دھرنوں کا موسم لوٹ آیا ۔۔۔۔۔ پروفیسررفعت مظہر
شریف برادران کا سعودی عرب سے عشق پتہ نہیں کِن بلندیوں کو چھو رہا ہے کہ دونوں بھائی 2017ء میں سعودیہ گئے اور واپسی 2018ء میں ہوئی۔ اِس دوران قیاس آرائیوں کے گھوڑے بَگٹٹ رہے اور افواہ ساز فیکٹریوں کی چمنیوں سے گاڑھا دھواں نکلتا رہا۔ کسی نے کہا کہ این آر او ہو رہا ہے تو کوئی بولا کہ کرپشن کیسز پر بلایا گیا ہے۔ کسی نے کہا کہ شہباز شریف کی سعودی اعلیٰ حکام سے ملاقاتیں ہو رہی ہیں جو میاں نوازشریف کو قبول نہیں اِس لیے وہ بھی سعودی عرب پہنچ گئے۔ سبھی جانتے ہیں کہ میاں شہبازشریف کے دورے سے پہلے ہی بڑے میاں صاحب 2018ء کے انتخابات میں اُنہیں نوازلیگ کا وزیرِاعظم نامزدکر چکے تھے لیکن اِس ’’پُراسرار‘‘ دورے پر کچھ نہ کچھ کہنا تو بنتا ہی تھا اِس لیے جتنے مُنہ ،اُتنی باتیں۔ شاید اپوزیشن اِس وہم کا شکار ہو کہ احتساب عدالت میں شریف فیملی کے خلاف ’’کَکھ‘‘ ثابت نہیں ہوناا،س لیے پہلے ہی این آر او کا شور مچا دو تاکہ سند رہے اور بوقتِ ضرورت کام آئے۔ اِس معاملے میں اپوزیشن کو دھرنا سیاست کے استاد مولانا طاہرالقادری کی حمایت بھی حاصل ہے جو سانحہ ماڈل ٹاؤن کے شہداء کی ’’دیت وصولی‘‘ کے سلسلے میں آجکل پاکستان تشریف لائے ہوئے ہیں۔ رانا ثناء اللہ کہتے ہیں کہ ’’دَیت‘‘ کے معاملے پر چار میٹنگز ہو چکی ہیں لیکن ابھی تک فی کَس رقم طے نہیں ہوئی ۔ اگر رقم طے ہوگئی تو مولانا تو اپنے دیس ’’پھُر‘‘ ہو جائیں گے اور اپوزیشن جماعتیں اپنا سا مُنہ لے کر رہ جائیں گی۔
پیپلزپارٹی کے آصف زرداری نے ایک میڈیا ٹاک میں علامہ طاہرالقادری کو بانس پر چڑھانے کی بھرپور کوشش کر ڈالی ۔ اُنہوں نے کہا کہ طاہرالقادری موجودہ دَور کے نواب زادہ نصراللہ خاں ہیں۔ حیرت ہے کہ آصف زرداری جیسا گھاگ سیاستدان بھی حالات کے ہاتھوں اتنا مجبور ہوگیا کہ مولانا طاہرالقادری کی قیادت کو سرِعام تسلیم کر لیا۔ آصف زرداری نے جو استعارہ باندھا ہے ،ہمیں اُس سے اختلاف ہے کیونکہ نواب زادہ مرحوم کو ’’با بائے جمہوریت‘‘ کہا جاتا تھا اور اُن کی ساری زندگی آمریتوں کے خلاف جدوجہد کرتے گزری جبکہ علامہ طاہرالقادری نے نہ تو کبھی آمریتوں کے خلاف کوئی جدوجہد کی اور نہ ہی وہ جمہوریت کے داعی۔ ویسے بھی آجکل پاکستان میں جیسی بھی ہے بہرحال جمہوریت ہی ہے۔ اِس لیے جمہوریت کے حق میں جدوجہد کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔مولانا تو سانحہ ماڈل ٹاؤن کے سلسلے میں پاکستان آتے ہی رہتے ہیں لیکن پھر تھوڑے ہی عرصے بعد واپس بھی چلے جاتے ہیں۔ 2014ء میں اُنہوں نے میڈیا کے سامنے فرمایا کہ وہ کینیڈا سے اپنے ’’مَوزے‘‘ تک لے آئے ہیں،اِس لیے اب کبھی واپس نہیں جائیں گے لیکن پھر وہ دھرنے کو ادھورا چھوڑ کر واپس بھی چلے گئے۔ اِس بار بھی وہ اُتنی دیر تک ہی پاکستان میں ہیں جب تک دَیت کا معاملہ طے نہیں ہو جاتا۔ 30 دسمبر کو بلائی جانے والی کُل جماعتی کانفرنس بھی اِسی کا ایک حصّہ ہی ہے۔ مولانا حکومت پر دباؤ ڈال کر دَیت کی رقم بڑھانا چاہتے ہیں۔
مولانا نے سبھی شرکاء کے سامنے فرمایا کہ کُل جماعتی کانفرنس میں 40 سیاسی جماعتیں شامل ہیں جبکہ حقیقت یہ کہ اے پی سی میں کل 13 یا 14 سیاسی جماعتیں شامل تھیں جن میں سے زیادہ تر جماعتیں صرف کاغذی ، جن کے نام تک سے بھی دنیا واقف نہیں۔ البتہ پیپلزپارٹی ،تحریکِ انصاف، ایم کیو ایم اور جماعت اسلامی معروف سیاسی جماعتیں ہیں۔ مصطفےٰ کمال کی پاک سر زمین پارٹی ابھی سیاسی قوت کے طور پر ابھر کر سامنے نہیں آئی اور ایم کیو ایم پاکستان اختلافات کی بنا پر اے پی سی درمیان ہی میں چھوڑ کر چلی گئی ۔پیپلزپارٹی اور تحریکِ انصاف کا اپنا اپنا سیاسی ایجنڈا ہے۔ وہ بہرصورت نوازلیگ کو ہزیمت سے دوچار کرنا چاہتی ہیں، سانحہ بہانہ اور نوازلیگ نشانہ ہے۔ دِلچسپ بات یہ کہ مولانا طاہرالقادری اِن اپوزیشن جماعتوں کو اپنے مقصد کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں اور یہ جماعتیں مولانا کا کندھا اپنے سیاسی مقاصد کے لیے۔ اب دیکھتے ہیں کہ دونوں میں سے جیت کس کے حصّے میں آتی ہے یا پھر دونوں ہی ’’چاروں شانے چِت‘‘ ہو جاتی ہیں۔ اِن حالات میں دھرنوں اور احتجاجی تحریکوں کا موسم سَر پر آن پہنچا۔ کسی کو ملکی سالمیت کے خلاف چھانے والی دھند کا کچھ احساس نہی، نہ اِس سے غرض کہ امریکی صدر کی دھمکیوں کے پیچھے کون سے عوامل کارفرما ہیں۔
علامہ طاہرالقادری کی طرح امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی ’’لمبی لمبی چھوڑنے‘‘ کے عادی ہیں۔ اُنہوں نے کہا ’’امریکہ نے گزشتہ 15 برسوں میں پاکستان کو احمقانہ طور پر 33 ارب ڈالرز سے زائد امداد دی ہے۔ بدلے میں اُنہوں نے ہمیں کچھ نہیں دیا سوائے جھوٹ اور دھوکے کے، یہ سوچ کر کہ ہمارے لیڈر بیوقوف ہیں۔ ہم افغانستان میں جن دہشت گردوں کا تعاقب کرتے ہیں ،وہ اِن کو محفوظ ٹھکانے دیتے ہیں ۔اب مزید ایسا نہیں چلے گا‘‘۔ ٹرمپ کے آگ اُگلنے کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے ہر سطح پر امریکہ کو ’’نو مور‘‘ کا پیغام دیا تو جواباََ امریکی صدر نے بھی ’’نومور‘‘ کہہ دیالیکن امداد کی مَد میں۔ جس امداد کا امریکہ نے طعنہ دیا، اُس کے بارے میں بھی ہم ہر سطح پر کہہ چکے ہیں کہ ’’اُٹھا لے پاندان اپنا‘‘۔ ٹرمپ کے بیان کے بعد پہلے ہنگامی طور پر کورکمانڈرز کانفرنس ہوئی اُس کے بعد قومی سلامتی کمیٹی کا وزیرِاعظم شاہد خاقان عباسی کی صدارت میں اجلاس ہوا۔ تین گھنٹے جاری رہنے والے اِس اجلاس کے بعد مشترکہ اعلامیہ جاری ہوا جس میں کہا گیا ’’ امریکی صدر کے بیان پر سخت مایوسی ہوئی۔ پاکستان کو افغانستان میں ناکامی کا ذِمہ دار قرار نہیں دیا جا سکتا ،ہم اپنے وطن کی حفاظت کرنا خوب جانتے ہیں۔ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف غیرمتزلزل جنگ لڑی۔ اتحادیوں پر الزام لگا کر افغانستان میں امن قائم نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ اپنے وسائل اور معیشت کی قیمت پر لڑی۔ ہزاروں قربانیوں اور شہداء کے خاندانوں کے درد کا کوئی اندازہ نہیں کر سکتا‘‘۔چینی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے ٹرمپ کی اِس تنقید کے بارے میں کہا کہ پاکستان نے انسدادِ دہشت گردی کے لیے شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا ۔ چین اور پاکستان تمام موسموں کے دوست ہیں اور ہم دونوں فریقین کے فائدے کے لیے ہر طرح کے تعاون کو فروغ دینے اور مضبوط بنانے کے لیے تیار ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے 33 ارب ڈالر امداد کے دعوے کی حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ 15 سالوں میں 14.5 ارب ڈالر کولیشن سپورٹ فنڈ کی شکل میں، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں صرف ہونے والے اخراجات کی مَد میں دی گئیاور صرف 4 ارب ڈالر امداد کی مَد میں دیئے گئے۔ اِس طرح کل رقم لگ بھگ 19ارب ڈالر بنتی ہے ،33 ارب ڈالر نہیں ۔ اِسی لے وزیرِخارجہ خواجہ آصف نے کہا ہے کہ کسی امریکی فرم سے آڈٹ کروا لیں تاکہ دنیا کو پتہ چل سکے کہ سچّا کون اور جھوٹا کو ن ۔پاکستان نے افغان جنگ میں امریکی اتحادی بن کر 130 ارب ڈالر گنوائے، ہزاروں جانوں کی قُربانی دی اور اپنی معیشت کا بیڑا غرق کر لیا۔ اِس لیے احمق تو وہ تھا جس نے پاکستان کو اِس اندھی اور بے چہرہ جنگ میں جھونک دیا۔