمینی راستے کے لئے پاکستانی حکومت کے محتاج نہ رہیں 2006 ء سے لیکر 2016 ء تک چابہار سے کا بل آنے والی شا ہر اہ کے نقشے اخبارات میںآتے رہے یہ وہ دور تھا جب گوادر کی بندر گاہ تعمیر ہوچکی تھی اس کو چلانے کا ٹھیکہ بھی سنگار پور کی کمپنی کو دیا گیا مگر امریکہ کے دباؤ پر سنگار پور کی کمپنی کا م نہ کرسکی چینی کمپنی نے ٹھیکہ لیا چینی کمپنی کو بھی کام کر نے نہیں دیا گیا گوادر میں گہرے سمندر کی بندر گاہ اب تک امریکہ کے رحم و کرم پر ہے یاد ش بخیر سابق صدر جنرل پرویز مشرف کہا کرتے تھے کہ ملکی بقا، سلامتی اور قومی ترقی واستحکام کے لئے پالیسیوں کا تسلسل بہت ضروری ہے چابہار سے افغانستان تک شاہراہ کی تعمیر میں پالیسیوں کا تسلسل نظر آتا ہے گوادر بندر گاہ کی ناکامی میں پالیسیوں کے ٹو ٹنے کا عمل دخل ہمیں نمایاں طور پر دکھا ئی دیتا ہے چاہ بہار سے کابل تک شا ہر اہ تعمیر کر نے کا منصوبہ کانگریس کی حکومت میں شروع ہوا منموہن سنگھ کے بعد بی جے پی کا وزیراعظم نر نید ر مودی آیا اُس نے کام کو جاری رکھا پالیسی میں فرق یا تعطل آنے نہیں دیا فوج اور عدلیہ نے مداخلت نہیں کی پارلیمنٹ نے رکاؤ ٹ نہیں ڈالی اپوزیشن نے شور نہیں مچا یا منصو بہ چلتا رہا اور تکمیل کو پہنچ گیا بھارت ، امریکہ اور افغانستان کو لاکھ بُرا کہیں لیکن یہ کریڈٹ انکو جاتا ہے کہ اُنہوں نے ایک منصو بے پر کام شروع کر کے اس کو مکمل کیا اس کے مقابلے میں گوادر کی کہانی پڑھیں تو دل خون کے آنسو رونے پر مجبور ہوجاتا ہے پاکستان کے نامور وزیراعظم حسین شہید سہر وردی نے 1954 ء میں گوارد کا علاقہ سلطنت اومان سے خرید لیا وہ اس کو بندر گاہ کا درجہ دیکر پاکستاان کو ایشیا اور یورپ کے درمیان تجارت کا مرکز بنا نا چاہتے تھے اُن کی سکیم واضح تھی اگر حسین شہید سہروردی 5 سال تک وزیراعظم رہتے تو دوبئی سے پہلے گوادر کی بندرگارہ بن چکی ہوتی اور پاکستان کی ترقی میں سنگ میل کی حیثیت اختیار کر چکی ہوتی مگر اُن کی حکومت کا خاتمہ کر کے ان کو گھر بھیجد یا گیا اس کے دیگر برے نتائج کے علاوہ ایک ناگوار نتیجہ یہ نکلا کہ گوادر کی بندر گاہ 53 سالوں تک تجارتی مرکز نہ بن سکی جنرل مشرف نے بندر گاہ بنائی تو اس کی حکومت ختم کر دی گئی نواز شریف نے گوادر کو CPEC کے ذریعے دوبارہ زند ہ کر نے کا پروگرام بنا یا تو اس کا بوریا بستر گول کر دیا گیا پالیسیوں کاتسلسل کسی شخصیت کے گردنہیں گھومتا یہ قومی مفاد،ملکی تعمیر و ترقی کو اپنا محور بنا تا ہے افغانستان کے ساتھ ہمارے تعلقات میں سرد مہر ی کی وجہ بھی یہی ہے کہ ہر آنے والی حکومت پچھلی حکومت کے معاہدوں کو مستر د کرتی ہے باہمی اعتماد ختم ہوجاتا ہے اگر چاہ بہار کے راستے بھارتی مال کی پہلی کھیپ کا بل ’’ پہنچنے ‘‘ پر جشن کا سما ں ہوا تو ہمیں اس پر کوئی تعجب نہیں ہوگا ’’ اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں ‘‘