368

ہیلتھ سروے کا منصو بہ…..ڈاکٹرعنا یت اللہ فیضی

خبر آئی ہے کہ حکومت نے خیبر پختونخوا میں صحت کے نظام کا جا ئزہ لینے کے لئے ایک مکمل اور جا مع سروے کر انے کا فیصلہ کیا ہے محکمہ صحت کے ذرائع کے مطا بق صو بہ بھر کے بڑے ہسپتالوں، ڈسٹرکٹ ہیڈ کوار ٹر ہسپتالوں، صحت کے پر و گراموں، ای پی آئی، پو لیو، ٹی بی، ماں اور بچہ کی صحت کے منصو بوں کا سروے ہو گا جس میں عوام کی رائے لی جائیگی، مریضوں، تیمارداروں، ڈاکٹروں، نر سوں، ڈسپنسروں اور میڈیکل ٹیکنیشنز کے مختلف شعبوں سے وابستہ افراد کی دستیاب سہو لیات کے اعداد شمار اکھٹے کئے جائینگے علا ج معا لجہ کی سہو لیات میں کمی، خا می اور نقا ئص کا جا ئزہ لیا جا ئے گا اس سروے کی روشنی میں حکومت علا ج معا لجے کے پورے سسٹم کی اور ہا لنگ (Overhauling) کرے گی ایک عرصے سے یہ ضرورت محسوس کی جا رہی تھی کہ محکمہ صحت میں مو جود نقائص کو دور کرنے کے لئے کوئی قدم اُٹھا یا جائے کچھ لو گ کہہ رہے تھے کہ محکمے کو تقسیم کر کے 3الگ الگ وزیر وں اور سکرٹریوں کی ما تحتی میں دیدیا جائے ایک تجویز یہ تھی کہ مو جودہ سہو لیات کا جائزہ لینے کے لئے بیس لائن سروے کیا جائے تا کہ حکومت کے پا س محکمہ صحت کے بارے میں بنیا دی اعداد شمار دستیاب ہو سکیں مو جو دہ حا لات میں مجوزہ سروے کسی حد تک اس ضرورت کو پورا کر تا ہوا نظر آتا ہے بشر طیکہ اس کے ٹر مز آف ریفرنس (TORs) میں ضروری معلو مات کی صراحت کر دی جا ئے اور سروے کے مخا طبین (Respondants) میں ریٹائر ڈ ملا زمین اور ڈاکٹر وں کو شامل کیا جائے محکمہ صحت کیا تھا کیا ہے اور کیا ہو نا چا ہئیے اس کا سید ھا سادہ اور آسان حل ریٹائر ہو نے وا لے ڈاکٹروں کے پا س مو جو د ہے یہ وہ لوگ ہیں جن میں سے بعض پوری عمر دیواروں کے ساتھ اپنا سر ٹکرا تے رہے آخر تھک ہار کر ریٹائر ہو گئے سروے کے ٹی اوآرز میں چند چیزوں کا ذکر بیحد ضروری ہے پہلی چیز یہ ہے کہ ہسپتا لوں کے امور میں سیا سی مداخلت کیسے ختم ہو گی؟ دوسری بات یہ ہے کہ اختیار ات کی نچلی سطح پر منتقلی کے ذریعے ملا زمین کی تبدیلی اور ڈاکٹروں سمیت ملا زمین کے خلا ف تادیبی کاروائی کا اختیار ہسپتال کے انچار ج ڈاکٹر یا میڈیکل سپر نٹنڈنٹ کو کیوں نہیں دیا جاتا اس صورت میں نرس، ٹیکنیشنز اور کلا س فور ملا زمین اُس کے ما تحت ہو نگے اور سزا کے ڈر سے ڈیو ٹی دینگے تیسری چیز یہ ہے کہ ہسپتالوں کے لئے دوائیں ڈائریکٹو ریٹ کی سطح پر ایم ایس ڈی کے ذریعے کیوں خریدی جا تی ہیں اس سسٹم کے تحت غیر ضروری ادویات ہسپتا لوں کو کیو ں بھیجی جا تی ہیں ادویا ت کی خریداری کا کا م ہسپتا لوں کے ذمے کیوں نہیں لگا یا جا تا؟ ہر ہسپتال کو ضرورت کی ادویات خود خرید نے کی اجا زت کیو ں نہیں دی جا تی؟ چوتھی چیز یہ ہے کہ پہاڑی جگہوں کے ہسپتا لوں میں اب تک 100سال پہلے کی طرح لکڑیاں کیوں جلا ئی جا تی ہیں، وارڈ وں اور دفتروں کو گرم رکھنے کے لئے بجلی اور گیس کے ہیٹر کیوں نہیں رکھے جاتے؟ آج بھی 1920کی طرح لکڑ یاں جلا نے میں کس کا فائدہ ہے؟ یہ بنیا دی سوالات ہیں ان کے علا وہ کئی ضمنی سوالات بھی ہو نگے سروے کے نتیجے میں ایسے سوالات کا جواب ملے گا شرط یہ ہے کہ سروے کرنے والی ٹیم ہر ضلع میں پریس کلب کا تعاون حا صل کرے، وکلا ء کا تعاون حا صل کرے، تجار یو نین کا تعاون حا صل کرے اور ہر ضلع میں گذشتہ 10سالوں کے اندر ریٹائر ہونے والے ڈاکٹروں کا تعاون حا صل کرے ڈاکٹر وہ لو گ ہیں جو سسٹم کا حصہ رہے ہیں سسٹم کی خرابیوں سے واقف ہیں اور سسٹم کی خرابیوں کا پردہ چا ک کرسکتے ہیں اگر درست طریقے سے سوالنامہ مر تب کر کے اچھے لو گوں سے ڈیٹا حا صل کیا جائے تو محکمہ صحت کی خرا بیوں کو دور کرنے میں اس سروے سے بہت مدد ملے گی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں