حکومتی رِٹ کہاں ہے؟؟؟ ۔۔۔۔۔ پروفیسررفعت مظہر
25 نومبر کو فیض آباد چوک راولپنڈی میں جو کچھ ہوا ،اُسے دیکھ کر نوازلیگ کے بہی خواہوں کی نگاہیں شرم سے جھُک گئیں،قوم مایوس اور دِل گرفتہ بھی۔ اقوامِ عالم میں پاکستان کا امیج جتنا اِس واقعے بلکہ سانحے سے خراب ہوا ،شاید گزشتہ سات عشروں میں بھی نہیں ہوا ہوگا۔ ایک طرف دھرنے پہ بیٹھے ڈیڑھ دو ہزار لوگ ،جن کا ایجنڈا سیاسی لیکن بہانہ رسولِ اکرمﷺ کے ناموس اور ختمِ نبوتؐ کا، جب کہ دوسری طرف پولیس ،ایف سی اور رینجرز کے آٹھ ہزار نوجوان لیکن چشمِ فلک نے دیکھا کہ دھرنے والوں نے اُن کی دوڑیں لگوا دیں۔ جب کچھ بَن نہ پڑا تو پورے پاکستان میں نیوزچینلز کو پیمرا کے ذریعے بند کروا دیا گیاجس سے حکومتی رِٹ کی رہی سہی ساکھ بھی مَٹی میں مِل گئی۔
پتہ نہیں یہ ناموسِ رسالتؐ کے ’’ٹھیکیدار‘‘ کہاں سے آگئے ہیں۔ کسی کو یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ حضورِ اکرمؐ کی محبت ہر مسلمان کے دِل میں جاگزیں ہے اور جان سے عزیز ۔ آقاؐ سے محبت کے بغیر تو ہمارا ایمان ہی مکمل نہیں ہوتا۔ اپنی سیاسی دُکانداری چمکانے کے لیے کچھ لوگ لاہور سے چلے اور فیض آباد انٹر چینج پہنچ گئے۔ فیض آباد تک پنجاب حکومت کی عملداری تھی لیکن اِن لوگوں کو راستے میں کسی نے روکا نہ ٹوکا جس پہ یہ تاثر اُبھرا کہ شاید پنجاب حکومت اِس معاملے سے لاتعلق ہے۔ یہ لوگ انٹرچینج پر دھرنا دے کر بیٹھ گئے اور بائیس دِنوں تک جُڑواں شہروں (راولپنڈی اسلام آباد) کے شہری عملی طور پرقید رہے۔ وزیرِداخلہ احسن اقبال مذاکرات کی رَٹ لگاتے رہے لیکن دھرنے پہ بیٹھے لوگ ٹَس سے مَس نہ ہوئے۔ اُن کا ایک ہی مطالبہ تھا کہ پہلے وزیرِقانون زاہد حامد استعفےٰ دے ،اُس کے بعد مذاکرات پر بات ہوگی۔ وزیرِداخلہ بار بار میڈیا پر آکر یہی کہتے رہے کہ ختمِ نبوت کا قانون ساری سیاسی جماعتوں نے مِل کر منظور کروایا، زاہد حامد کا قصور تو صرف اتنا ہے کہ اُس نے یہ قانون پارلیمنٹ میں پیش کیا۔بعد اَز خرابئ بسیار ہوا وہی جو دھرنے والوں نے چاہا، زاہد حامد کو استعفےٰ دینا پڑا اور وہ بھی فوج کی مداخلت کے بعد۔ اگر تھوک کے چاٹنا ہی تھا تو دھرنے کے پہلے ایک دو دِنوں میں ہی چاٹ لیتے، سو پیاز اور سو جوتے کھانے کی کیا ضرورت تھی۔بُری ہزیمت کے بعداب احسن اقبال یہ کہتے ہیں کہ دوسرے ادارے ایگزیکٹو کو موقع نہیں دیں گے تو کارکردگی بہتر نہیں ہوگی ۔ اُن کا اشارہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے دبنگ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی طرف تھا جنہوں نے تین دنوں میں دھرنا ختم کرنے کا حکم دیا تھا۔
