244

ہم سے انسان تک۔۔..تحریر:سیداکرم علی شاہ

اکیسویں صدی جو ترقی کے لحاظ سے  ایک  اہم دور  مانا  جاتا ہے ۔ایسا  کون سا کام ہے جو  اس عہد میں نہیں ہوا ہو ۔انسان  جو غاروں اور جنگلوں میں رہا کرتا تھا،پتھروں کو رگڑ کر ان سے آگ جلایا کرتا تھا  اور جانواروں کا کچا گوشت کھانے میں بھی کوئی شرم  اور عار محسوس  نہیں کرتا تھا۔ ان اطوار سے انسان آخر نکل ہی گیا ،نہ صرف نکل گیابلکہ  ٹیکنالوجی کو  ہم رکاب  اور  جدیدیت   کا تاج  بھی  پہن کروقت کو بھی اپنی گرفت میں  لانے  کی کوشش کی۔آج  کا انسان  ہر وہ کام کر رہا  ہے  جو ایک صدی پہلے صرف ایک خیال  ایک تصور  اور  ایک وہم تھا ۔  آج ہر وہ کام جو  انسان چاہتا  ہے اپنی  مرضی و منشا کے مطابق کر   رہا ہوتا  ہے ۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ انسان اتنی ترقی اور اتنے  مدارج  کیسے طے کئے ہوں گے ؟ایساکیا ہے  انسان کے پاس جووہ طلب کرتا ہے بس ہو جاتا  ہے۔ذرا  غور کیجے گا کہ کیا واقعی انسان اتنی ترقی کر چکا  ہے؟اگر پتھروں  کے  دور سے لے کر آج تک اس عہد پر ایک سرسری نگاہ ڈالی  جاے تو کم و بیش دو ہزار اور زیادہ سے زیادہ چار ہزار سال ہو گیا ہو گا  عہد انسانی کو ،سوال پیدا ہوتا ہے کہ اتنا  عرصہ گزرنے کے بعد اس عہد میں آتے آتے  اس دور کے کچھ آثار وجود بشریت کس طرح  موجود رہیں جو  اس کےوجود کے ساتھ ساتھ  انسانیت کی معراج کو دیمک کی طرح  کھاتےکھاتے  حیوانیت  سے بھی بدتر  کر دیا ۔

اگر ہم خود کو اشرف المخلوقات جیسے اعزاز سے  نوازتے ہیں ،تو کیوں نہ  ایک جھلک  اپنی وجود  کو  دیکھنے کی کو شش کرتے ہیں  کہ کیا یہ ہمارا اصلی روپ  ہے  جس کے اندر  ہم خود کو انسان کا نام دے کر حیوانواں جیسے اعمال  سے   مقام انسانیت  کو   نیست و نابود کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑ رہےہیں ،ہماری ابتدا کس طرح ہوئی اور ہماری حیثیت کیا تھی ا ور ہم کس زاوئے سے  انسان   بن بیٹھے  ہیں،کبھی ایک لمحے کے لئے غور کرنے کی کوشش کی؟ کیا ہم نے اپنی اصلیت بھول بیٹھی ؟کیا یہی مقصد تھا ہمارا ؟کیا اس وجہ سے  انسانیت کا تاج ہمیں پہنایا گیا تھا؟

یہ  ایک واسع موضوع ہے کہ آدمی سے انسان تک کا سفر    کیا ہے ؟اس کا دورنیہ  کیا ہے ؟ اور کون کون سے مراحل طے کرنے کے بعد  انسان اس مقام تک آچکا  ہے؟لیکن اس وقت ہم انسان سے مسلمان بننے کی بات کو آگے بڑھائیں گے۔مستنصر حسین تارڑ کہتے ہیں “اگر ہمیں موجودہ  دور  میں اپنی مسلمانی کا  کوئی ٹھوس ثبوت پیش کرنا پڑے  تو سوائے “ختنہ” کے ہمارے پلے کچھ بھی نہیں”

14 مارچ 2021 کو جب میں نے   حسب معمول فیس بُک  پردوستوں کی سلفیاں اور  سیاست دانو ں کے  جھوٹے دعووُں پر ہنس ہی رہا تھا کہ اچانک میری  نظریں ایک ایسی تصویر کے ساتھ جا ٹکرائیں   جو میری وجود کو  چند لمحوں  کےلیےخاکستر کر دیا۔  میری بینائی  اپنی وجودیت کا مکمل ثبوت  دے  رہا تھااور میری حیرت کی انتہا  اپنا سب کچھ گنوا چکا  تھا۔وہ تصویر دیکھتے ہی  ان لوگوں  کے چہرے  میری آنکھوں  میں کسی خواب کی مانیند نہیں بلکہ  حقیقت   میں صاف آرہے تھے اور ان کی صدائیں  میرے کانوں  سے یوں ٹھکرا کے جا رہے تھے جیسے  کسی اونچے پہاڑ کے سامنے کھڑا خود ہی  مخاطب ہو رہا ہوںوہ صدائیں  کیا تھیں  اوروہ   چہرے کس کے تھے اب ان کی کوئی حیثیت نہیں رہی۔یہ عبید نام کا ا یک لڑکا تھا ،جو ذہنی طور پر معذور  اور قدو قامت کے لحاظ سے بھی کوئی مظبوط  نہیں تھا۔اس قسم کے لوگ چترال میں کافی تعداد میں موجود ہیں ،جو بازار میں  گھومتے  پھرتے   ٹریفک کا جیکٹ پہنےمنہ میں سیٹی لئے  اور کبھی ٹیپ ریکارڈ ہاتھ میں لئے ہوےآپ کو نظر آئیں گے۔کیوں کہ ہم ایک اسلامی معاشرے میں رہ رہے ہیں اور یہاں مرد آزادی کے ساتھ جب چاہے بازار میں گھوم سکتا ہے عورت     نہیں۔

بہر حال جب  اس پوسٹ پر میری نظر  پڑی  کہ عبید  کے  دونوںگردے  نکال کر بھیج دیے گئے ہیں  ،اس وقت یہ جناح  ہسپتال میں زیر علاج ہے تو  میں چند لمحوں کے لیے  اس  کی شخصیت پر غور کرنا  شروع  کیا لیکن ان   لمحات میں جو  کچھ میری سمجھ میں آئی اس کا صرف ایک جملہ لکھ دیتا ہوں ،کہ  اگر انسان ناجائز   طریقے سے اپنے جیسے انسان سےفائدہ اُٹھانا  چاہے تو  اس کی مجبوری  ،بے بسی  ،عاجزی   اور  مفلسی  اس فرد کی عزت پر  سب سے بڑا  داغ ہے۔یہی وہ  ذرائع ہیں  جن کی عدم دستیابی  سے انسان ،انسان کو کھا جاتا  ہے۔ کیا انسان  اتنی ترقی کی  ہے کہ اپنے جیسے انسان کو  کھاتے وقت  اتنا بھی نہ سوچا  کہ میں یہ کیا کرنے جا رہا  ہوں؟ اور بڑے فخر سے  پھر انسان  کا  مرا ہوا  ضمیر اس درندے کو    یہ کہنے پرمجبور کر رہا ہے کہ میں  ٹیکنالوجی میں اتناآگے جا  چکا ہوں کہ میرے اندر  انسا نی خصلتیں   دم توڑنے کے بعد اس نہج پر  ہوںکہ اپنے جیسے انسانوں کو  کھانے میں لذت محسوس  ہو رہی ہے۔جب تین دن بعد  ان کی لاش پر میری  نظر پڑی تو مجھے اپنے آپکو انسان  اورپھر مسلمان  کہنے سے جو شرمندگی محسوس ہوئی ، وہ شاید بیان کرنے کے نہ ہی قابل ہےاور نہ  ہی مجھ میں وہ طاقت و سکت باقی ہے۔۔۔۔۔خدارا۔۔نبی آخرالزمان  کے واسطے   جن کےدندان مبارک ہماری وجہ سے شہید اور نعلیں مبارک  ہماری وجہ سے  خون آلود  ہو چکے تھے      ،کیاآ پ صلی اللہ علیہ و علی واسلم  کی  وہ راتیں جو رورو کر ہمارے لئے دعائیں مانگی تھیں آج کچھ بھی  یاد نہیں رہیں؟؟؟کیا ہم اتنے احسان فراموش ہو گئےکہ اپنے نبی کا لاج  بھی نہ رکھ    سکا؟؟جب روز محشر  میں  آپ ؐکے روبرو ہوں گے ،تو کیا منہ دکھائیں گے؟؟ جب ہم سے پوچھا جائے گا   توسچائی کی بھیگ مانگنے کس کس  کے  دروازے پر صدائے شرمندہ گی  بلند کریں گے ؟ اس کے بعد کیا ہو گا جب منہ لٹکائے سر جھکائے  ان کے سامنے  پھر  ہماری  حاضری ہو گی؟؟ اپنی  امت کی ان بد اعمالیوں کی ایک لمبی فہرست  دیکھ کر آپ کی نگاہیں جب  ہماری طرف اٹھیں گی ،تو ہمارا کیا ہو گا ؟؟ وہ   وقت زیادہ  دور  نہیں ،جب ہم سب اس کے روبرو حاضر کئے جائیں گے۔سوچئے اور پھر بتائیےگا۔۔۔۔۔۔۔

اللہ ان کی روح کو جزائے خیر نصیب فرمائے اور ان کے خاندان کو صبر و استقامت  عطافرمائے ۔اور  ان درندوں کو ہم “اس رب زولجلال   کے حوالے کریں  گے جن کے  قبضے میں ہماری   ،ان کی اور ہر زی روح کی جان ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں