235

اخوت و بھلائی کے فروغ کی ضرورت۔۔۔تحریر: رانا اعجاز حسین چوہان 

بلاشبہ اسلام اللہ ربّ العزت کا وہ پسندیدہ دین ہے جو ایک طرف بندوں کا رشتہ معبود حقیقی سے مضبوط کرتا ہے تو دوسری طرف انسانوں کے درمیان محبت وبھلائی اور بھائی چارے کی فضا قائم کرتا ہے۔یہی وہ ضابطہ حیات ہے جو بحیثیت انسان ہرایک کو محترم سمجھتا اور انسانیت کی اعلیٰ قدروں کا تحفظ کرتا ہے ۔قرآن مجید فرقان حمید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ’’مسلمان تو آپس میں بھا ئی بھائی ہیں،سو دو بھائیوں کے درمیان صلح کروا دیا کرو،اور اللہ سے ڈرتے رہا کرو۔تاکہ تم پر رحمت کی جائے۔ (سورۃ الحجرات آیت نمبر 10)۔ اس آیت میں جہاں اللہ تعالیٰ نے ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان سے باہمی تعلق اور رشتہ بیان فر مایا ہے ، وہاں دو لڑنے والوں کے درمیان اختلاف اور لڑائی میں صلح کرانے کی تلقین فرمائی ہے ، اور باہمی تعلقات میں خوف الٰہی سے کام لینے کو موجب رحمت قرار دیا ہے۔در حقیقت اسلام دین فطرت ہے اور اس کے مادے میں امن اور سلامتی اور صلح و صفائی کا وسیع معنی موجود ہے۔ چنانچہ اس دین نے ایک دوسرے کے خون کے پیاسوں کو آپس میں بھائی بھائی بنادیا، صدیوں پرانی دشمنیوں کو گہری دوستی میں تبدیل فرما دیا۔سورۃ آل عمران میں ارشاد باری تعالیٰ ہے’’اور سب مل کر اللہ کی رسی کو تھامے رکھو اور تفرقے میں نہ پڑو۔اور تم پر اللہ تعالیٰ کا جو انعام ہے اس کو یاد کرو۔جب کہ تم (ایک دوسرے کے ) دشمن تھے ،پس اللہ تعالیٰ نے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی۔سو خدا کے فضل سے آپس میں بھائی بھائی بن گئے‘‘۔ مومن کے باہمی تعلق کو خود حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ارشادات کے زریعے مذید واضح انداز سے بیان فرمایا ہے۔مسند احمد میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا’’مومن سراپا محبت والفت ہے ،اس شخص میں کوئی خیر نہیں جو کسی کی الفت نہ رکھتا ہو، اور نہ کوئی اس سے انسیت رکھتا ہو‘‘۔صحیح بخاری و مسلم میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک کامل مومن نہیں ہو سکتاجب تک کہ اپنے مسلمان بھائی کے لیے وہی نہ چاہے جو اپنے لئے پسند کرتا ہے۔سنن ابوداؤد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے’’ایک مومن دوسرے مومن کا آئینہ ہے،اور ایک مومن دوسرے مومن کا بھائی ہے،ضرر کو اس سے دفع کرتا ہے،اور اس کی پاسبانی اور نگرانی کرتا ہے۔صحیح بخاری و صحیح مسلم میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ایک مسلمان پر دوسرے مسلمان کے پانچ حقوق ہیں(1) سلام کا جواب دینا، (2) مریض اور بیمار کی عیادت کرنا، (3) جنازے کے ساتھ چلنا ،(4) دعوت قبول کرنا، (5) چھینکنے والے کے لیے الحمدللہ کہنے پر اسے یرحمک اللہ کہنا‘‘۔ صحیح مسلم میں حضرت نعمان بن بشیررضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔’’سارے مسلمان ( ایک اللہ، ایک رسول ، اور ایک دین کو ماننے کی وجہ سے )ایک شخص (کے اعضاء و بدن ) کے مانند ہیں۔کہ اگر ایک کی آنکھ درد ہوتی ہے تو سارا بدن بے چین ہو جاتا ہے۔ اور اگر اس کا سر درد کرتا ہے تو اس کا سارا بدن تکلیف محسوس کرتا ہے‘‘۔
اسی طرح ایک مسلمان کی تکلیف کا کرب سارے مسلمانوں کو محسوس کرنا چاہیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا’’مسلمان تو وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرا مسلمان محفوظ ہے۔‘‘ اسی طرح ایک مسلمان کی تکلیف کو سارے مسلمانوں کو محسوس کرنا چاہیے۔لیکن غور طلب ہے کہ آج ہم دین اسلام کی ان بہترین تعلیمات اور حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے پیا رے ارشادات کے باوجود کیا کر رہے ہیں، کس طرف جا رہے ہیں۔ آج نہ تو کوئی مسلمان دوسرے مسلمان کی اذیت اور تکلیف سے محفوظ ہے اور نہ ہی اس کا مال اور جان محفوظ ہے۔در حقیقت آج بہت کم مسلمان اسلام کی ان روشن تعلیمات پر عمل پیرا اور متحد ہیں ، اور بہت سے مسلمان مذہبی اور سیاسی بنیادوں پر تفرقہ بازی کا شکار ہو کر گروہ در گروہ بٹتے چلے جا رہے ہیں، اور صرف ذاتی نظریات کی بناہ پر ایک دوسرے کے قتل تک کو جائز سمجھ لیا ہے ۔قومیت اور عصبیت کی آڑ میں معاشرتی قدروں کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں۔بعض مسلمان تو تعصب میں اتنا آگے بڑھ گئے ہیں کہ نبی پاک محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کو بھی فراموش کر دیا، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’ وہ شخص ہم میں سے نہیں ہے جو لوگوں کو عصبیت کی طرف بلائے ،اور وہ شخص بھی ہم میں سے نہیں ہے جو عصبیت کی خاطر جنگ وجدال کرے ،اور وہ شخص بھی ہم میں سے نہیں جو عصبیت کی خاطر لڑتا ہوا مارا جائے‘‘۔ پس اپنے ایمان کی مضبوطی خاطر ہمیں باہمی اخوت اور بھلائی کو فروغ دینا چاہیے ، نفرتوں کی بجائے محبتوں کو فروغ دینا چاہیے ، اور اللہ تعالیٰ کی رسی کو مظبوطی سے تھا متے ہوئے آپس کے بے جا اختلافات کو بھلا کر ، بغض ، کینہ و عناد کو سینے سے نکال کر باہم اخوت اور بھائی چارے اور امن و سلامتی کو فروغ دینا چاہیے ۔جب ہی ہم اچھے انسان اور اچھے مسلمان اور محسن انسانیت نبی کریم محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے اچھے امتی بن سکتے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں