صدا بصحرا۔۔۔۔عجیب ناموں کی جنگ۔۔۔ڈاکٹر عنایت اللہ فیضیؔ
اچھی خبر یہ ہے کہ پاک فوج نے افغانستان کی سرحد پر باڑ لگانے کا کام جاری رکھا ہوا ہے۔ بھارت ، امریکہ اور افغان فورسز کی طرف سے بار بارمزاحمت کے باوجود افغان سرحد کا بڑا حصہ بند کردیا گیا ہے۔ اگلے چند مہینوں میں بھارتی سرحد کی طرح افغان سرحد کو بھی مکمل سر بمہر (seal) کردیا جائے گا۔ اس اچھی خبر کے ساتھ ایک تشویشناک خبر آگئی ہے۔ تشویشناک خبر یہ ہے کہ دشمن نے عجیب ناموں سے ایسی جنگ کا منصوبہ بنایا ہے جو سرحدی خلاف ورزی کے ذریعے نہیں لڑی جائیگی۔ بلکہ ہمارے گھر کے اندر ہماری مسجدوں میں ، بازاروں میں اور دفتروں میں لڑی جائیگی۔ اس جنگ کے دو انگریزی نام ہیں ۔ ایک نام ہے سائبر وار (Cyber War) دوسرا نام ہے ففتھ جنریشن
( 5th Generation War)دونوں ایسے نام ہیں جن کا اردو ترجمہ اب تک نہیں ہوا۔ دونوں جنگوں کے لئے کمپیوٹر ، موبائل فون ، انٹر نیٹ ، ریڈیو اور ٹیلی وژن چینلوں کو استعمال کیا جائے گا ۔ بھارت نے 1960ء کے عشرے میں فیصلہ کیا تھا کہ 65ء کی جنگ کے تجربے کو سامنے رکھ کر پاکستان پر باہر سے حملہ کرنے کے بجائے اسکو اندر سے کمزورکیا جائے۔ 1967ء اور 1971ء کے درمیاں 4سالوں میں مشرقی پاکستان کو ٹارگٹ بنایا گیا اور اس ٹارگٹ کے لئے صرف ایک نعرہ دیدیا گیا۔نعرہ یہ تھا کہ ہر پاکستانی ہمارا دشمن ہے اس طرح پاک فوج کو بھی مختلف نعروں کے ذریعے نشانہ بنایا گیا ۔ یہ نعرہ سکولوں میں بھی پہنچا۔ ریڈیو سٹیشنوں کے ذریعے گھروں تک بھی پہنچایا گیا۔ اساتذہ اور صحافیوں کو ہراول دستہ بنایا گیا مکتی باہنی کے نام سے ایک گروہ کو مسلح کیا گیا۔اس گروہ کو مغربی بنگال میں فوجی تربیت دیدی گئی۔ اور گوریلا جنگ کے لئے تیا ر کیا گیا۔1967 ء سے 1970ء تک کسی کو اس کا اندازہ نہیں تھا ۔ 1970 ء کی انتخابی مہم میں اس بات کا اندازہ ہوا مگر پانی سر سے گذر چکا تھا۔ مارچ 1971ء سے دسمبر1971ء تک مکتی باہنی نے گھر گھر، دفتر دفتر، مسجد مسجد ، ہر جگہ ،ہر گاؤ ں ، ہر بازار اور ہر محلے میں پاکستان کے خلاف محاذ قائم کرلیا ۔ پاکستان کا نام لینا اور پاک فوج کا نام لینا جرم بن گیا۔ 4 سالوں میں دشمن نے اندر آکر وہ کام کیا جو باہر رہ کر 24سالوں میں وہ نہیں کرسکا تھا۔ دشمن کا اندازہ درست نکلا۔ اس نے 1967ء میں طے کیا تھا کہ پاکستانیوں کو اندر سے توڑنا آسان ہے۔ 1971ء سے اب تک 47سالوں کے اندر دشمن نے پاکستان کے اندر 18مکتی باہنیاں تشکیل دینے کا کام مکمل کیا ہوا ہے۔ اخبارات میں آپ نے یہ خبر پڑھی ہوگی کہ لندن کی بسوں اور ٹرینوں میں پاکستان کے خلاف بلوچ لبریشن آرمی کے پوسٹر آنے کے چند ہفتے بعد امریکہ کے شہر نیو یارک میں بھی پاکستان کے خلاف بی ایل اے کے پوسٹر د یکھے گئے۔ بلوچستان کو ہمارے لئے آتش فشان بنایا گیا ہے۔ دوسرا آتش فشان کراچی ہے۔ تیسرا آتش فشان فاٹا ہے۔ چوتھا آتش فشان جنوبی پنجاب ہے۔ پانچواں آتش فشان گلگت بلتستان ہے۔ جہاں حال ہی میں بدامنی کی بہت بڑی سازش پکڑی گئی۔ میرے دوست سید شمس النظر فاطمی اسلام آباد کو بھی آتش فشان قراردیتے ہیں۔ جہاں کوئی بھی شخص صرف ایک لاؤڈ سپیکر کے ذریعے 10ہزار کا مجمع اکٹھا کرسکتا ہے۔ دشمن کے ساتھ اس شخص کے تعلق اور اس تعلق کی بنیاد کا پتہ لگانے سے پہلے اسلام آباد کا پورا شہر لا قانونیت کی بھینٹ چڑھ جاتا ہے۔ ’’ مکتی باہنیوں ‘‘ کے پاس نعروں کی کمی نہیں۔ بلوچستان میں قومیت کا نعرہ ہے۔ کراچی میں مہاجر کا نعرہ ہے۔ فاٹا میں ایف سی آر قبائلی دستوراور رسم و رواج سے ملاکر نعرہ بنایا گیا ہے۔کہ ایف سی آر ختم ہوا تو قبائل کی شناخت ختم ہوجائیگی۔ گلگت بلتستان اور جنوبی پنجاب کے لئے الگ الگ نعرے لائے گئے ہیں۔ مذہب ، مسلک ، فرقہ ایسا نعرہ ہے جو لاہور، فیصل آباد اورملتان میں بھی دشمن کا کام آسان کردیتا ہے۔ راولپنڈی ، سیالکوٹ ، گوجر خان ، پاڑہ چنار، ہنگو اور پشاور میں بھی کام آجاتا ہے۔ دشمن نے ہماری کمزوریوں پر ہم سے زیا دہ ریسرچ کیا ہوا ہے۔ بھارت کو اچھی طرح معلوم ہے کہ پشاور میں کونسا زہر زیادہ کاریگر ہوگا، لاہور کے لئے کس زہر کو آزمایا جائے۔ ہنگو،پاڑہ چنار اور گلگت بلتستان میں کس زہر سے کام لیا جائے۔یہ باتیں بھارتی ایجنسی کے علم میں ہیں۔ اور بھارتی ایجنسی نے ہر علاقے میں آگ لگانے کے لئے الگ مصالحہ تیار کیا ہوا ہے۔ دشمن کو یہ بھی معلوم ہے کہ پاکستان کی سیاسی جماعتوں پرکام ہوچکا ہے۔ سماجی تنظیموں پرکا م ہوچکا ہے۔ افسر شاہی پر بھی کام ہوچکا ہے۔ میڈیا کے لوگوں پر بھی کام ہوچکا ہے۔ صرف پاک فوج ایسا ادارہ ہے جو دشمن کی رسائی سے باہر ہے۔ اس لئے انسانی حقوق ، جمہوریت اور روشن خیالی کے نام پر بھارتیوں نے پاک فوج کے خلاف محاذ کھولا ہوا ہے۔ عجیب ناموں سے انٹرنیٹ ، سوشل میڈیا اور دیگر محاذوں پر نئی جنگ جاری ہے۔ ہمیں خود کو آگاہ کرنا ہوگا اور اس جنگ میں پاک فوج کا ساتھ دینا ہوگا ورنہ کچھ بھی نہیں رہے گا۔