258

محکوموں کا انقلاب، چی معنی دارد…………….. شمس الرحمن تاجک

کاروبار کو جب نظریے کا نام دیا جائے تو بڑے فیصلوں کے لیے راہ ہموار کرنا ناممکن ہوجاتا ہے ثبوت کے طور پر ہم اپنے ملک میں آج تک حکمرانی کے مختلف ماڈلز کو پیش کرسکتے ہیں، حکمرانی کا ماڈل کچھ بھی رہا ہو گراس روٹ لیول پر اس کے فوائد کا آنا خواب و خیال ہی ثابت ہوتا رہا ہے۔ بہتری کی امید میں عام عوام نے ہر اس نعرے کا بھی ساتھ دیا جو ذرہ سا بھی معاشرے کو انسانوں کے رہنے کے قابل بنانے کا دعوی کررہا ہو مگر لاحاصل۔ ”آلو لے لو، پیاز لے لو“ کے خالصتا کاروباری نعرے سے لے کر ”روٹی لے لو، مکان لے لو“ تک سب کچھ کاروبار ہی تو ہے۔ ”مجھے کیوں نکالا“ جب نہیں چلا تو ”ووٹ کو عزت دو“ ایجاد ہوا۔ ووٹ کو عزت دینے کے بجائے تخلیق کاروں کو کچھ مہینوں کے لئے وزیر اعظم ہاؤس کی چابیاں دی جائیں تو کیا وہ خود ووٹ کو عزت دیں گے۔ جن ناتواں کندھوں نے ”تبدیلی لے لو“ والے نعرے کا بوجھ اٹھایا تھا ان کا سفر عظیم ”مجھے اگر نکالا“ تک پہنچا ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کم از کم تبدیلی والوں کے لئے آج عوام کہہ اٹھتے کہ اگر ”انہیں نکالا گیا“۔ مگر نہیں اس ملک میں انسانوں والے خواب دیکھنے کی اجازت نہیں۔
شعور و آگاہی کی وہ منزل بہت دور ہے جہاں ہم یہ سوچیں کہ عوام اپنے ووٹ کے ذریعے ایسے افراد اور پارٹیوں کا احتساب کریں گے، نہ ہی اصل حکمران اس بات کی اجازت دیں گے۔ پھر ہر ذاتی نعرے پر غیروں کی شادی میں عبداللہ دیوانہ والا رویہ کیوں؟ ہر پانچ سال بعد ایک عجوبے کو پکڑ کر اختیار کے اعلی ترین مسند پر بٹھایا جاتاہے پھر ڈگڈگی والا تماشا شروع۔ سڑکوں پر مرد آہن کی تمام تر صفات کا مظاہرہ کرتا ہوا شخص اقتدارکے حصول کے بعد ڈگڈگی کے اس تماشے میں ہمیشہ سے لاچار ہی دکھائی دیتا ہے۔ مگر ایسی بھی کیا لاچارگی اور ایسی بھی کیا دھمکی، جو مسند سے اترنے کے بعد دی جائے۔ اختیار کی تمام تر غلام گردشوں سے دوری کے بعد دی جائے۔ پتہ نہیں اس مسند کے ساتھ کیا مسئلہ ہے کہ یہاں تک پہنچنے والا ہر شخص اتنا بے اختیار ہوجاتا ہے کہ پھر بیوی اور بچے تک اس کی بات کو کوئی وقعت دینے پر تیار نہیں ہوتے۔اتنا اپاہج شخص دوبارہ بھی اس مسند تک پہنچنے میں کامیاب ہو تو کیا تیر مار سکتا ہے۔ سوائے اس کے کہ ”میں خاموشی سے تماشا دیکھ رہا ہوتا ہوں“۔