27 نومبر کو پاک فوج کی نگرانی میں حکومت اور تحریکِ لبّیک کے مابین ایک معاہدہ طے پایا جس پر پاک فوج کے میجر جنرل اظہر نویدنے بطور گارنٹر دستخط کیے۔ اِسے کسی بھی صورت میں ’’معاہدہ‘‘ قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ معاہدے ہمیشہ کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر ہوتے ہیں جبکہ یہ معاہدہ تحریکِ لبّیک نے اپنی مرضی سے لکھا اور اِس پر وزیرِداخلہ اور سیکرٹری داخلہ نے آنکھیں بند کرکے دستخط کیے۔ یہ معاہدہ آئین و قانون کے یکسر منافی ہے جس میں تمام صورتِ حال کا ذمہ دار حکومت کو ٹھہرایا گیا ہے اور ریاست مزید کمزور ہوتی دکھائی دیتی ہے۔ شایداِس دھرنے کا بنیادی مقصدہی حکومت کو تماشا بنانا اور کمزور ثابت کرنا ہوجس میں تحریکِ لبّیک کو بھرپور کامیابی ملی۔ معاہدے میں یہ بات لکھی گئی ہے کہ ایکشن کے دوران ہونے والے تمامتر نقصانات کا ازالہ حکومت کرے گی۔ بائیس روزہ دھرنے میں پولیس ،ایف سی اور رینجرز پر اُٹھنے والے بائیس کروڑ اخراجات کے علاوہ دھرنے والوں نے پولیس کی اور پرائیویٹ گاڑیاں جلائیں ،ایک پٹرول پمپ اور ایک پلازے کو آگ لگاکر اربوں روپے کا نقصان پہنچایا لیکن اِس کا ازالہ اب حکومت کرے گی اور وہ بھی مجبورومقہور قوم کی نَس نَس سے نچوڑے گئے خون سے جو ٹیکسوں کی صورت میں متواتر نکالا جاتا ہے۔ نقصان کے ازالے کی بات کو تو رکھیئے ایک طرف ،یہاں تو صورتِ حال یہ تھی کہ ڈی جی رینجرز پنجاب اظہر نویددھرنے کے شُرکاء کو واپسی کرائے کی مَد میں ہزار روپے فی کَس دیتے نظر آئے جِسے دیکھ کر نہ صرف پوری قوم کا سَر شرم سے جھک گیا بلکہ یہ عمل شَرپسندوں کی حوصلہ افزائی بھی کر گیا۔
اِس معاہدے میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ 25 نومبر کو ہونے والے ایکشن کے ذمہ داروں کا 30 دنوں میں تعین کرکے اُن کو قرار واقعی سزا دی جائے گی۔ دھرنے کے شرکاء تو تسلیم نہیں کریں گے لیکن حقیقت یہی ہے کہ تحریکِ لبّیک 22 دنوں تک فیض آباد میں بیٹھی رہی ۔ تحریک کے سربراہ خادم حسین رضوی حکمرانوں ،سیاستدانوں اور عدلیہ کو ننگی اور گندی گالیوں سے نوازتے رہے، وزراء کے گھروں پر حملے کرتے رہے ،موٹرویز اور راستے بند کرتے رہے ،پولیس اور ایف سی کے سو سے زائد افراد کو زخمی کیا جن میں سے لگ بھگ 70 افراد کی ٹانگیں ٹوٹی ہوئی ہیں لیکن معاہدے میں لکھ دیا گیا کہ تحریکِ لبّیک کسی بھی قسم کے تشدد پر یقین نہیں رکھتی۔ اگر یہ تشدد نہیں تو پھر تحریکِ لبّیک ہی سے ’’تشدد‘‘ کی تشریح کروا کر اِسے آئین کا حصّہ بنا دینا چاہیے تاکہ ’’سند رہے اور بوقتِ ضورت کام آئے‘‘۔ ایکشن کے ذمہ داروں کا تعین تو واضح ہے۔ محترم جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ہی دھرنا ختم کروانے کے لیے انتظامیہ کو تین دنوں کی مہلت دی تھی اِس لیے وہی ذمہ دار ٹھہرتے ہیں۔ دراصل یہاں محترم جسٹس صاحب سے ایک غلطی ہو گئی ۔ وہ تو آئین وقانون کے عین مطابق چلے لیکن یہ بھول گئے کہ پاکستان میں تو عشروں سے ’’جس کی لاٹھی ،اُس کی بھینس‘‘ ہی آئین بھی ہے اور قانون بھی۔
27 نومبر کو فیض آباد انٹرچینج پر دھرنے کے خلاف درخواستوں کی سماعت کے دوران جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ عدالت نے مظاہرین سے فیض آباد خالی کروانے کا حکم دیا تھا ،معاہدے کا نہیں۔ اُنہوں نے معاہدے پر ریمارکس دیتے ہوئے کہا ’’یہ معاہدہ ہے یا معافی نامہ ؟۔آپ نے دھرنے والوں کے سامنے سرنڈر کیا اور اپنی ایک بھی بات نہیں منوائی۔ آپ نے انتظامیہ اور پولیس کو ذلیل کروا دیا۔ ججز کو گالیوں پر معافی معاہدے میں کیوں شامل نہیں‘‘۔ اُنہوں نے معاہدے میں عسکری کردار پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ قانون شکنی کرنے والوں اور انتظامیہ کے درمیان فوج کیسے ثالث بن سکتی ہے ؟۔ کیا آئین کے تحت آرمی چیف ایگزیکٹو سے الگ ہیں؟۔ اُنہوں نے کہا ایک سازش کے تحت اسلام آباد پولیس اور انتظامیہ کو ناکام بنایا گیا ،کب تک قوم کے ساتھ یہ تماشا چلتا رہے گا؟۔ فوج اپنا کردار آئینی حدود میں ادا کرے ،جن فوجیوں کو سیاست کا شوق ہے وہ ریاست کی بندوق واپس کرکے ریٹائرمنٹ کے بعد سیاست میں آئیں۔ دبنگ جسٹس صاحب نے کہا ’’میں جانتا ہوں اِن باتوں کے بعد میری زندگی کی کوئی ضمانت نہیں ،مار دیا جاؤں گا یا پھر لاپتہ کر دیا جاؤں گا‘‘۔ جسٹس صاحب کی اِن تلخ لیکن مبنی بر حقائق باتوں کا وزیرِداخلہ کے پاس بس ایک ہی جواب تھا کہ ’’یہ ہماری مجبوری تھی‘‘۔
اِس عجیب وغریب معاہدے پر سابق وزیرِاعظم میاں نوازشریف نے بھی سخت برہمی کا اظہار کیا ۔ جس سے صاف ظاہر ہے کہ اُنہیں بھی اِس معاہدے سے لاعلم رکھا گیا۔ اُنہوں نے وزیرِداخلہ احسن اقبال سے سوال کیا کہ دھرنے کے پیچھے کون تھا اور معاہدے کے نکات کِس نے طے کیے؟۔ پہلی کوشش میں ناکامی کے بعد آپریشن کا متبادل منصوبہ کیا تھا؟۔ آپریشن سے پہلے تمام وسائل کی فراہمی کو یقینی کیوں نہیں بنایا گیا؟۔ جس پر وزیرِداخلہ احسن اقبال نے کہا ’’سب کچھ علیحدگی میں بتاؤں گا‘‘۔ یہ علیحدگی میں بتانے والی بات بہت سے سوالات چھوڑ گئی جن کا جواب اہلِ نظر کو تلاش کرنا ہو گا۔