صد ا بصحرا ۔۔۔گولین گول بجلی گھر کا کریڈٹ ۔۔۔۔۔ڈاکٹر عنایت اللہ فیضیؔ
23جنوری 2018ء کو خیبر پختونخوا کے ضلع چترال میں واپڈا کا 33سال پرانا منصوبہ تکمیل کے قریب پہنچ گیا 106میگا واٹ کے بجلی گھر کا ایک یونٹ مکمل ہوا جسکی پیداواری گنجائش 35 میگا واٹ بتائی جاتی ہے بجلی آگئی ، بلب روشن ہوئے تو کریڈٹ لینے اور کریڈٹ دینے کا چکر شروع ہوا جس کے جی میں جو آیا اس نے کہہ دیا ۔ ایسے مواقع پر اصل چہرے سامنے نہیں لائے جاتے۔ انگریزی کا مقولہ ہے کہ ’’ کامیابی کے 100باپ ہوتے ہیں ناکامی یتیم ہوتی ہے ۔‘‘کہانی قدیم بھی ہے لذیذ بھی ہے اس لئے لمبی کہانی سنانے میں کوئی ہرج نہیں ۔ گولین گول کا بجلی گھر جہاں واقع ہے اس جگہ کا نام مشلیک ہے۔ اس کے بارے میں کھوار زبان میں ایک ضرب المثل ہے ’’ مشلیکہ یور ویسیک ‘‘ مشلیک میں سورج کا انتظار کرنے والا نامراد ہوتا ہے کیونکہ یہ جگہ بلند پہاڑوں کی ایسی تنگ گھاٹی میں واقع ہے جہاں سورج طلوع نہیں دیکھا۔ یہاں سورج کی کرنیں نہیں پڑتیں۔1985ء میں حاجی محمد غفار خان اس علاقے سے ڈسڑکٹ کونسل کے ممبر تھے ۔ چیئرمین شہزادہ محی الدین قومی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے۔ حاجی محمد غفار خان نے گولین گول میں پن بجلی گھر کے قیام کی تجویز دی ، ضلع کونسل کی کوششوں
سے جرمن انجینئروں کی ٹیم آئی۔ چترال میں 53مقامات کا ابتدائی سروے کیا۔ اُن میں گولین گول بھی شامل تھا۔ قومی اسمبلی کا ممبر منتخب ہونے کے بعد شہزادہ محی الدین نے حاجی محمد غفار خان کا یہ منصوبہ جنرل فضل حق کو پیش کیا۔ جنرل فضل حق نے جنرل ضیاء الحق کو شیشے میں اتارا۔ واپڈا کے ممبر واٹر اور ممبر پاور کے ساتھ پلاننگ کمیشن کے حکام کو چترال بھیجا ۔ ڈاکٹر خورشید احمد پلاننگ کمیشن کے ڈپٹی چیئرمین اور محمد خان جونیجو وزیر اعظم تھے۔ دو سالوں میں اس کی فزیبلیٹی بن گئی۔ سکیم کو ایکنک میں پیش کرنے کے لئے تیا ر کیا گیا۔ 1987ء کی پہلی سہ ماہی میں ایکنک نے منصوبے کی منظوری دی ۔ ٹینڈر کی دستاویزات اور ڈیزائننگ پر کام شروع ہوا۔ اس اثناء میں اسمبلیاں توڑ دی گئیں۔ محمد خان جونیجو کی حکومت ختم ہوئی۔ اگست 1988ء میں جنرل ضیاء الحق کے جہاز کا حادثہ پیش آیا ۔ اُن کی شہادت کے ساتھ ٹینڈر کے تمام مراحل روک دیئے گئے۔ واپڈا حکام نے منصوبے کو سرد خانے میں ڈال دیا۔ شہزادہ محی الدین 1991ء اور1997 ء میں پھر قومی اسمبلی کے رکن اور سیاحت کے وزیر مملکت بن گئے مگر گولین گول کے منصوبے کو زندہ کرنے کے لئے جنرل فضل حق اور جنرل ضیاء الحق کے دور کی طرح حمایت حاصل نہ ہوسکی۔ 2001ء میں شہزادہ محی الدین ضلع ناظم منتخب ہوئے اور انہوں نے اس منصوبے کے لئے صوبائی گورنر جنرل افتخار حسین شاہ کی وساطت سے جنرل پرویز مشرف کا تعاون حاصل کیا۔ جنرل مشرف کے حکم سے 1988ء والا منصوبہ الماریوں سے نکالا گیا۔ دوبارہ پلاننگ کمیشن کو بھیجا گیا۔ ڈیزائن، فزیبلیٹی اور ٹینڈر ڈاکو مینٹس پر نظر ثانی کی گئی۔ کالونی کے لئے زمینوں کی خریداری کا کام شروع ہوا۔ اردو میں ضرب المثل ہے ’’ 100سنار کی ایک لوہار کی‘‘جنرل مشرف کے ایک حکم نے کام کر دکھایا ۔ کالونی پر کام شروع ہونے کے بعد خبر آگئی کہ اس بجلی کا فنڈ شانگلہ میں دوسرے بجلی گھر کو دیا جارہا ہے کام روک دیا گیا ہے۔ اس علاقے سے ضلع کونسل کے ممبر عبدالولی خان ایڈوکیٹ نے احتجاجی مہم چلا کر جلسوں اور جلوسوں کے ذریعے جنرل مشرف کی توجہ اس طرف مبذول کرائی ۔ چنانچہ بجلی گھر کے سول ورک کا ٹینڈر ہوا، کوریا کی سامبو کمپنی نے کام کا ٹھیکہ لے لیا۔ مشرف کے جانے کے بعد کام نہیں رُکا۔ البتہ فنڈ کی کمی کا رونا مسلسل رویا جاتا رہا۔ اس دوران افواہ پھیلائی گئی کہ جو سرنگ بن رہے ہیں یہ چاغی پہاڑ کی طرح دفاعی مقاصد کے لئے ہیں۔ بجلی گھر کوئی نہیں بنے گا۔ 2013ء میں شہزادہ افتخار الدین قومی اسمبلی کے ممبر اور نواز شریف وزیر اعظم بن گئے تو گولین گول ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کی قسمت دوبارہ جاگ اُٹھی۔4سالوں میں اس منصوبے کو 18ارب روپے دے دیئے گئے ۔ ترقی اور منصوبہ بندی کے وزیر احسن اقبال نے شہزادہ افتخار الدین کے ساتھ بھر پور تعاون کیا۔ ورنہ پلاننگ کمیشن کے بارے میں لطیفہ مشہور ہے ۔ڈاکٹر مبشر حسن سے کسی نے پوچھا شاہ جہاں نے تاج محل کس طرح بنایا؟ انہوں نے جواب دیا اُن کے دور میں پلاننگ کمیشن نہیں تھا اس لئے تاج محل بن گیا۔ 2013ء کے بعد سابق وزیر اعظم محمد نوازشریف نے گولین گول ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کے لئے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو خصوصی ہدایات دیں اور فنڈ کی کمی کا کوئی مسئلہ پیش نہیں آیا۔ چترال کے دو بڑے پراجیکٹ تھے ۔ لواری ٹنل اور گولین گول ۔ سابق وزیر اعظم نے شہزادہ افتخار الدین ایم این اے کو قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے مواصلات اور قائمہ کمیٹی برائے توانائی کا ممبر بھی نامزد کیا۔ اس حیثیت میں چترال کے نمائندے کو دونوں منصوبوں کی نگرانی اور فنڈ کی فراہمی کے لئے مربوط کوششوں کا بہتر موقع ملا۔ اب جبکہ بجلی گھر کے پہلے یونٹ نے کام شروع کردیا ہے۔ 132کے وی
ا ے کی ہائی پاور ٹرانسمیشن لائن بچھانے کا کام گرڈ تک آچکا ہے۔ 35میگاواٹ بجلی گِرڈ تک آچکی ہے۔ اب دو مطالبات سامنے آرہے ہیں ۔ پہلا مطالبہ یہ ہے کہ PEDOپیڈو کی لائنوں کو استعمال کرکے اپر چترال کو بجلی دی جائے۔ دوسرا مطالبہ یہ کہ 12روپے یونٹ سے 18روپے یونٹ کا موجودہ ریٹ چترال کے عوام کی برداشت سے باہر ہے۔ درگئی ملاکنڈ میں واپڈا نے مقامی لوگوں میں گھریلو صارفین کو ایک روپے یونٹ کے نرخ سے بجلی دینے کا معاہدہ کیا ہے۔ اس طرح کا معاہدہ چترال کو بجلی دینے لئے کیا جائے۔ 33سال انتظار کے بعد گولین گول بجلی گھر کے ایک یونٹ کی تکمیل ’’ دیر آید درست آید‘‘ کا درست مصداق ہے۔