429

”بصارت او بصیرت کی آخری حد سیاست کہلاتی ہے“..….محمد جاوید حیات

سیاست کرنا بہت ہی مشکل کام ہے یہ ایک منظم خدمت اور عبادت کا درجہ رکھتی ہے۔۔۔بلکہ انسانیت کی تعریف انسانوں کے درمیان تعلق ان کا کردار ان کے فرایض اور یہاں تک کہ ان کے اور ان کے خالق کے درمیان تعلق کے میکنزم کو سیاست کا نام دیا جا سکتا ہے۔۔اللہ تعالی نے دنیا میں اپنے پیدا کردہ پہلے انسان کو بھی بغیر ہدایت کے نہیں چھوڑا۔۔حضرت آدم ؑ اللہ کے نبی بھی تھے۔۔۔سیاست خدمت اور عبادت ہے سیاست دان کے پاس بہت ساری عقل سمجھ بوجھ صبر برداشت قربانی درد مستقل بینی نیک نیتی اور جذبہ خدمت ہونی چاہیے۔۔اگر سیاست دان آج کا سوچتے تو نہ اس کے پاس کل ہوگا اور قوم کے پاس۔۔۔
وہ کل کے غم و عیش پہ کچھ حق نہیں رکھتا
جو آج دل افروز و جگر سوز نہیں ہے۔۔۔
فاروق اعظم ؓکے پاس حضرت ابوزر ؓ جیسے جلیل القدر صحابی تشریف لائے۔۔۔فرمایا مجھے کوئی سیاسی عہدہ دیدو۔۔۔۔آپ نے فرمایا۔۔۔یہ عہدہ آپ کے شایان شان نہیں ہے۔۔۔آپ کے عہد مبارکہ میں ٹاپ کے سیاسی گرو آپ کے گورنر ہوا کرتے تھے۔۔۔مصر کے گورنر عمروالعاصؓ آپ کو خط لکھتے ہیں۔۔۔کہ اجازت دیں ایک نہر نکال کر سمندروں کو ملائینگے۔۔اسکے زریعے مغربی اقوام کی دوسری دنیاؤں سے تجارت ہوگی ہم ٹیکس لینگے ہماری معیشت بڑھے گی۔۔۔فاروق اعظم ؓ نے بڑی سوچ بچار کے بعد اس کو جواب دیا کہ تمہاری وژن کو سلام ہو لیکن فلحال جو قوم اس نہر کے ذریعے تجارت کرئے گی اس قوم نے اپنی حیا کھو دی ہے۔۔۔ان سے میل میلاپ سے یہ اُمت اپنی غیرت کھو دے گی۔۔۔۔دونوں کی سیاسی بصیرت کا اندازہ لگائیں آج نہر سویز بھی بنی ہے تجارت بھی ہو رہی ہے اور اُمت کا حال بھی دیدنی ہے۔۔۔اس تاریخی تناظر میں اگر ہم اپنے ملک کو دیکھیں تو وہ سیاسی وژن کہاں ہے۔کیا بلوچستان میں کوئی وژنیری سیاست 83 سالوں میں نہیں آئی کہ آج بھی وہاں محرومیت کا رونا رویا جاتا ہے۔۔کیا سندھ میں بہاریوں اور تھر کے فاقہ زادوں کی قسمت میں کوئی ایسی سیاست نہیں آئی کہ اس کو خدمت کا نام دیا جاتا۔۔کہ کیا پنجاب میں چودھیروں کے مزارعیں کی قسمت ایسی کو جلی ہوئی ہے کہ وہ نسل در نسل شومی قسمت کو روتے رہیں کیا کے پی کے میں پسماندگی ہی تقدیر میں لکھی ہوئی ہے۔۔ہم کہنے میں حق بہ جانب ہیں کہ ہماری کوئی پالیسی نہیں ہم جھوٹ نہیں بول رہے ہمارا کوئی وژن نہیں ورنہ توآج ہماری زمین سونا اگلتی رہی ہوتی۔۔ہمارے پہاڑ لعل و جواہرات کے خزانے ہوتے۔۔ہمارا گوادر بندر گاہ بن چکا ہوتا۔ہمارا بلوچستان معدانیات اُگل رہا ہوتا۔۔ہمارا سوات کاغان چترال جی بی گلیات مری سیاحوں کی جنت ہوتے۔دنیا والے سویٹزر لینڈ کو بھول چکے ہوتے۔۔ہمارا نہری نظام مثالی ہوتا۔ہمارے ہاں جا بجا بجلی گھر بن گئے ہوتے۔۔دنیا کی اچھی یونیوسٹیاں یہاں پہ بنی ہوئی ہوتیں۔۔یہ سب ہمارے خواب ہیں۔۔لوگ قاید کا وژن بولتے ہیں اقبال کا خواب بولتے ہیں۔۔۔ہماری سیاست میں پہلے ہی نالایقی ہے پھر متعلقہ وزراء جو بنتے ہیں ان میں خلوص تک نہیں۔۔ان کے سامنے مستقبل نہیں ہوتا۔۔یا تو اتنی محدود سوچ رکھتے ہیں کہ اپنی مدت گزارتے ہیں۔۔کیا تعلیم کے وزیر کو نہیں چاہیے کہ بہتر سالوں میں کوئی ڈھنگ کی یونیورسٹی بناتے۔۔۔کیا ریلوے کے وزیر کو محکمہ ریلوے کو مضبوط تر مستقبل نہیں دینا چاہیے تھا کیا وزیر اطلاعات و نشریات کو یہ پتہ نہیں کہ ملک میں نجی فون کمپنیان کس قسم کی سروس دے رہی ہیں۔کیا پی آئی اے کے وزیر کو اس ایجنسی کو خسارے میں رکھنا ہے۔کیا انجینئرنگ اور ورکس کے وزیر کو معیاری کام نہیں کروانا۔۔یہ سب ہماری بے بصیرت سیاست کے شاخسانے ہیں۔۔ملک میں صرف نمایندگی کے لئے کوئی تعلیمی سند اور تجربے کا کوئی معیار نہیں۔۔۔کلاس فور کی پوسٹ کیلئے پی ایچ ڈی سکالرایپلائی کرے گا۔۔کسی وزیر کی سند جعلی نکلے گی۔۔۔یہ بحیثیت قوم ہماری بد بختی ہے۔۔اگر ہم مثبت سوچ کے مستقبل بین ہوتے تو آج ہم ہر لحاظ سے مطمین ہوتے۔۔۔ہم کسی کا محتاج نہ ہوتے۔۔مقروض نہ ہوتے۔۔۔ہماری سیاست دھندے کا کاروبار ہے۔۔مداری کا کھیل ہے۔۔ہم صرف تقریروں اور لفاظی کے غازی ہیں۔۔۔ہم نے سیاست کو یا تو سمجھا نہیں ہے یا اس کے ساتھ مذاق کر رہے ہیں۔۔سیاست بصارت اور بصیرت کا حسین امتزاج ہے اور سیاست دان قوم کی آنکھوں کا تارا ہوتا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں