315

کتّے صرف بھونکتے ہی ، نہیں کاٹتے بھی ہیں۔۔۔۔۔پروفیسررفعت مظہر 

عظیم مزاح نگار، لکھاری، شاعر، ڈرامہ نگار اور دورِحاضر میں اُردو ادب کی آن بان شان، محترم عطاء الحق قاسمی کا کالم ’’کتوں کو بھونکنے دیں‘‘ پڑھ کر تحریک ہوئی کہ ہم بھی اُستادِ گرامی کے اِس کالم کا ’’چربہ‘‘ لکھیں۔ ہم چونکہ ’’اقراری مجرم اور ’’وعدہ معاف گواہ بننے کے لیے تیا رہیں، اِس لیے ہمیں ’’نَیب‘‘ سے بھی کوئی خطرہ نہیں کیونکہ وعدہ معاف گواہ بنانا نیب کو بہت مرغوب ہے۔ دروغ بَر گردنِ راوی جو’ ’انکاری‘‘ ہو، نیب اُسے ’’گِدڑکُٹ‘‘ لگانے سے بھی گریز نہیں کرتی۔ بیچاری نیب بھی کیا کرے، اُس نے چونکہ ’’حقِ نمک‘‘ ادا کرنا ہوتا ہے ، اِس لیے ’’ایویں خوامخواہ‘‘ بھی اُس کی ’’آنیاں جانیاں‘‘ جاری رہتی ہیں۔
بات کو ’’کچی لَسّی‘‘ کی طرح بڑھانے کی بجائے ہم اصل موضوع کی طرف پلٹتے ہوئے عرض کرتے ہیں کہ ہمیں اُستادِ گرامی کی بہت سی باتوں سے اتفاق، مگرچند سے جرأتِ اختلاف بھی۔ مثلاََ اُنہوں نے لکھا ’’میں ممکن حد تک کتّوں کے ذکر سے اجتناب کرتا ہوں البتہ اُنن کے بنیادی حقوق کے لیے ہمیشہ آواز اُٹھاتا رہا ہوں اور آئندہ بھی اُٹھاتا رہوں گا۔ میرے نزدیک بھونکنا اُن کا بنیادی حق ہے‘‘۔ عرض ہے کہ بھونکنے کی حد تک تو گوارا مگر جب وہ کاٹ کھانے کو دوڑتے ہیں تو بڑے بڑے طُرم خاں بھی ’’دُڑکی‘‘ لگا جاتے ہیں۔ پاکستان میں کتّوں کا جو ’’قبیلہ‘‘ پایا جاتا ہے اُس نے کسی نامعقول انگریز کی یہ قول غلط ثابت کر دیا کہ ’’Barking Dogs seldom bite‘‘۔ انگریزوں کے ہاں ایسے کتّے پائے جاتے ہوں تو ہوں جو بھونکتے ہیں تو کاٹتے نہیں۔ ہمارے ہاں تو بھونکتے بھی ہیں اور کاٹتے بھی، گرجتے بھی ہیں اور برستے بھی۔ یہی نہیں بلکہ ’’ہڈی‘‘ کی خاطر اپنے ہی ’’پیٹی بھائیوں‘‘ کے ساتھ اُلجھتے بھی رہتے ہیں۔ دراصل مألہ سارا ’’ہڈی‘‘ کا ہے۔ اُنہیں جس دَر سے ہڈی مل جائے، اُسی کے آگے کھڑے ہو کر دوسروں پر بھونکتے رہتے ہیں۔ اِس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ کسی ایک دَر کے ہو رہتے ہیں۔ اُن کی ’’وفاداری‘‘ انتہائی مشکوک کہ اگر اُنہیں ہڈی کے ساتھ ’’بوٹی‘‘ بھی مل جائے تو وہ نہ صرف ’’آقا‘‘ بدل لیتے ہیں بلکہ پرانے آقا پر بھونکنے میں دیر بھی نہیں لگاتے۔ اِس لیے ہم یہ ماننے کے لیے ہرگز تیار نہیں کہ کتّے وفادار ہوتے ہیں اور جو وفادار نہیں، اُس کا کوئی ’’بنیادی حق‘‘ بھی نہیں۔ ہماری مدبرانہ رائے ہے کہ ایسے کتّوں پر کوئی ’’دفعہ‘‘ لگا کر اُنہیں اوّلین فرصت میں ’’دفع دور‘‘ کر دینا چاہیے۔
اُستادِگرامی نے لکھا ’’کئی لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ کتّے بلاوجہ بھونکتے رہتے ہیں۔ میرے خیال میں ایسا کہنا زیادتی ہے کیونکہ کوئی کتّا بلاوجہ نہیں بھونکتا۔ اعتراض کرنے والوں اورخود مجھے علم نہیں کہ جب وہ بھونکنے کی صورت میں گفتگو کر رہے ہوتے ہیں، وہ آپ کو کیا کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں‘‘۔ یہاں اُستادِگرامی کتّوں کے حق میں ڈنڈی مار گئے۔ وہ خوب جانتے ہیں کہ پاکستان میں کتّوں کی غالب اکثریت بِلاوجہ ہی بھونکتی ہے، فلسفہ و تفلسف کی گُتھیاں نہیں سلجھا رہی ہوتی۔ بھائی عطاء الحق قاسمی کے نزدیک یہ تعصب کی انتہا ہے کہ ہم نے کتّوں کی زبان کا نام ’’بھونکنا‘‘ رکھ دیا ہے۔ فرماتے ہیں ’’وہ بیچارے اگر آپس میں معقول بات بھی کر رہے ہوں تو ہم اُسے بھونکنے کے زمرے میں شامل کرتے ہیں‘‘۔ بصد ادب عرض ہے کہ کوئی کتّا ’’بیچارہ‘‘ ہو ہی نہیں سکتا۔ جسے دَر بدلنے کی عادت ہو اور جس کے لیے ہر ’’دَر‘‘ کھلا بھی ہو، وہ بھلا بیچارہ کیسے ہوگیا؟۔ ۔۔۔ دوسری بات یہ کہ کوئی کتّا ہو یا کتّے کا بچہ، اُس کے مُنہ سے ’’معقول بات‘‘ نکل ہی نہیں سکتی کیونکہ معقولیت اُس کی سرشت میں شامل ہی نہیں۔ وہ دوغزلے کہہ رہے ہوں، سہ غزلے یا کسی ’’ٹاک شو‘‘ میں بیٹھے ہوں، صرف بھونک ہی رہے ہوتے ہیں اور اُن کے بھونکنے کا محورومرکز ہڈی کا حصول ہوتا ہے، محض ہڈی کا حصول۔ پہلے کتوں سے بچاؤ کے لیے کہا جاتا تھا ’’اِس کے گلے میں پٹہ ڈال کے رکھو‘‘۔ اب جس کے گلے میں پٹہ ہوتا ہے، وہی زیادہ بھونکتا ہے۔ شاید وہ اِس زعم میں مبتلاء ہو جاتا ہے کہ اُس کا مالک بہت ’’تَگڑا‘‘ ہے، اِس لیے اُسے بھونکنے کاٹنے کی مکمل آزادی ہے۔
قاسمی بھائی کے کالم سے اختلاف کی گنجائش تو اور بھی بہت لیکن اُن کی شدید ناراضی کے خوف کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے چلیں موضوع بدل کر’’غمِ دوراں‘‘ کی بات کرتے ہیں۔پچھلے دنوں پنجاب اسمبلی نے اپنے اجلاس میں ایسا کھڑاک کیا جس کی گونج ابھی تک فضاؤں میں ہے۔ پنجاب اسمبلی کا وہ منظر انتہائی حیر ت ناک تھا جب حکومت اور اپوزیشن کے ارکان آپس میں یوں مل بیٹھے جیسے ’’ٹِچ بٹناں دی جوڑی‘‘۔ قوم کو پنجاب اسمبلی کے حمام میں سبھی ننگے نظر آئے۔ اجلاس میں وزیرِاعلیٰ پنجاب اور ارکانِ اسمبلی کی تنخواہوں کا ترمیمی بِل پیش کیا گیا جسے ’’پلک جھپکتے‘‘پاس کر لیا گیا۔ اِس بِل کے مطابق وزیرِاعلیٰ پنجاب کی تنخواہ 59 ہزار سے بڑھا کر ساڑھے 3 لاکھ اور ارکانِ اسمبلی کی تنخواہوں میں 3 گنا اضافہ کر دیا گیا۔ اِس کے علاوہ وزیرِاعلیٰ کے لیے لاہور میں ذاتی گھر اور سابق ارکانِ اسمبلی کے لیے تاحیات علاج معالجے کی سہولت بھی دے دی گئی۔ وزیرِاعلیٰ اور ارکانِ اسمبلی کی ’’توندیں‘‘ بھرنے کے لیے ’’نزلہ بر عضوِضعیف می ریزد‘‘ کے مصداق بیچارے پنجاب ملازمین کے کئی الاؤنسز ختم کر دیئے گئے۔ وزیرِاعلیٰ صاحب نے شائد سوچا ہو گا کہ اگر بلوچستان کا وزیرِاعلیٰ 6 لاکھ روپے ماہانہ لیتا ہے اور وزراء ساڑھے 4 لاکھ تو وہ کیا کسی سے کم ہیں۔ آخر پنجاب آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ ہے اور یہاں غربت کا تناسب بھی دیگر صوبوں کی نسبت کم ہے اِس لیے پنجاب کے ’’رَہنماؤں‘‘ کی کم از کم اتنی تنخواہ تو ہونی ہی چاہیے۔ ویسے بھی ہر کسی کو اپنا ’’مستقبل‘‘ سنوارنے کا پورا حق ہے اِس لیے اگر تنخواہوں اور مراعات میں اضافہ کر دیا گیا تو کیا برا کیا۔ لیکن وزیرِاعلیٰ کی یہ سوچ وزیرِاعظم کو پسند نہیں آئی ۔
ایک لاکھ بانوے ہزار ماہانہ تنخواہ لینے والے وزیرِاعظم عمران خاں نے جب عثمان بزدار کی ساڑھے تین لاکھ تنخواہ کا سُنا تو وہ غصّے سے کھول اُٹھے۔ اُنہوں نے اپنی شدید ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ’’اِس طرح کے فیصلوں کا دفاع نہیں کیا جا سکتا۔ اُنہوں نے گورنر پنجاب کو پنجاب اسمبلی کی طرف سے بھیجے گئے بِل پر دستخط کرنے سے روک دیا۔ شیریں مزاری نے کہا کہ تنخواہوں میں اضافے کا یہ فیصلہ شرمناک ہے۔ فوادچودھری بولے، اُمید ہے تنخواہوں کے اِس فیصلے پر نظرِ ثانی ہوگی۔ دیگر ارکانِ قومی اسمبلی نے بھی حسبِ ضرورت اپنا حصّہ ڈالا لیکن پنجاب اسمبلی کے سارے ’’چاچے مامے‘‘ اِس بِل میں اضافے پر متفق ومتحد۔ ڈپٹی سپیکر پنجاب اسمبلی (جس کا تعلق تحریکِ انصاف سے ہے) نے تو اِس بِل کے حق میں باقاعدہ تقریر ہی جھاڑ دی البتہ وزیرِاعلیٰ پنجاب عثمان بزدار تا حال خاموش اور پریشان۔ غالباََ یہ واحد فیصلہ ہے جوا نہوں نے وزیرِاعظم سے پوچھے بغیر کیا اسی لیے وہ پریشان بھی ہیں۔ مجبورومقہور اور راندہ درگاہ قوم اکابرینِ تحریکِ انصاف کو پکار پکار کے کہہ رہی ہے
تم رکھ نہ سکے اپنی جفاؤں کا بھرم بھی
تم نے میرا اُمید سے کم ساتھ دیا ہے
اے قافلے والو میری ہمت کو سراہو
ہر چند کہ زخمی ہیں قدم ، ساتھ دیا ہے
اُدھر قوم کو صبر کی تلقین اور اِدھر ’’توندیں بھرنے‘‘ کی تگ ودَو۔ کیا یہی تھا تحریکِ انصاف کا پروگرام؟۔ کیا اِسی لیے عوام نے اقتدار کا ہما اُن کے سر پر بٹھایا؟۔ کیا یہی ’’تبدیلی‘‘ اور ’’نیا پاکستان‘‘ ہے؟۔ کیا اِسی کو ’’ریاستِ مدینہ کہتے ہیں؟۔
وزیرِاعظم صاحب نے گورنر پنجاب کو بِل پر دستخط کرنے سے روک تو دیا لیکن اُن کا یہ اقدام خلافِ آئین ہے۔ آئین کے آرٹیکل 116 میں وضاحت کر دی گئی ہے کہ گورنر کسی بھی فنانس بِل کو متعلقہ اسمبلی میں واپس بھیجنے کا مجاز نہیں البتہ دوسرے تمام بِل ترمیم کے لیے واپس بھیجے جا سکتے ہیں۔ اب صورتِ حال یہ کہ یہ بِل گورنر صاحب کی میز پر ہے اور وہ اِسے 10 روز کے اندر دستخط کرکے واپس بھیجنے کے پابند ہیں۔ وہ کسی بھی بل کو غیرمعینہ مدت تک اپنے پاس روک کے نہیں رکھ سکتے۔ اگر وہ دستخط نہیں بھی کرتے تو پھر بھی 10 روز کے بعد یہ بِل منظور تصور کیا جائے گا۔ اب وزیرِاعظم کے حکم کی بجاآوری صرف ایک ہی طریقے سے ہوسکتی ہے کہ پنجاب اسمبلی نیا ترمیمی بِل ایوان سے منظور کروا کے گورنر صاحب کو بھیجے لیکن پنجاب اسمبلی کا سیشن تو ختم ہوچکا اور نئے اجلاس کے لیے ابھی تک کسی نے ریکوزیشن بھی نہیں دی۔ ویسے بھی اگر ارکانِ پنجاب اسمبلی ڈَٹ گئے تو وزیرِاعظم کا حکم ’’ٹائیں ٹائیں فِش‘‘ ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں