داد بید اد ۔۔۔سند ھ میں تعلیم و صحت۔۔۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی ؔ
ایک ہفتہ خیر پور ، سکھر ، جیک اباد ، لاڑ کانہ اور اندرون سندھ کے قریبی دیہات میں گذارنے کے بعد اندازہ ہوا کہ سندھ کی اچھی باتیں منظر عام پر نہیں آتیں تعلیم کے شعبے میں سندھ کے اندر ابتدائی و ثانوی تعلیم مفت ہے اعلی تعلیم کا خرچہ اتنا کم ہے کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں کسی کو باور بھی نہیں آئے گا سندھ کے ہسپتالوں میں بڑے بڑے اپریشن مفت ہوتے ہیں یہاں تک کہ گردے کی تبدیلی ، جگر کی تبدیلی بھی مفت ہوتی ہے کینسر جیسے موذی مرض کا دائمی اور موثر علاج سندھ کے سرکاری ہسپتال میں مفت ہوتا ہے مریض یا مریضہ کی تصویر کے ساتھ کبھی وزیراعلیٰ کی تصویر اشتہار میں نہیں دی جاتی سندھ حکومت کہتی ہے عوام کے ٹیکس کا پیسہ ہے عوام پر خر چ ہوتا ہے اشتہار کی کیا ضرورت ہے تعلیم اور صحت کی سہولیات فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے ،شیخی بگھا ر نے کی کیا ضرورت ہے ؟گلگت بلتستان اور پنجاب سے طلبہ اور طالبات اعلیٰ تعلیم کے لئے سندھ یونیورسٹی جام شو رو ، شاہ لطیف یونیورسٹی خیر پور ،چانڈ کامیڈیکل کالج لاڑکانہ ، مہران یونیورسٹی اور دیگر اداروں میں جاتے ہیں حالانکہ سندھ حکومت کسی کو اشتہار دے کر نہیں بلاتی پرو پیگینڈا نہیں کرتی سندھ کی سرکاری یونیورسٹیوں کا سسٹم عوام دوست اور علم دوست ہے خیبر پختونخوا ، پنجاب اور وفاقی حکومت کی یونیورسٹیوں میں سمسٹر فیس اور ہا سٹل رینٹ ملا کر ایک سمسٹر کے لئے کم از کم 64 ہزار روپے جمع کرانے پڑتے ہیں بعض حالات میں یہ رقم 80 ہزر روپے تک پہنچ جاتی ہے سند ھ کی سرکاری یونیورسٹیوں اور پروفیشنل کالجوں میں ایسا نہیں ہے سندھ حکومت یونیورسٹیوں کو سبسڈی یعنی زرِ اعانت فراہم کر تی ہے بی ایس کے لئے سمسٹرفیس 8 ہزار ، ایم ایس سی کے لئے 10 ہزار ، ایم فل کے لئے 12 ہزار اور پی ایچ ڈی کے لئے 16 ہزار روپے ہے ہاسٹل رینٹ 3 ہزار روپے فی سمسٹر ہے یونیورسٹی کی 50 گاڑیاں 100 کلومیٹر کے فاصلے سے طلبہ و طالبات کو مفت ٹرانسپورٹ فراہم کر تی ہیں پشاور، مردان ، ایبٹ اباد اور ڈیر اسماعیل خان میں کوئی اس پر باور نہیں کریگا یہ ایک خواب لگے گا بلکہ سچ پو چھئے تو دیوانے کا خواب لگیگا سندھ کی قیادت میں آپ ہزاروں کیڑے نکالیں مگر یہ کریڈٹ آپ اُن سے نہیں چھین سکتے کسی سند ھی وڈیر ے نے حکومت میں آکر یہ نہیں کہا ’’بابا! یونیورسٹی پر اتنے پیسے کیوں ضائع کر تے ہو ‘‘ کسی سند ھی جاگیر دار نے حکومت سنبھال کر یہ نہیں کہا ’’ بابا ! یونیورسٹیوں کو خود مختار ی دو ،اپنا کما ئینگے ہم پر بوجھ نہیں بنیگے ‘‘ کسی سندھی سیاستدان نے یہ نہیں پوچھا کہ فلان یونیورسٹی حکومت کو کتنی آمد نی دیتی ہے ؟ اگر نہیں دیتی تو بند کر و ‘‘ کسی سندھی وزیر تعلیم نے یہ نہیں کہا ’’ بابا ! یونیورسٹی کا پروفیسر ایک لاکھ روپے تنخوا کیوں لیتا ہے کسی بے روزگار نوجوان کو 20 ہزار روپے دید و تو خوشی سے کام کریگا ‘‘ خیبر پختونخوا میں باربار یہ بات دہرا ئی جاتی ہے یونیورسٹیوں کے اساتذہ کو بوجھ سمجھا جاتا ہے اعلی ٰ تعلیم کو صرف سرمایہ دار اور جاگر دار کی وراثت سمجھا جاتا ہے سندھ کے کلچر میں ایسا نہیں ہے خیبر پختونخوا ، پنجاب اور وفاقی دارالحکومت میں کسی کو یقین نہیں آئے گا کہ سندھ کے سرکاری ہسپتال جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل کالج کراچی میں کینسر کے یٹو مر کا اپریشن سائبر نائف روبوٹ کی جدید ترین ٹیکنا لوجی کے ذریعے مفت کیا جاتا ہے اس اپریشن پر 50 لاکھ روپے کا خر چہ آتا تھا جد ید ٹیکنا لوجی نے اس کو آسان بنا دیا ہے اور پاکستان میںیہ ٹیکنا لوجی سندھ کے سرکاری ہسپتال کے سوا کسی کے پاس نہیں ہے سندھ حکومت سہولت دیتی ہے اس کا پروپیگینڈہ نہیں کرتی ہر سال سرکای ہسپتا لوں میں نئی ٹیکنالوجی لائی جارہی ہے سائبر نائف روبوٹ کی ٹیکنالوجی 2012 ء میں لائی گئی تھی اس سال بیٹ سکین کی ٹیکنالوجی متعارف کرائی گئی ہے اس طر ح ثقافتی ورثے کے تحفظ کے شعبے میں سندھ حکومت بہت حساس اور فعال ہے تمام عمارتو ں میں سندھی ثقافت کو نمایاں کیا گیا ہے شا ہراہوں پر جو دروازے لگائے گئے ہیں ان کو سندھی اجر ک اور دیگر ثقافتی مصنوعات کے خوبصورت رنگوں سے مزین کیا گیا ہے اس پالیسی پر ہر دور میں عمل ہوتا ہے مگر اس کا پرو پیگینڈنہیں ہوتا شاید سندھ حکوت نے پر وین شاکر کا تجز یہ پلے باند ھ لیا ہے
میں سچ بولو نگی مگر ہار جاؤنگی
وہ جھوٹ بولے گا اور لاجواب کردے گا