جہانِ تصوف ۔۔۔۔تحریر:پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
مغرب نواز دانشوروں پر عقل کل بننے کا جنون ہر وقت طا ری رہتا ہے اِسی جنون میں ایسے نام نہاد دانشور تصوف پر بھی ہرزہ سرائی سے با ز نہیں آتے کسی چیز کو سمجھے جانے بغیر ‘حقیقت میں اُترے بغیر رائے دینا حما قت کا آخری درجہ ہے یہ لو گ یہی حما قت کر تے نظر آتے ہیں اہل حق پر سب سے بڑا الزام یہ لگا تے ہیں کہ تصوف جاہلوں نا خواندہ لوگوں کا مسلک ہے فہم و آگہی بصیرت علمی شعور رکھنے والے لو گ تصوف کے قریب بھی نہیں پھٹکتے ‘ایسا الزام لگا نے سے پہلے عقل سے عاری ایسے معترضین کو تاریخ تصوف کا مطالعہ کر نا چاہیے ‘تا ریخ تصوف کے آسمان پر ہر دو رمیں ایک سے بڑھ کر ایک علمی شخصیت طلو ع ہو تی رہی ہے بلکہ ہمیں بے شما رایسے صوفیا کرام نظر آتے ہیں جو کو چہ تصوف میں آنے سے پہلے علوم و فنون کے بہت سارے علمی دھا روں سے شرابور ہو چکے تھے امام قشیری ؒ ‘ابو طالب مکی ؒ ‘ابن عربی ؒ ‘امام رازی ؒ ‘امام غزالی ؒ ‘ابنِ خلدون ؒ ‘شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ ‘خوا جہ معین الدین چشتی اجمیری ؒ ‘شہاب الدین سہروردی ؒ ‘حضرت زکریا ملتا نی ؒ ‘حضرت مجدد الف ثانی ؒ ‘حضرت علی ہجویری ؒ یہ تمام نہ صرف تعلیم درویشی کے شہنشاہ تھے بلکہ کشور علم و فصل کے بھی تا جدار تھے ‘کسی میں ہمت ہے جو اِن جلیل القدر علمی شخصیات پر جہا لت کا الزام لگا سکے صدیوں سے تصوف کے اِن آفتا بوں کی تصانیف جہالت کے اندھیروں کو روشنی میں بدلنے کا کام کر رہی ہیں بلکہ شہنشاہِ پاک پتن ؒ تو اکثر فرمایا کر تے تھے کہ جاہل مسخرہ شیطان ہو تا ہے اس کی نگا ہ حقیقت اور سراب میں فر ق کر نے سے قاصر رہتی ہے وہ دل و روح کی بیما ریوں کی تشخیص اور علا ج نہیں کرسکتا حضرت نظا م الدین اولیاء ؒ کسی بھی ایسے شخص کو خلا فت عطا نہیں کر تے تھے جو عالم نہ ہو ‘کشف المحجوب میں بیان ہے تین قسم کے آدمیوں کی صحبت سے پرہیز کرو ایسے عالموں سے جو غافل ہوں ‘ایسے فقیروں سے جو دھوکے باز ہوں اور ایسے صوفیوں سے جو جاہل ہوں ‘علامہ ابن جو زی جو تصوف اور اولیا ء کرام پر تنقید کر نے والوں کے سر خیل سمجھے جا تے ہیں وہ بھی یہ تسلیم کر نے پر مجبور ہو گئے کہ صوفیا علوم قرآن ‘فقہ ‘حدیث اور تفسیر کے امام ہوا کر تے تھے وطن عزیز کے منکرین اور اہل مغرب یہ بھو ل گئے ہیں کہ جب سارا یو رپ جہا لت کی تاریکی میں ڈوبا ہو اتھا تو اُس وقت تا ریخ عالم میں ایک سے بڑھ کر ایک صوفی عالم پیدا ہوا ہوئے جنہوں نے جہا لت میں ڈوبی انسانیت کو جہالت کے اندھیروں سے نکا لنے میں اپنا کردار ادا کیا ‘ایسا ہی ایک ستا رہ ابن خلدون تھا جنہیں فلسفہ تا ریخ کا امام کہا جا تا ہے ۔ مغرب کے موجود ہ دور کے سب سے بڑے فلا سفر ٹا ئن بی اپنی کتاب فلسفہ تا ریخ میں ابن خلدون کے لیے سات صفحات مخصوص کر تے ہیں ابن خلدون کی خدمات کا کھل کر اقرار کر تے ہیں یو رپ کے سارے فلا سفر ابن خلدون ؒ کی تعریف کر تے نظر آتے ہیں ابن خلدون ؒ کی مقدمہ ابن خلدون ایسی کتا ب ہے جسے پڑھ کر اہل یو رپ آج تک عش عش کر تے ہیں جس میں ابن خلدون نے قوموں کے عروج و زوال پر لا ثانی بحث کی ہے اِسی ابن خلدون ؒ نے تصوف کی حالت استغراق پر خو ب لکھا ہے استغراق پر وہی اہل قلم اظہا ر کر سکتا ہے جو استغراقی حالت سے گزرا ہو جہا لت کے اُسی دور میں آسمان تصوف پر ایک اور ستار ہ چمکا حضرت امام فخر الدین رازی ؒ جو پچیس رمضان ۵۴۴میں ’’رے ‘‘ شہر میں پیدا ہو ئے ‘امام رازی دنیا وی علوم کومکمل طو رپر سیکھنے کے بعد انہوں نے یہ علم دوسروں تک بھی پہنچا یا آپؒ نے تمام علوم پر کتابیں لکھیں لیکن اُن کا اصلی سرما یہ فلسفہ و علم و کلام تھے آپ نے عقلی علو م میں غیر معمو لی شہرت پائی آپ سے پہلے علم و کلا م اور فلسفے پر کتا بیں بہت مبہم اور پیچیدہ تھیں اُن کے خیالات و نظریا ت انتشار پیدا کرتے تھے امام غزالی ؒ اور امام رازی ؒ نے علوم فلسفہ کی الجھنوں کو بہت آسانی سے حل کر دیا‘ آپ ؒ نے فلسفہ کی گرہیں اِس طرح کھو لیں کے بصیرت و آگہی کے پھو ل کھلتے نظر آتے ہیں جن سے علم کے پیاسوں کی روحیں معطر ہو تی چلی جا تی ہیں امام رازی ؒ فرمایا کر تے تھے عالم اور جا ہل کے درمیان سونے اور مٹی جتنا فرق ہے علوم ظاہری کے بعد اللہ تعالی نے آپ کو بے پنا ہ شہرت سے نواز ا ‘ پو ری دنیا میں آپ کے علم کا چرچہ تھا آپ جس شہر یا ملک بھی جاتے پورا شہر با دشاہ سمیت آپ کے استقبال کو آجا تا دولت کی دیوی اِس قدر مہربان تھی کہ چالیس غلام سنہری کمر بند با ندھے منقش پو شاک پہنے ہر وقت آپ کے اطراف میں رہتے تھے ‘آپ امیر غریب سب میں مقبو ل تھے ہر کو ئی آپ کی ایک جھلک دیکھنے کو بے تاب رہتا ایک دفعہ آپ کی ہرات میں جب آمد ہو ئی تو سارا شہر علما وصلحا سلا طین آپ کی زیارت کو آئے شہر میں ایک بھی شخص با قی نہ بچا سوائے ایک درویش بے نیاز کے جو دنیا سے دور معرفت الٰہی عشق الٰہی میں مستغرق تھاامام رازی ؒ کو جب اس بات کا پتہ چلا تو کہا میں مسلمانوں کا امام ہوں قابل تعظیم ہو ں پو رے شہر میں صرف ایک شخص ایسا ہے جو میری ملا قات کو نہیں آیا تو اِس کی بھی کو ئی خا ص وجہ ہو گی تجسس سے مجبو ر ہو کر آپ ؒ نے اپنے خدام کو اُس مر دِ بے نیاز کے پاس بھیجا اور نہ آنے کی وجہ پو چھی لیکن خدا مست درویش نے جواب دینا منا سب نہ سمجھا اور گو شہ نشینی کا لطف اٹھانے میں مصروف رہے ‘امام رازی ؒ کے دل میں ملا قات نہ ہو نے کی خلش مچلتی رہی اور پھر ایک دن اہل ہرا ت نے اُس مرد بے نیاز خدا مست درویش کی دعوت کی اور اُس دعوت میں امام رازی ؒ کو بھی مدعو کیا یہاں امام رازی ؒ کو جب اس مرد صالح سے ملا قات کا موقع ملا تو عرض کیا جب سارا شہر میری ملا قات کو آیا اور صرف آپ نے آنا منا سب نہ سمجھا ‘کیا میں اِس بے نیازی کی وجہ جان سکتا ہوں تا کہ میں حقیقت کا ادراک کر سکوں تو درویش بے نیاز بو لا میں فقیر آدمی ہو ں میری ملا قات یا دیدار سے کسی کو کو ئی شرف حاصل نہیں ہو سکتا اور نہ ہی میرے نہ ملنے سے کسی کا کچھ بگڑ سکتا ہے نہ ہی کو ئی نقص پیدا ہو سکتا ہے ‘امام رازی ؒ نہا یت ذہین فطین انسان تھے فقیر کی صوفیا نہ گفتگو کی تہہ میں پہنچ گئے اور بو لے جو آپ نے جواب دیا ہے یہ تو اہل صوفیا کا ہی ہو سکتا ہے آپ برا ئے مہربا نی اپنے بارے میں کچھ اور بتائیں تا کہ میں آپ کے بار ے میں مزید جان سکوں تو جانباز بے نیا ز درویش بو لا آپ سے کس بنا پر ملا قات واجب تھی تو امام بو لے کیونکہ میں مسلمانوں کا امام ہوں علمی طور پر وہ مقام رکھتا ہوں جس کی بنا پر واجب التعظیم ہوں تو درویش نے معرفت کے مو تے بکھیرتے ہو ئے کہا آپ کا سرما یہ فخر علم ہے لیکن حق تعالیٰ کی معرفت راس العلوم ہے پھر آپ نے خدا کو کیسے پہنچا نا امام رازی بو لے سو دلیلوں سے ‘تو بے نیاز قلندر دلنواز تبسم سے بو لا دلیل تو شک کو زائل کر نے کے لیے ہو تی ہے لیکن خدا ئے بزر گ و برتر نے میرے دل و دما غ کو وہ عرفانی نور عطا کیا ہے کہ اُس کی وجہ سے میرے دل میں شک کا گزربھی نہیں ہو تا لہٰذا مجھے کسی بھی دلیل کی ضرورت نہیں ہے امام رازی ؒ کا آج سے پہلے دنیا وی علم کے شاہسواروں سے واسطہ پڑا تھا آج عرفانی نو ر الہی کے سالک سے جب واسطہ پڑا تو با طنی اضطراب جو دنیا جہاں کے علم کے سمندر رکھنے کے بعد بھی قائم تھا اُس اضطراب بے چینی کی کیفیت کم ہو تی گئی امام رازی پہلی بار با طنی حلا وت نشے سرورسے متعارف ہو رہے تھے دنیا ئے اسلام کا شیخ الاسلام مسلمانوں کا امام ایک درویش خدا مست کے سامنے اقرار کر رہا تھا امام رازی ؒ جو فلسفے اور علم و کلام کے امام تھے جنہوں نے بے شمار کتب تصنیف کر کے علم کے پیاسوں کی پیاس بجھا ئی جو لفظوں اور فقروں کے بڑے کھلاڑی تھے آج درویش خدا مست کے علم کے سامنے طفل مکتب بنے بیٹھے تھے آج و ہ علم کے حقیقی اور با طنی پہلوؤں سے روشنا س ہو رہے تھے درویش بے نیاز کی گفتگو کے مو تی امام رازی ؒ کے قلب و روح کو منور کر تے جا رہے تھے اور پھر مسلمانوں کے امام شیخ اسلام کے دل پر اس قدر اثر ہوا کہ اُس مجلس میں مردِ صالح کے ہا تھ پر تو بہ کی اور غلامی کی درخوا ست بھی کہ مجھے اپنے ہا تھ پر بیعت کر کے علم کا حقیقی نور عطا کریں اِسطرح فلسفے کے امام رازی ؒ تصوف کی وادی پر خار میں خلوت گزیں ہو ئے ‘امام رازی ؒ جس مردِ درویش کے ہاتھ پر بیعت ہو ئے اُن کا نام حضرت نجم الدین کبری ؒ تھا تا ریخ تصوف کے وہ آفتاب جو نہ صرف امام رازی کے مرشد تھے بلکہ حق تعالی نے وہ روحانی تصرف بخشا تھا کہ جس شخص کو نظر بھر کر دیکھ لیتے وہ ولی ہو جا تا اِسی وجہ سے حضرت نجم الدین کبری کو ولی ساز یا ولی گر کہا جا تا ہے جو دیکھنے والے کو شراب معرفت میں غر ق کر دیتے اِسی شراب معرفت میں امام رازی بھی غرق ہو ئے ۔