داد بیداد۔۔۔۔معا ہد ہ راولپنڈی۔۔۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی ؔ
راولپنڈی اور اسلام اباد کے شہریوں کو 21 دنوں تک عذا ب میں مبتلا کر نے کے بعد محاصر ہ اُٹھا لیا گیا مگرجلوس پسپا نہیں ہوا بلکہ جلوس نے اپنے شرائط منوالیے معاہد ے کی 6 شِقوں میں کوئی شق حکومت کے حق میں نہیں ہے تمہید میںیہ بات منوائی گئی ہے کہ آتشیں اسلحہ ، ہنیڈگرینیڈاور گولہ بارود لیکر حملہ کرنے والی ’’ مکتی باہنی ‘‘ پرامن تحریک تھی ایک سینئر صحافی نے اس تمہید کو موجودہ صدی کا سب سے بڑا جھوٹ قرار دیا ہے اس کی شق نمبر 5 میں سرکاری اور نجی املاک کے نقصانات کی تلافی کا بوجھ حکومت پرڈال دیا گیا ہے ایک سے پانج تک جو شقیں ہیں ان میں حملہ آوروں کی جگہ حکومت کو موردِ الزام ٹھہر ا یا گیا اور وزیر خزانہ کے استعفیٰ سمیت تمام باتیں بلو ائیوں کے حق میں ہیں مگر 6 کی 6 شقوں میں ہارنے کے با و جود حکومت مارچ میں ہونے والی سینیٹ انتخابات کو بچا نے میں وقتی طور پر کامیاب ہوئی اگر سابق وزیر اعظم نواز شریف ، مریم نواز، کپٹن صفدر ، سعد رفیق ،عابد شیر علی اور خواجہ آصف کی زبانوں کو لگام دی گئی تو اسمبلیاں اپنی مدت پوری کرینگی مارچ میں سینیٹ کے انتخابات بھی ہونگے اس حوالے سے معاہد ہ راولپنڈی کو صلح حد یبیہ سے تشبیہہ دی جاتی ہے صلح حدیبیہ میں بنی کریم ﷺنے مشرکین مکہ کی تمام شرائط کو تسلیم کر لیا تھا یہاں تک کہ انہو ں نے نبی کریم ﷺ کے نام کے ساتھ محمد الرسول اللہ لکھنے پر اعتراض کر کے محمد بن عبداللہ لکھو ایا جسے حضور ﷺ نے تسلیم کیا اس میں مصلحت تھی اور بہت تھوڑے عرصے میں یہ معا ہد ہ فتح و کامرانی کا پیش خیمہ ثابت ہوا معا ہد ہ راولپنڈی میںیہ بات شامل کی گئی ہے کہ توڑ پھوڑ او ردیگر جرائم میں پکڑے گئے مجرموں کو رہا کیا جائے گا پنجاب حکومت سے تسلیم کر وانے کے لئے مطالبات کی الگ فہر ست دی گئی ہے 25 نومبر کو 19 واں دن پورے ہونے کے بعد قومی شاہر اہ خالی کر انے میں ملوث سرکاری حکام کے خلاف انکو ائر ی کروانے اور ان کو سز ادینے کا مطالبہ تسلیم کیا گیا ہے العرض کوئی غیر قانونی نکتہ ایسا نہیں جس کو تسلیم نہ کیا گیا ہو اگر 27 نومبر 1971 ء کو ڈھاکہ میں مکتی باہنی کے ساتھ مذاکرات ہوتے تو ان کے مطالبا ت بھی 21 دنوں تک اسلام اباداور راولپنڈی کے جڑواں شہروں کو یر غمال بنانے والوں سے مختلف نہ ہو تے نئی دہلی ، کابل، واشنگٹن اور تل ابیب میں اس پر یقیناًخوشی کی لہردوڑ گئی ہوگی کہ حکومت پاکستان نے بلو ائیوں کے سامنے گھنٹے ٹیک دئیے اس بلو ے کے لئے دشمن نے کمال عیاری کیساتھ نبی کریم ﷺ کا مبار ک نام استعمال کر وایا تھااگر چہ شریعت مطہر ہ کی روشنی میں سرورکا ئنات کے مبارک نام کی توہین کی گئی مگر یہ دشمن کا مسئلہ ہی نہیں ہے یہ ہمارا مسئلہ ہے اب اخبارات میں تجز یے آئینگے تو معلوم ہوگا کہ خادم حسین رضوی، افضل قادری اوروحید نور سمیت کوئی بھی لیڈر عالم دین نہیں تھا سوا د اعظم اہل سنت والجماعت کے نامور علماء مفتی منیب الرحمن علامہ طاہر القادری ، مولانا انس نورانی اور علامہ صدیق علی چشتی نے خود کو اس بلوے سے دور ہی رکھا کسی نامور سجا دہ نشین نے بلو ے میں شرکت نہیں کی ، گو لڑہ شریف کے پیر نے مصلحت کی کوششوں میں حصہ لیا اس حوالے سے ان کے ایک دو بیانات آگئے بلو ائیوں کو ایم کیو ایم اور تحریک طالبان سے بھی تشبیہہ دی جاسکتی ہے دونوں تنظیموں نے اس سے پہلے یہی کام کیا ہے 25 نومبر کو حکومت نے قومی شاہر اہ کھولنے کی کوشش کی تو سوشل میڈیا اور ٹی وی چینیلوں کا منفی کردار سامنے آیا جس کے ذریعے کراچی ، لاہور اور دیگر شہروں میں بلوہ کر ایا گیا اس طرح یہ بات عیاں ہوگئی کہ موجودہ دور میں دشمن کے لئے پاکستان کے دس بارہ شہروں میں ایک ساتھ آگ لگانا بہت آسان ہے دس بارہ چینیلوں کو فنڈنگ کی جائیگی تو ملک بھر میں ہنگا مے پھوٹ پڑینگے فوج کے جوان ان ہنگاموں پرکنٹر ول کر نے کے لئے شہروں کا رُخ کرینگے تو دشمن سرحدوں پر دباؤ بڑھا ئے گا یہاں آزادی صحافت کی نئی بحث چھڑ سکتی ہے اس بات کا جائز ہ لیا جاسکتا ہے کہ حکومت نے الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر ہنگا می حالات میں پابندی کیوں لگائی ؟ کیا حکومت کو اس کا اختیار تھا ؟ یہاں چین ، روس ، ایران اور سعودی عر ب کی مثال دی جاسکتی ہے جہاں اس طرح کی پابندیاں مستقل طور پر نافذ العمل ہیں او ر یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ پاکستان کو بھی ایسے قوانین کی ضرورت ہے