صدا بصحرا ۔۔۔۔وائسرائے والا رویہ۔۔۔ڈاکٹر عنایت اللہ فیضیؔ
ؒ خبر آگئی ہے کہ امریکی سفارت کار کرنل جوزف پرقتل کا مقدمہ درج کر کے اس کا ڈرائیونگ لائسنس منسوخ کرنے کے بعد امریکہ میں پاکستانی سفارت کاروں پر نئی پابندیاں لگائی گئی ہیں اور ان کو سفارت خانے کے علاقے میں 30کلومیٹر سے باہر جانے سے منع کیا گیا ہے ۔5دن پہلے اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے کے فوجی اتاشی کرنل جوزف نے اسلام آبادکے پوش علاقے میں اپنی گاڑی کی ٹکر سے ایک موٹر سائیکل سوار پاکستانی کو قتل کر دیا تھا۔ اگرچہ اس کی گاڑی کو پولیس سٹیشن لے جایا گیا اور ملزم سے پوچھ گچھ کی گئی تاہم پولیس کرنل جوزف کو گرفتار نہ کرسکی۔ اُس کا جسمانی ریمانڈ نہ لے سکی۔ چھترول نہ کرسکی۔ ملزم پر پاکستانی قانون تعزیراتِ پاکستان کے دفعہ 302 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ اس دفعہ کے تحت ملزم کو 3دنوں کے اندر سزائے موت دینی چاہیئے تھی ۔ اگر ملزم دشمن ملک کا سفارت کار ہو تو اس کو 24گھنٹوں کے اندر پھانسی دی جاسکتی ہے۔ لیکن کرنل جوزف آج بھی امریکی سفارت خانے میں اپنی ڈیوٹی پر ہے۔ اسلام آباد میں امریکہ کے سفیر کو دفتر خارجہ میں طلب کر کے پاکستانی حکومت کا احتجاجی مراسلہ تھما دیا گیا ہے۔ مقتول کے ورثا پر دباؤ ڈالا جارہا ہے کہ کرنل جوزف کو تنگ نہ کیا جائے موصوف ہمارا مہمان ہے۔ اگر اُس نے قتل کیا تو کوئی بات نہیں ۔ پاکستانی شہریوں کا خون کوئی خون نہیں ’’ یہ خونِ خاک نشیناں تھا رزق خاک ہوا‘‘ کرنل جوزف کا لائسنس ضبط کرنے کے خلاف امریکی حکومت کا شدید ردّعمل سامنے آیا ہے۔ پاکستانی سفارت کاروں پر سفری پابندیاں لگائی گئی ہیں۔ گویا پاکستان امریکہ کی نو آبادی ہے اور امریکی سفارت خانے کا ہر نوکر پاکستان میں امریکہ بہادر کا وائسرائے ہے۔ پارلیمنٹ کی خارجہ کمیٹی اور دفتر خارجہ کے حکام کو اس مسئلے پر از سر نو غور کرنا چاہیئے۔ کیپٹل سٹی اسلام آباد کی پولیس اور انتظامیہ کو بھی اس بات کا جائزہ لینا چاہیئے کہ دشمن ملک کے سفارت کاروں کا استحقاق کیا ہے ؟ دشمن ملک کے سفارت کاروں کو کتنی آزادی حاصل ہے؟ امریکی سفارت خانے کے کنٹریکٹر یا جاسوس ریمنڈڈیوس نے پاکستان کی خفیہ سروس کے اہلکاروں کو سر عام گولی ماری اور بھاگتے ہوئے فائر کر کے تیسرے شخص کو بھی قتل کردیا۔ ریمنڈ ڈیوس کو لاہور کے عوام نے گرفتار کر کے پنجاب پولیس کے حوالے کردیا۔ امریکہ نے سفارتی استشناء کا معاملہ اُٹھایا تو حکومت نے ’’بھتہ‘‘ لیکر تین پاکستانیوں کے قاتل کو ’’ باعزت بری‘‘ کر دیا۔ آج ریمنڈ ڈیوس پاکستان کو گالی دیتا پھرتا ہے۔ اس واقعے پر کتاب لکھ کر اُس نے پاکستان کو دنیا بھر میں بدنام کیا ہے۔ سفارتی استشناء کا معاملہ جنرل ضیاء الحق کے دور میں افغان خانہ جنگی میں مدد دینے کیلئے پاکستانی حکومت کے ساتھ ایک معاہدے سے شروع کیا گیا۔ معاہدہ یہ تھا کہ امریکی سفارت خانے کے عملے کی تعداد میں اضافہ کر کے دہشت گردوں، بلیک واٹر کے اجرتی قاتلوں اور سول کنٹریکٹروں کو سفارت کار کا درجہ دیا جائے گا۔ ان کو اسلحہ لیکر چلنے کی آزادی ہوگی۔ وہ اسلحہ سمیت پورے پاکستان میں گھوم پھر سکیں گے۔ افغانستان کی سرحد بھی ان کے لئے کھول دی جائے گی۔ یہ اُس 11نکاتی معاہدے کا حصہ تھا جس کے تحت جنرل ضیاء الحق نے افغان خانہ جنگی میں امریکہ کی مدد کرنے کا معاہدہ کیا اوراسی معاہدے کے تحت امریکہ نے افغان خانہ جنگی میں کامیابی حاصل کی ۔ سویت یونین کو شکست دی۔ اور مقبوضہ افغانستان میں بھارت کو اپنا شریک کار بنا لیا۔ آج بھی اُس معاہدے کے تحت امریکی سفارت کار اسلحہ لیکر پاکستان میں گھوم رہے ہیں۔ کرنل جوزف نے بھی اس معاہدے کا فائدہ اُٹھایا ہے اور امریکہ میں پاکستانی سفارت کاروں پر جو پابندی لگائی گئی ہے وہ اس معاہدے کا شاخسانہ ہے۔ کیونکہ معاہدہ یک طرفہ استشناء دیتا ہے۔ امریکہ میں پاکستانی سفارت کاروں کو استشناء نہیں دیتا۔ کیونکہ امریکہ کے پڑوس میں کوئی افغانستان نہیں ۔ وہاں امریکہ نے پاکستان کو کسی قسم کی رعایت نہیں دی۔ گذشتہ ماہ چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے اس پر کُھل کر اظہار خیال کیا اور برملا کہا کہ’’ 1978ء کے بعد آنے والے عشرے میں پاکستان سے سنگین سفارتی غلطیاں سرزد ہوئیں جن کے نتیجے میں آج ہمیں مشرقی اور مغربی سرحدوں پر دشمن کے حملوں کا سامنا ہے۔ اندرونی محاذ پر فرقہ واریت ، نسلی تعصب اور دہشت گردی نے ڈیرے ڈال دیئے ہیں‘‘۔ میرے خیال میںآج امریکہ کے ساتھ شرمناک معاہدے اور شراکت داری کی وجہ سے پاکستان میں 23مکتی باہنیاں پاکستانی فوج اور پاکستانی ریاست کے خلاف مسلح بغاوت پر آمادہ نظر آتی ہیں۔تازہ ترین امریکی اقدام کے جواب میں پاکستان کو تین کام فوری طور پر کرنے ہونگے۔ کرنل جوزف کو گرفتار کر کے اس پر ملٹری کورٹ میں مقدمہ چلایا جائے اور ایک ہفتے کے اندر اس کو سزائے موت دی جائے۔ پاکستان میں امریکی سفیر کو ناپسندیدہ شخصیت قرار دیکر ملک بدر کیا جائے اور امریکہ سے اپنے سفیر کو تاحکم ثانی واپس بلایا جائے۔ ایک آزاد اور خود مختار ملک کی حیثیت سے یہ کم سے کم اقدامات ہیں۔ ان اقدامات کے بعد آئندہ کسی امریکی یا بھارتی سفارت کار کو ’’ وائسرائے والا رویہ ‘‘ اختیار کرنے کی جرات نہیں ہوگی
نہ خنجر پہ لہو نہ دامن پہ کوئی چھینٹ
تم قتل کروہو یا کرامات کرو ہو