سیاسی لیڈرشپ کی سب سے احمقانہ اور بچگانہ سوچ کہ عوام ان کے لئے باہر نکلیں گے، عوام جانی و مالی قربانی دیں گے، لوگ کٹ مریں گے، ملک میں انقلاب آئے گا اور انہیں دوبارہ سے اقتدار کے سنگاسن پر بٹھایا جائے گا۔ کیا اس سے بڑھ کر بھی کوئی احمقانہ سوچ ہوسکتی ہے۔ جس عوام کی آپ نے چوپایوں جیسی تربیت کی ہے۔ان کی قیمت ایک پلیٹ بریانی رکھی گئی ہو۔ بیس بیس سال باریاں بھگتانے کے بعد اپنے لئے جزائر خریدلے عوام کو روٹی کے لالے پڑے ہوں۔آپ کے سفر کے دوران لگے ہوئے روٹ کی وجہ سے رکشوں میں اور شاہراہوں پر پیدا ہونے والے بچے اور ان کے ماں باپ کیا واقعی میں کسی انقلاب کا سبب بن سکتے ہیں؟اگر بن بھی گیۓتو کس سے نجات کے لئے ہوگا یہ انقلاب۔ یہ سوچنے میں کیا حرج ہے کہ ایسے کسی بھی انقلاب کے سب اہم ترین شکار”نعرے“ والے ہی ہوں گے۔ مگر ٹھہریے، اس قوم کی تربیت میں آپ بھی اتنے ہی حصہ دار ہیں جتنا کہ آپ ”ان“ کو سمجھتے ہیں۔ تو سن لیں دنیا کی دستیاب تاریخ میں ایسے کسی انقلاب کا ذگر تک نہیں ملتا جو ”چوپایوں“ نے برپا کی ہو۔
اگر ہمارے حکمرانوں کو انقلاب درکار ہے تو پہلے عوام کو یہ احساس دلانا پڑے گا کہ وہ بھی انسان ہیں۔اپنا رویہ ان کے ساتھ انسانوں جیسا رکھنا ہوگا۔ جلسے جلوسوں میں زندہ باد کے نعرے لگوانے اور ہاتھ پیروں پر بوسہ لینے کے بعد گھر جا کر ڈیٹول کے ٹپ میں گھنٹوں گزارنے سے گریز کرنا پڑے گا۔قوم کہیں، عوام کہیں یا کچھ اور، جن سے آپ یہ توقع لگائے بیٹھے ہیں کہ وہ آپ کو راج سنگھاسن پر بٹھانے کے ذمہ دار ہیں چاہے اس کے لئے ان کو اپنی جانوں کا نذرانہ دینا پڑے۔ اقتدار کی راہداریوں میں اپنی موجودگی کے دوران ان کی تربیت کرچکے ہوتے۔ عزت اور بے عزتی میں فرق کرنا سکھاچکے ہوتے۔ حق اور نا حق کا تصور سمجھاتے۔ ایک قوم ہی بنالیتے اس ملک کے باسیوں کو، انسان ہونے کے فخر کا احساس دلاچکے ہوتے۔ان صفات کے بجائے آپ سب نے مل کر بہت محنت سے عوام کو ”کمی کمین“ بنادیا ہے۔
لیڈرہجوم کو قوم میں بدلنے پر جب تیار ہوجائے تو اسے کچھ زیادہ نہیں کرنا پڑتا۔ بس ذات کے خول سے باہر آکر فیصلے کی دیر ہوتی ہے، ایک سچ بولنے کی دیر، دل و دماغ مجتمع کرکے صرف ایک نا کہنے کی ہمت۔ ذاتی فائدے کے بجائے ملکی مفاد کو مقدم رکھنے کی ریت ڈالنے کی دیر، میرے بعد میرے بیٹے، بیٹی کی باری کے بجائے میرٹ پر فیصلے کے حامی ہونے کی دیر، ہمارے ملک میں ایسا فیصلہ کرنے والا کوئی ہے، کوئی ایسا شخص جو ذات سے باہر آکر سوچ سکے، ذات کو ملکی بہبود، عوام کی بہتری پر قربان کرنے کے فن سے آگاہ ہو۔نہیں نا؟ تو پھر جس کسی کو جو کوئی بھی جہاں کہیں سے نکالے، عوام کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں