لواری ٹنل۔۔۔۔۔۔ معمہ یا مسئلہ
۔۔۔۔۔۔ سلیم بخاری۔۔۔۔۔۔۔
روزانہ لواری ٹنل کے بارے سنے میں آتا ہے کہ مسافرحضرات ساری رات، دیر سائیڈ پر انتظار کرتے ہیں۔ ڈرائیور یونین کی من مانی کی بچی کچی کسر ہوٹل مالکان پورا کرتے ہیں۔ یہ خبر بھی گردش میں ہے کہ دیر ہوٹل مالکان این ۔ایچ۔اے ذمہ داران کے ساتھ ملکر چترال کے سادہ لوح لوگوں کو تنگ کر رہے ہیں اور اپنا کاروبار چلا رہے ہیں۔ یہ بھی سنے میں آیا ہے کہ ان ہوٹل مالکان کو دیر ناظم اور سیاسی لیڈرز کی سرپرسی حاصل ہے۔تاہم اگر ٹنل کے کام کی نوعیت کو دیکھا جائے تو اسی فیصد کام مکمل ہوچکا ہے صرف رنگ وروغن کا کام باقی ہے۔
یہا ں دو سوالات پیدا ہوتے ہیں
۱۔ اگر ڈرائیور یونین من مانی کر رہی ہے توہمارا انتظامیہ خاموش تماشائی کیوں بن رہی ہے؟
۲۔اور اگر دیر ناظم ان ہوٹل مالکان کی سرپرستی کررہا ہے توہمارا ناظم صاحب کیوں خوشۂ گندم نہیں جلاتا؟
ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم چترالی ہیں۔ ہماری شرافت ہماری بے غیرتی بن چکی ہے۔ اس قوم کو اپنے حقوق دلوانے کے لےئے لیڈر نہیں مل پا رہا ہے۔ ہمارے پاس بات کرنے کے لئے فورمز نہیں ہیں، لوگ نہیں ہیں ۔چاہے ڈسٹرکٹ انتظامیہ ہو یا سیاسی دوا پیچ کے ماہر ، کوئی اس قوم کے زمہ داری اُٹھانے کو تیار نہیں ۔ اگر مندرجہ بالا باتیں سچ ثابت ہوتی ہیں تو لواری ٹنل ایک معمہ ہے مسئلہ نہیں۔ پھر ہمارا ڈسٹرکٹ انتظامیہ ، ناظم اعلیٰ اور سیاست دان مکمل طور پر ناکام ہو چکے ہیں ۔ چترالی قوم کو متبادل راستے ڈوھونڈنیں ہونگے ۔ہمیں دوسرے سہارے تالاش کرنے ہونگے۔ اور اگر مندرجہ بالا باتیں غلط ثابت ہوتی ہیں تو پھر اس مسئلے کو حل کیوں نہیں کیا جاتا۔؟ اور چترالی قوم کو اس کے سہولت سے کیوں محروم رکھا جارہا ہے۔ہمیں اس مسئلے کو یا معمے کو سنجیدگی سے دیکھنا ہوگا ورنہ اس کے دورست نتائج درست نہیں ہونگے۔
ایسے دستور کو صبح بے نور کو
میں نہیں مانتا ،میں نہیں جانتا۔(حبیب جالب)