285

احتساب کمیشن اورانصاف۔۔۔۔۔۔سیّد ظفر علی شاہ ساغرؔ

یہ بات شائدسب کی علم آچکی ہے کہ2014 کوخیبرپختونخوامیں منتخب اسمبلی سے باقاعدہ ایکٹ کی منظوری کے تحت وجودمیں آنے والے صوبائی احتساب کمیشن کے ڈائریکٹرجنرل لیفٹیننٹ جنرل (ر)حامد خان نے اختیارات پر اختلافات کے باعث اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے اور ان کے مطابق اب وہ ڈی جی احتساب کمیشن نہیں رہے۔ ڈی جی حامد خان نے مستعفی ہونے کے بعد کہاکہ انہوں نے احتساب کمیشن کوبدعنوانی کے خلاف مشن سمجھ کر یہ عہدہ قبول کیاتھامگراب صوبائی حکومت کی جانب سے اس ایکٹ میں ترامیم لانے کے بعداس کمیشن کی اہمیت نہیں رہی۔ان کے مطابق اس ایکٹ میں احتساب کے عمل کاجوعنصر تھاوہ انتہائی متاثرہوگیاہے اور صوبائی حکومت نے احتساب کمیشن کی خودمختاری واپس لے لی ہے جوکہ اس ادارے کاوجود ختم کرانے کے مترادف ہے۔دوسری جانب جائزہ لیاجائے توخیبر پختونخوا حکومت کی جانب سے صوبائی احتساب کمیشن کاقیام انتہائی اچھااقدام تھااس کمیشن نے اپنے قیام کے بعدمالی بے ضابطگیوں کے خلاف کے پی کے میں بڑے پیمانے پر کاروائیاں کیں جن میں صوبائی وزیرمعدنیات اور پی ٹی آئی کے رہنماء ضیاء اللہ افریدی کی گرفتاری سمیت موجودہ اور سابق دور کے کئی اہم سیاسی شخصیات اورسرکاری اہلکاروں کے خلاف تحقیقات مکمل کرکے مقدمات درج کئے۔واضح رہے کہ اس کمیشن کے خلاف مبینہ طورپر پشاورہائی کورٹ میں ایک رٹ بھی دائرکی گئی تھی تاہم ہائی کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے مذکورہ رٹ خارج کرتے ہوئے صوبائی حکومت کو کمیشن کے قانون میں ترامیم کی ہدایت کی تھی مگربتایاجاتاہے کہ ترامیم کے معاملے پر کمیشن کے ڈی جی کواعتراضات اورتحفظات تھے اورانہوں نے وزیراعلیٰ پرویزخٹک اور پی ٹی آئی کے چیئرمین کوخط لکھ کر اپنے تحفظات سے آگاہ بھی کردیا تھا۔مستعفی ہونے والے ڈی جی کامزید کہنایہ ہے کہ پہلے عمران خان کہتے تھے کرپشن کرنے والوں کوپکڑومگر جب پکڑنے لگے تواب پکڑنے نہیں دیاجارہاہے۔حامد خان کے مطابق وائٹ کالر کرائم کی 30 دن میں تحقیقات نہیں ہوسکتیں بلکہ اتنے عرصے میں تحقیقات کرانے کا مطلب ملزم کو کلین چٹ دیناہوتاہے۔اگرچہ پی ٹی آئی کے شفقت محموداور اسدعمرجیسے سینئر رہنمائاور شاہ فرمان جیسے صوبائی وزراء احتساب کمیشن کے قانون میں ترامیم کے معاملے پرصوبائی حکومت کادفاع کرتے ہوئے طرح طرح کے جوازڈھونڈرہے ہیں مگران حقائق کو نظراندازنہیں کیاجاسکتاکہ حامد خان نے احتساب کمیشن کے قانون میں ترامیم کو بنیاد بناکر ڈی جی احتساب کمیشن کے عہدے سے استعفیٰ دیاہے اور اب کھل کر اعتراضات بھی اٹھارہے ہیں۔اگرانہیں ان کے عہدے سے سبکدوش کیاجاتاتو شائد ان کی باتوں میں اتناوزن نہ ہوتامگرمخدوم جاوید ہاشمی اورجسٹس(ر)وجیہ الدین کے بعداہم عہدے پر فائزیہ تیسراشخص ہے جواپنے عہدے سے مستعفی ہونے کے بعد اعتراضات اٹھا کرلب کشائی پر اتر آئے ہیں اوریہ توابھی شروعات ہیں گوکہ اس سوال کاجواب تو آنے والا وقت ہی دے گاکہ وہ الزامات اور اعتراضات کاسلسلہ جاری رکھیں گے جوکہ عمران خان کے لئے مسلسل دردسرہوگا یاجوکہناتھاوہ کہہ دیاپر اکتفاء کرتے ہوئے خاموش بیٹھ جائیں گے البتہ یہ کہناغلط نہیں ہوگاکہ ان کے استعفے اوراحتساب کمیشن کے قانون میں مبینہ ترامیم کے اقدام سے سیاسی مخالفین بالخصوص نون لیگ والوں کوعمران خان اور ان کی جماعت تحریک انصاف پر کھل کرالزامات لگانے کاموقع ہاتھ آگیاہے اور وہ اس موقع کو آسانی سے ہاتھ سے جانے نہیں دے رہے ہیں بلکہ عمران خان اور ان کی جماعت کے خلاف ہرزہ سرائی کرتے ہوئے سیاسی فائدہ لینے کی بھرپورکوشش کررہے ہیں۔اس ضمن میں وفاقی وزیر اطلاعات سینیٹر پرویزرشید کی لب کشائی کچھ یوں ہے کہ انصاف کانظام رائج کرنے والوں کے چہروں سے نقاب ہٹ چکاہے،خیبرپختونخوامیں 90دن میں کرپشن توختم نہیں ہوئی مگرکرپشن کی روک تھام کے لئے قائم ادارہ ختم ہوگیا،ان کے مطابق خیبر پختو نخواکی حکومت کرپشن کے الزام میں گرفتارصوبائی وزیر کوبچانے کی کوشش کررہی ہے اور یہ اس لئے کہ گرفتاروزیرنے سب کے کرتوت سامنے لانے کی دھمکی دی ہے۔انہوں نے کہاہے کہ عمران خان کے بدعنوانی کے خلاف دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے ہیں جبکہ وہ اپنی جماعت میں منصفانہ انتخابات کرانے کی راہ میں بھی بڑی رکاؤٹ بن رہے ہیں۔پنجاب حکومت کے ترجمان زعیم قادری اور دیگر لیگی رہنماء بھی عمران خان اور ان کی جماعت کے خلاف اسی طرح کی ہرزہ سرائیوں میں مصروف عمل ہیں اور ہوں گے بھی کیوں نہیں جب عمران خان مختلف ایشوزپر وزیراعظم اوران کی جماعت کوموردالزام ٹھراتے ہیں توبھلاوہ کیسے چپ رہ سکتے ہیں۔مگرسوال یہ اٹھ رہاہے کہ عمران خان ایساکیوں کررہے ہیں جس سے نہ صرف ان کے سیاسی مخالفین کو انگلی اٹھانے کاموقع ملتاہے بلکہ اس سے ان کی اپنی باتوں کی بھی نفی ہوجاتی ہے۔وفاقی حکومت نے پی آئی اے ملازمین کی ہڑتال کوناکام بنانے کی غرض سے پی آئی اے میں لازمی سروس ایکٹ نافذکیاجس پر عمران خان نے حکومت پر خوب تنقید کی اور ایساکرنے سے ان کی سیاسی ساکھ بھی بہتر ہور ہی تھی مگر اگلے دن جب خیبرپختونخوامیںینگ ڈاکٹرزاور پیرامیڈکل عملہ نے اپنے حقوق کے احتجاج کرتے ہوئے ہڑتال کردی توپی ٹی آئی کی حکومت نے ٹھیک وہی قانون محکمہ صحت میں نافذ کردیا۔ڈاکٹرزاور محکمہ صحت کے دیگر ملازمین کی ہڑتال اور احتجاج کی حمایت کانون لیگ پر الزام لگاتے ہوئے عمران خان کہتے ہیں کہ پی آئی اے میں لازمی سروس ایکٹ نافذکرنے والے ڈاکٹرزکے احتجاجی کیمپ میں جابیٹھے مگراب جب نون لیگ سوال اٹھارہے ہیں کہ عمران خان کی پارٹی حکومت نے محکمہ صحت میں وہی ایکٹ نافذ کیوں کیاتواس کاعمران خان کیاجواب دیں گے یہی کہ میں کچھ بھی کروں توٹھیک مگر کسی اور کوایساکرنے کی اجازت نہیں۔اگرچہ پی ٹی آئی کایہ مؤقف بڑی حد تک درست ہے کہ خیبرپختونخواکی حکومت نے ہائی کورٹ کے حکم کی روشنی میں یہ ایکٹ نافذکیاہے مگر اس کے باوجود جمہوریت کی علمبردارپی ٹی آئی جیسی جماعت کے سامنے جواب طلب سوال یہ ہے کہ کیاجمہوریت میں کسی کواپنے حقوق کے لئے اواز اٹھانے اور احتجاج کرنے سے روکاجاسکتاہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں