ذوق نظر۔۔۔۔ معلّمی ایک مقدس پیشہ۔۔۔ تحریر فخرالدین فخر
آج اخبا ر پڑھتے ہوئے ایک خبر نظر سے کذری اور میں چونک سا گیا۔ ذرا تفصیل سے پڑھا اور پڑھا ہی نہیں گیا ۔انکھیں بھیگ گئی اور ایک طرح سے صدمہ ہی ہوا کہ کاش ایسا نہ ہوتا ۔خبر یہ تھی کہ ایک معصوم سی بچی سکول میں فیل ہونے پر اپنی ذہنی توازن کھو بیٹھی۔مجھے تو واقعی بڑا ہی دکھ ہوا ۔یہ کوئی معمولی بات نہیں تھی ۔کافی دیر گومگو کی سی کیفیت طاری رہی۔ اور پھر اپنے تعلیمی نظام پرماتم کر نے بیٹھ گیا ۔آپ اگر تعلیمی شعبہ سے تعلق رکتھے ہیں تو آپ کے لئے یہ کو ئی اہم خبر نہ ہوگی ۔کوئی پاس ہو فیل آپ کو اس کیاعرض۔آپ کا ایک مسلمہ اصول ہے کہ کوئی رٹا لگا کے سبق یاد کرے تو پاس ورنہ فیل۔آ پ سے میری کوئی شکایت نہیں ۔آپ اس اصول کی پابندی ضرور کریں ۔ لیکن میں تو اپنے تعلیمی نظام کو رو رہا ہوں۔یہ آخر کب تک یو نہی چلے گا کچھ تو بہتری آنی چاہیے تھی ۔مگر افسوس یہ ہو نہ سکا ۔اور آج یہ عالم ہے کہ نہ جانے کتنی معصوم ذہین اس درآمد شدہ نظام کی وجہ سے ذہنی پراگندگی کا شکار ہو گئے ہو۔اس میں معماران قوم کو ذہنی ،جسمانی ،اخلاقی اور معاشرتی تربیت کی بجائے روزبروز مسائل کی طرف دھکیلا جاتا ہے ۔اور حسابی ہیر پھیر سے شرح خواندگی بڑھا چڑھا کے پیش کی جاتی ہے۔تاکہ ہم تعلیم یافتہ کہلاسکیں۔ اورپھر اسی تعلیم یافتہ معاشرے سے اساتذہ بھر تی کی جاتی ہیں ۔جنکا اپنا علم صرف کتابی ہوتا ہے ۔وہ بچوں کی نفسیات کا ادراک کیسے رکھے گا ذندگی کے تجربات سے بھی سبق لینا انکے ڈکیشنری میں ہے ہی نہیں ۔ ان کو بس مہینہ کی پہلی تاریخ ہی بھلی لگتی ہے ۔
ہمارے پیارے نبی ﷺ نے یہ فرماکر کہ میں معلم بناکے بھیجا گیا ہوں ،ایک معلم کی معاشرے میں عزت و توقیر پیدا کی ہے ۔معلمی ایک مقدس پیشہ ہے اور اپنے شاگردوں کے لئے ایک مثال ہوتا ہے ۔ایک معلم کی بہتر تربیت ہی کی بدولت تعلیمی نظام کے مقاصد حاصل کی جاسکتی ہے ۔جیسے بھی ہو سر کاری سکولوں میں تربیت کے نام پر کچھ نہ کچھ سکھایا جاتا ہیں۔مگر یہ تربیت بھی اکثر اغیار کی ذریں خیالات سے ماخوذ ہوتی ہیں ۔پرائیویٹ سکولوں میں بھرتی کا معیار صرف اتنا ہے کہ امیدوار استاد کتنی کم تنخواہ پر ©©©”کام”چلا سکتا ہے ۔اگر ایک معلم کی تقرری انکے علم ،کردار ،اسلامی معلومات،بچوں کی نفسیات سے آگاہی اور اخلاص کی بنیاد پر ہو تو بچے کی ذہنی نشوونما بہتر انداز میں کی جاسکتی ہے۔ معاشرتی بگاڑ یا نا ہمواری ،ذہنی پراگندگی ،اخلاقی بگاڑ ،یا پھر اعلٰی ذہنی معیار ،مفید شہری ،باکردار شخصیت صرف اور صرف ایک معلم کی بدولت ہی ممکن ہیں۔
لہٰذا ضرورت اس امر کی ہیں کہ ایک استاذ جسکا تقرر ہو تا ہے ۔ اس کو پوری طرح NTSکے حوالے کرنا معماران قو م کے ساتھ ظلم کے مترادف ہے ۔کیونکہ ٹسٹ کے معیار کو پیچیدہ بنانے سے تعلیمی مقاصد حاصل نہیں ہو تے ۔سرٹیفیکیٹ یا ڈگری سے ہی یہ معلوم نہیں ہو سکتا کہ امید وار جس کا تقرر ہوتا ہے کتنا اچھا استاد ہو سکتاہے۔اس لئے زیادہ توجہ ٹسٹ کو پیچیدہ کر نے پر دینے کی بجائے انکے کردار ،اسلامی سوچ و فکر بچوں کی نفسیات سے واقفیت ۔اخلاص و کردار کو اہمیت دینی چاہیے ۔تاکہ ایک استاذ محنت(رٹا لگا کے)کے اصول پرپاس یا فیل کا فیصلہ نہ کرے بلکہ دوسرے عوامل پر بھی اسکی نگاہ ہو تاکہ اور کوئی بچہ اس قسم کی صورت سے دوچار نہ ہو۔