364

پاکستان میں سیاست۔۔۔سکوں کی جھنکار اور نوٹوں کی کڑک…..نغمہ حبیب

جمہوریت اس وقت دنیاکامقبول ترین طرزِحکومت ہے اور اکثر ممالک میں رائج بھی ہے اور پاکستان بھی با ضابطہ جمہوری ملک ہے اگر چہ ملک سالوں مارشل لاء کی زد میں رہا ہے لیکن ساتھ ساتھ انتخابات بھی ہوتے رہے ہیں اور2018میں مسلسل تیسرے عام انتخابات ہوئے لیکن ہماری سیاست کا چلن نہیں بدلا۔یوں کہیئے ہم ٹرین یعنی تربیت یافتہ نہیں ہوسکے اور اب بھی نہ تو ہم عوامی سطح پر درست فیصلے کر سکتے ہیں اور نہ پار لیمان میں وہ کچھ ہو رہا ہے جو ہونا چاہیئے۔عوامی سطح پر ہم نہ شخصی خواص کو دیکھتے ہیں نہ پچھلا ریکارڈ،نہ یہ دیکھتے ہیں کہ ممکنات کیا ہے یعنی کیا وہ سب ممکن ہے جو ایک امیدوار کہہ رہا ہے کہ وہ منتخب ہو کر کرے گا بلکہ بہت دفعہ تو ایک بریانی کی پلیٹ پر ووٹ دے دیا جاتا ہے یا دو چار ہزار روپے پر اسے بیچ دیا جاتا ہے۔یہاں سیا سی تربیت کے ساتھ ساتھ غربت کے مسائل بھی وجہ بنتے ہیں اور اسی لیے یہ کہنا بہت مناسب ہو گاکہ عوام کی غربت ہمارے سیاستدانوں کی خوش بختی کا باعث بن جاتی ہے کیونکہ اپنے مسائل میں الجھے ہوئے یہ مجبور و لا چار لوگ سیاسی سمجھ بوجھ اور بصیرت کے چکروں میں نہیں پڑ سکتے کیونکہ ان کے پاس اس بات کے لیے کوئی وقت نہیں لہٰذا وہ ظاہری وعدوں پر اپنا ووٹ دے دیتے ہیں پھر یہ ان کی قسمت کہ فیصلہ درست تھا یا نہیں اور بعد میں منتخب شدہ امیدوار کی شکل دوبارہ دیکھنے کو ملی یا نہیں اور کوئی وعدہ وفا ہوا یا نہیں اور رکن اسمبلی بن کر بھی امیدوار کسی کی غمی خوشی میں شریک ہوا یا نہیں اور ان میں بہت سارے سوالات کا جواب نہیں میں ہی ہوتا ہے۔یوں باوجود موقع ملنے کے ہماری سیاسی تربیت نہیں ہو پا رہی۔جو امیدواروں سے مطمئن نہیں ہوتے وہ ووٹ ہی نہیں ڈالتے اور یوں باشعور ووٹ ضائع ہو جاتا ہے۔
یہ تو عوامی سطح کی بات تھی جو پاکستان جیسے ممالک میں طوعاََ و کرھاََ قبول کی جاسکتی ہے لیکن جس چیز کی معافی نہیں ہونی چاہیئے وہ ایوانوں کے اندر اراکین کی خریدوفروخت ہے لیکن یہاں بھی وہی کچھ کیا جاتا ہے جو نچلی سطح پر ہوتا ہے اور خود جس طرح سے یہ ارکان منتخب ہوتے ہیں جب ان کی باری آتی ہے تو اُسی طرح یہ لوگ خود بک جاتے ہیں فرق یہ ہے اور بہت بڑا فرق ہے کہ جو لوگ خود کو سیاسی طور پر باشعور سمجھتے ہیں وہ بکتے ہیں تو بہت مہنگے داموں بکتے ہیں یہ کروڑوں میں کھیلتے ہیں وہ اپنی قیمت بھی کروڑوں میں وصول کرتے ہیں خاص کر سینیٹ کے انتخابات تو صرف خرید وفروخت ہے یہاں نہ نظریہ ہے نہ سیاست ہے نہ ایمانداری ہے نہ وفاداری ہے۔ تو سوچنے کی بات یہ ہے کہ یہ لوگ کیسے ایوان بالا میں بیٹھنے کے قابل ہیں یہ خریدے ہوئے اور بِکے ہوئے لوگ کیسے قوم کی تقدیر کا فیصلہ کرتے ہیں کیا انہیں یہ اختیار ہونا چاہیئے۔یہاں پوچھ گچھ دونوں کی ہونی چاہیئے خریدار کی بھی اور مال کی بھی۔خریدار کی اس لیے کہ اس نے ضمیر خریدا اور بکاؤ مال کی اس لیے کہ اس نے قوم کا اعتماد اور بھروسہ بیچا لیکن ہوتا یہ ہے کہ دونوں پارٹیاں ایک دوسرے پر الزام تراشی تو کرتی ہیں اپنے گریبان میں نہیں جھانکتیں کہ آخر انہوں نے ایسے لوگوں کو پارٹی ٹکٹ دیا ہی کیوں جو اس امانت کی حفاظت نہیں کر سکتے اور اپنے ضمیر کی آواز نہیں بلکہ سکوں کی جھنکار اور نوٹوں کی کڑک پر فیٖصلہ کرتے ہیں میرے خیال میں وہ بدترین لوگوں میں سے ایک لوگ ہیں جو خود کو پیسوں کے لیے بیچ ڈالتے ہیں نہ ان کی نیتیں بھرتی ہیں نہ تجوریاں۔یہ پانچ سال مکمل لوٹ مار کرتے ہیں ایک دوسرے کی خرید و فروخت کرتے ہیں ہر ہر ذریعے سے پیسہ بناتے ہیں اور پانچ سال کام کر کے تا حیات پنشن کے لیے بھی کوالیفائی کر لیتے ہیں یہ ایک دوسرے کے خلاف بولتے ہوئے کسی ضابطہء اخلاق کے پابند نہیں ہوتے لیکن آج کے مخالفین کل کے اتحادی بن کر اپنے لیے سہولیات لینے میں ذرا نہیں چوکتے۔ ان کا ووٹ تک آج ایک اورکل دوسرے کا ہوتا ہے بلکہ اسی کا ہوتا ہے جہاں سے پیسہ ملتا ہے اور زیادہ ملتا ہے۔ہمارے یہ سیاستدان جو خود کو قوم کے لیڈر اور رہنما گردانتے ہیں ان کو اپنے طور طریقوں پر غور کر لینا چاہیئے اور قوم کو مزید بیوقوف بنانے کا یہ چلن چھوڑ دینا چاہیئے اور قوم کو بھی مزید بیوقوف نہیں بننا چاہیئے اور ان سے سوال بھی ضرور کرنا چاہیئے اور جواب بھی ضرور طلب کرنا چاہیئے۔ احتساب کا عمل صرف دوسروں پر لا گو نہ ہو بلکہ ہر یک کو اس کے زیر اثر آنا چاہیئے۔ہمیں اگر بحیثیت قوم کچھ بننا ہے اور دنیا میں کوئی مقام حاصل کرنا ہے تو ہمیں اپنا وطیرہ عوام سے لے کر خواص تک بدلنا ہو گا۔یاد رکھیں خواص کی یہ خرید و فروخت قوم کی تقدیر سے کھیلنا ہے اور ایسا کرنے کی اجازت کسی کو نہیں ہونی چاہیئے۔اعلیٰ عدالتوں،الیکشن کمیشن، حزبِ اختلاف اور حکومت سب کو ایسے ممبران کا نوٹس لینا چاہیئے جو اس خرید و فروخت میں ملوث ہوتے ہیں اور اس میں کسی رعایت کی گنجائش نہیں ہونی چاہیئے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں