چترال یونیورسٹی میں بین الاقوامی باٹنی کانفرنس شروع ،جوکہ دو اپریل تک جاری رہے گاجس میں ملکی اور بین الاقوامی سطح کے سائنسدان شریک
چترال (نمائندہ ڈیلی چترال ) چترال یونیورسٹی میں بین الاقوامی باٹنی کانفرنس جمعرات کے روز شروع ہوگئی جوکہ دو اپریل تک جاری رہے گاجس میں ملکی اور بین الاقوامی سطح کے سائنسدان شریک ہوکر اپنی تحقیقی مقالے پیش کررہے ہیں۔ افتتاحی سیشن کے مہمان خصوصی ڈپٹی کمشنر چترال ارشاد سودھر نے کی جبکہ اوٹاہ اسٹیٹ یونیورسٹی امریکہ کے ڈائرکٹر انٹرماونٹین ہربیریم ڈاکٹر میری الیزبتھ بارک ورتھ نے صدارت کی ۔”چترال میں نباتات کی ڈیجیٹلائزیشن اور ڈاکومنٹیشن”کے موضوع پر ا س کانفرنس کو علاقے میں پائی جانے والی پودوں کی کثیر تنوع کے پیش خاص اہمیت دی جارہی ہے۔ یونیورسٹی کے پراجیکٹ ڈائرکٹر پروفیسر ڈاکٹر بادشاہ منیر بخاری نے کہاکہ اپنی قیام کے ایک سال سے کم عرصے میں اس یونیورسٹی کے اہتمام بین الاقوامی سطح کا باٹنی کانفرنس منعقد کیا جارہا ہے تاکہ اس علاقے میں نباتات پر مربوط طور پر کام کا آغاز کیا جاسکے۔انہوں نے کہاکہ رقبے کے لحاظ سے اس ضلعے میں نباتات کی اقسام کو تعلیمی مقاصد کے ساتھ ساتھ اس سے عملی فائدہ اٹھانے کے لئے یہ بات ناگزیر ہوگئی ہے کہ اس شعبے میں اب تک کئے گئے ڈیٹا کی ڈیجیٹلائزیشن اور ڈاکومنٹیشن کی جائے اور چترال یونیورسٹی نے اس ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے اس کانفرنس کا انعقاد کیا جس میں اسلامیہ کالج یونیورسٹی اور پاکستان بوٹانیکل سوسائٹی کا اشتراک حاصل ہے جبکہ خیبر بنک ، اے کے آر ایس پی اور ایس آر ایس پی نے جزوی طور پر اسپانسر کیا۔ اس موقع پر اپنے خطاب میں ڈپٹی کمشنر چترال ارشاد سودھر نے کہاکہ سائنس اور خصوصاً باٹنی کے فیلڈ میں علاقے سے متعلق اعداد وشمار کی دستیابی نہایت ہی ضروری ہے جس کی بنیاد پر حکومت منصوبہ بندی کرکے اس علاقے کی نباتات سے فائدہ کے لئے استعمال کرے گی۔ انہوں نے کہاکہ ایسے پراجیکٹ سے علاقے میں ترقی وخوشحالی آئے گی کیونکہ چترال میں نباتات کی ایسی اقسام ہیں جوکہ اور کہیں بھی دستیاب نہیں اور ان سے استفادے کے لئے ہم ملکی سطح پر دو ا سازی ، فوڈ اور کاسمیٹکس کی صنعت یہاں شروع کرسکتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ چترال یونیورسٹی اور ضلعی انتظامیہ مل کر اس قدرتی وسائل سے استفادہ کرنے کے لئے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرسکتے ہیں جس کے بہت ہی مفید نتائج برامدہوں گے۔ارشاد سودھر نے کہاکہ چترال قدرتی آفات سے دوچار علاقہ ہے جس کی وجہ سے اس علاقے کے نباتات کے بارے میں مستند ڈیٹا سائنسی ریسرچ کے لئے جمع کرنا وقت کی ضرورت بن گئی تھی اور چترال یونیورسٹی نے اس کانفرنس کا انعقادکرکے ایک اہم قومی فریضہ سرانجام دیا ہے۔ انہوں نے کہاکہ ان مستند ڈیٹا کو سامنے رکھ کر ہی ہم اس شعبے میں سرمایہ کار ی کے لئے باہر سے سرمایہ کاروں دعوت دے سکتے ہیں۔ پروفیسر میری الزبتھ بارک ورتھ نے کہاکہ انسان کا سب سے ذیادہ انحصار پودوں پر ہے جن کی ڈاکومنٹیشن کو بہت ہی اہمیت حاصل ہے جبکہ چترال اس لحاظ سے ایک خوش قسمت علاقہ ہے جہاں مقامی طور پر ایسے اقسام پائے جاتے ہیں جوکہ دنیا کے کسی اور حصے میں نہیں ہیں۔ اس سیشن میں پشاور یونیورسٹی کے باٹنی ڈیپارٹمنٹ کے چیر مین پروفیسر ڈاکٹر سراج الدین ، ملاکنڈ یونیورسٹی کے ڈاکٹر محمد نثار، سوات یونیورسٹی کے ڈاکٹر حیدر علی، سندھ یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر رابعہ اسماء میمن،ملاکنڈ یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر طور جان اور اکیڈیمی آف سائنس چائنا کے پروفیسر ژانگ فاگی نے بھی اپنے مقالات پیش کئے۔