Mr. Jackson
@mrjackson
مضامین

خونِ مسلم کی ارزانی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پروفیسرمظہر

اُجڑی بستیاں، خون آلود گلستان، نوحے دَردَر، ماتم گھرگھر، دشت ودمن لہولہو، صحنِ چمن لہولہو، فضائیں خون کی بُو سے مسموم اور مائیں اُجڑی گودوں کا ماتم کرتی ہوئیں۔ بے سروساماں مسجودِملائک اور آسماں کی وسعتوں کو تکتے پتھر چہرے جن کی دست گیری کرنے والے ہاتھ خوف کی چادر اوڑھے ہوئے۔ یہ ہے غزہ کی بستی جس سے پنچھی بھی ٹھکانے بدل چکے۔ ایک غزہ ہی کیا، خونِ مسلم کی ارزانی جابجا۔ جرمِ ضعیفی کی سزا کاٹتے 2 ارب مسلمان بپھرے ہوئے عفریت کے جبڑوں میں۔ پھربھی عالمی زورآوروں کا صرصر کو صبا کہنے کا حکم۔ غیروں کا خوف اتنا کہ تکذیب، تنقیداور تنقیص کو لبوں تک لاتے ہوئے بھی لُکنت طاری جو حضورِاکرم ﷺ کے فرمان کے مطابق کمزورترین ایمان کی نشانی۔ شوریدہ سَر غیروں کا ہاتھ قومِ مسلم کی کلاہ ودستار پر اور اُن کی رگوں سے کشید کیاہوا لہو اہلِ مغرب کے لیے کُشتہئ شاہی۔ اِس کے باوجود بھی ہم ”اپنے گھوڑے تیار رکھنے“ کے لیے راضی نہیں کہ خوفِ عدو دامن گیر۔
ایک غزہ ہی کیا پورا عالمِ اسلام غیروں کی ریشہ دوانیوں کا شکار۔ جنت نظیر وادیئ کشمیر خونم خون۔ لاکھوں کشمیری شہید ہوچکے اور اسرائیل سے درآمد شدہ پیلٹ گنوں سے ہزاروں اندھے۔ 5 اگست 2019ء کو گجرات کا ”بوچر“ نریندر مودی کشمیر ہڑپ کر گیا مگر ہم صرف احتجاج تک محدود۔ کشمیر کی بیٹیاں گھروں کے دروازے کھولے ایٹمی پاکستان کی راہیں تکتے ہوئے مگر یہاں بیٹی کی پُکار پرلبیک کہنے والا کوئی محمد بِن قاسم نہیں۔ ہم تو خود کشکولِ گدائی تھامے دَربدر، امداد کے منتظراِس لیے کشمیر کی بیٹیوں کو اپنے بے خواب کواڑوں کو مقفل کرنا ہی ہوگا۔ چشمِ فلک یہ خونی تماشا صرف کشمیر یا فلسطین ہی میں نہیں عراق، یمن، شام، لیبیا، تیونس، الجیریا اور ایران میں دیکھتی چلی آرہی ہے۔ نائن الیون کے بعد ہزاروں افغان مردوزَن اور بچے شہید ہوئے، لاکھوں بے گھر۔ ڈیزی کٹر بموں کی بوچھار میں افغانستان کے پہاڑ ریگزاروں میں تبدیل ہوئے۔ اِس اندھی اور بے چہرہ جنگ میں پاکستان کی شمولیت نے معیشت کو پاتال کی گہرائیوں میں دفن کیا اور ٹی ٹی پی کی دہشت گردی کی بھینٹ اسی ہزار پاکستانی چڑھے جن میں پاک فوج کے آٹھ ہزار جری جوان بھی تھے۔ لیبیا اور عراق کے صدور معمر قزافی اور صدام حسین کو نشانِ عبرت بنا دیا گیا۔ اِس کے باوجود بھی مسلم اُمّہ خاموش ”ٹک ٹک دیدم، دَم نہ کشیدم“ کی عملی تصویر۔ پتہ نہیں مشرقِ وسطیٰ، شمالی اور مغربی افریقہ، وسطی اور جنوب مشرقی ایشیا، یورپ اور جنوبی امریکہ کے 57 مسلم اکثریتی ممالک پر مشتمل تنظیم او آئی سی کیوں تشکیل دی گئی۔جہاں تک ہم جانتے ہیں اِس تنظیم کا مقصد مسلم اُمہ کی بہتری کی بجائے نشستن، گفتن، برخاستن تک ہی محدود۔ سعودی عرب کے زیرِ انتظام 40 مسلم ممالک پر مشتمل ایک فوج تشکیل دی گئی جس کی سربراہی پاکستان کے سابق چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف کے پاس۔ جنرل صاحب نے غزہ کی بربادیوں کے قصے تو ضرور سُنے ہوں گے لیکن اُن کی طرف سے دھمکی تو کُجا مذمتی بیان تک نہیں آیا۔ اگر اِس فوج میں فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کو روکنے کی صلاحیت ہی نہیں تو کیا اِن سے جذبہئ جہاد سے سرشار وہ نہتی فلسطینی بیٹیاں بہتر نہیں جو اسرائیلی افواج کا پتھروں سے مقابلہ کر رہی ہیں؟۔
لاریب اگر عالمِ اسلام اُس مکمل ضابطہئ حیات کے پرچم تلے جمع ہوجاتا جو ربِ لم یزل کا عطا کردہ ہے تو نہ کشمیر کی بیٹی کے سَر سے رداچھینی جاتی نہ ارضِ فلسطین معصوموں کے خون سے رنگین ہوتی اور نہ ہی 57 مسلم ممالک کے دوارب مسلمان جرمِ ضعیفی کی سزا کاٹ رہے ہوتے۔ قصور مگر اپناکہ ابدی صداقتوں کی مشعلیں روشن کرنے والے مفقود اور نورِ علم کی کھیتیوں پر کُہر کی دبیز تہیں۔ قحط الرجال کا یہ عالم کہ ہماری قابلِ فخر تاریخ بھی قصہئ پارینہ بن چکی۔ نوروظلمت کی تفریق کا شعور مِٹ چکا اور اُکھڑے حرفوں کی کتابِ زیست نااُمیدیوں کی داستانیں رقم کرتی ہوئی۔ بَرگِ آرزو کی معکوس تعبیر محض اِس لیے کہ ہمیں شاید اُس علیم وخبیر کا یہ فرمان یاد نہیں ”یہ لوگ ہرسال ایک یادو بار کسی نہ کسی آفت میں پھنستے ہیں پھر بھی نہ توبہ کرتے ہیں اور نہ ہی نصیحت قبول کرتے ہیں“ سورۃ توبہ آیت 126۔ قومِ رسولِ ہاشمی ﷺ کو تو خالق ومالکِ کائنات نے بہترین اُمت قرار دیا، ارشاد ہوا ”تُم بہترین اُمت ہو جو لوگوں کو نیک بات کا حکم دینے اور بُرائیوں سے روکنے کے لیے پیدا کیے گئے ہو“ سورۃ ال عمران آیت 110۔ ہم نے مگر غیروں کی غلامی کو ترجیح دیتے ہوئے سب کچھ بھُلا دیا۔اب صورتِ حال یہ کہ جب ہم گرفتارِ بَلا ہوتے ہیں تو تقدیر کی ”بُکل“ مار کر ضمیر سُلانے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ یہ سب کچھ ہمارا اپنا کیا دھرا ہوتا ہے جس کی گواہی حکمت کی عظیم الشان کتاب نے یوں دی ”تم پر جو مصیبتں آتی ہیں وہ سب تمہارے اپنے کرتوتوں کا بدلا ہے اور وہ تو سب باتوں سے درگزر فرماتا ہے“ سورۃ الشوریٰ آیت 30۔ اِسی بات کو علامہ اقبالؒ نے شعری قالب میں یوں ڈھالا
پتہ نہیں کیا ہے نام اِس کا، خُدا فریبی کہ خود فریبی
عمل سے غافل ہوا مسلماں بنا کے تقدیر کا بہانہ
ہمارے ہاں ایسے لبرلز کی بھرمار جو نہ تو اسلام کو مکمل ضابطہئ حیات تسلیم نہیں کرتے ہیں۔ لبرلز کے نزدیک اسلام ایک مذہب ہے جو انسان کی صرف اخلاقی تربیت کرتاہے ایک مسلمان کے نزدیک اسلام مکمل ضابطہئ حیات ہے کیونکہ یہ انسان کی معاشی، معاشرتی، سیاسی، سماجی اور مذہبی زندگی کے ہر پہلو پر نہ صرف روشنی ڈالتا ہے بلکہ جُزیات سے بھی صرفِ نظر نہیں کرتا۔ اگر یہ مکمل ضابطہئ حیات نہ ہوتا تو یہ آیت مبارکہ بھی فرقانِ حمید میں درج نہ ہوتی”اے ایمان والو اسلام میں پورے پورے داخل ہوجاؤ“ سورۃ البقرہ 32۔ میرے مخاطب لبرلز ہیں نہ سیکولرز،میں تو دینِ مبیں کے پیروکاروں سے سوال کرتا ہوں کہ کیا ”پورے پورے داخل ہونے“ کا مطلب یہ ہے کہ سیاسی حاکمیت انسان کے پاس ہوگی اور مسجد کی حاکمیت اللہ کے پاس؟۔ یہ فیصلہ تو روزِ ازل ہی اللہ نے اُس وقت کر دیا جب فرشتوں کو فرما یا ”میں زمین پر خلیفہ مقرر کرنے والا ہوں“ سورہ البقرہ 32۔ عربی میں خلیفہ کے لغوی معنی ہی جانشیں یا بطور نائب اختیارات کو استعمال کرنے والا ہوتے ہیں۔گویا انسان کے پاس نیابت ہے حاکمیت نہیں۔ یہی بات سورۃ یوسف آیت 39 میں یوں بیان کی گئی ”فرماں روائی کا سارا اختیار اللہ کے سوا کسی کے پاس نہیں یہی فرمان سورۃ البقرہ 58، سورۃ الروم آیت 32، الکہف 26، الانبیاء 23، الرعد 41 اور الفاطر 39 میں درج ہوا اور سورۃ المائدہ میں تو پوری قطعیت کے ساتھ فرما دیا گیا کہ جو لوگ اللہ کی اُتاری ہوئی شریعت کے مطابق فیصلے نہیں کرتے وہی کافر ہیں، وہی ظالم ہیں، وہی فاسق ہیں۔ اِس لیے فلاح کی راہ صرف خالق ومالکِ کائنات کے احکامات پر سرِتسلیم خم کرنے میں ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button