"عدم برداشت” …………تحریر:ہمااکرم

بہت عرصے کے بعد آج ڈاکٹر صاحب سے ملاقات ہوئی،
بھانجی کے معائنےکے بہانے، تو باتوں باتوں میں ڈاکٹر صاحب نے مجھ سے پوچھا کہ تعلیم کا سلسلہ کہاں تک پہنچا۔ تو میں نے بتایا کہ تعلیم کا تعلق یا شجرنصب جرنلزم سے جا ملتا ہے تو ڈاکٹر صاحب نے پوچھا کہ کچھ لکھتے بھی ہیں یا نہیں۔۔۔ تو میں نے جواب بن کہا کہ ڈاکٹر صاحب ہم اِس معاشرے میں رہتے ہوئے، اِس ملک میں تعلیم حاصل کرتے ہوئے اِن ہسپتالوں میں علاج کرواتے ہوئے بَس غلام بن جاتے ہیں یا احسان مند۔ بس! پھر ہمت نہیں سمِیٹ پاتے ہیں کسی بھی حوالے سے لکھنے کے لیے قلم اُٹھانے کی کوشش کررہی ہوں.
حیرت بھری نگاہوں سے ڈاکٹر صاحب نے مجھے گٌھورا اورکہاکہ میرے خلاف بھی لکھ دے ہا ہا ہا ہا۔۔۔ تو بس میں نے بھی قِہقِہہ لگانے میں ڈاکٹر صاحب کا ساتھ دیا ہاہاہا۔۔۔ خیر آگے سے میں نے گفتگو کو سنجیدگی کی طرف موڑ دیا اور کہا کہ ڈاکٹر صاحب لکھنا تو بہت چاہتی ہوں پھر وہی بات کہ اِس معاشرے میں رہتے ہوئے میں آپ کے خلاف بھی نہیں لکھ سکتی ہوں کیونکہ مجھے معلوم ہے پھر مجھے انِہیں ہسپتالوں کے چکر لگانے ہیں اور آپ لوگوں سے ہی علاج کی غرض سے آنا جانا رہے گا تو کیا گِلے شکوے اور آگے سے چپ ہو گئی پھر مزاق مزاق میں باتیں ہوئیں لیکن پھر آگے سے ڈاکٹر نے بات کو سنجیدگی کے ساتھ آگے بڑھایا اور مجھے سمجھایا کہ اِس معاشرے میں اگر پہلی سیڑھی پر قدم رکھنے کے بجائے نویں سیڑھی پر قدم رکھو گے تو گِر جاؤ گی لہذَا عنوان کا چناؤ اِیسے کریں شروع شروع میں، جو کہ لوگ آسانی سے ہضم کر سکیں.
مثال کچھ ایسا تھا کہ ” سانپ بھی مرے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے“ بس میں سمجھ گئی ڈاکٹر صاحب اِب آپ انتظار کریں میری آگے آنے والی آرٹیکل کا گفتگو ختم اور بھانجی کی جیک اَپ بھی ہوگئی خدا حافظ! ڈاکٹر صاحب فِی امان اللہ! ایک تو ڈاکٹر صاحب کی باتوں سے مجھے حوصلہ ملا دوسرا ڈاکٹر صاحب میں برداشت کا ایک بہت بڑا مادہ مجھے نظر آیا۔
اگر یہی برداشت ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے لوگوں میں ہوں تو اُن کی بھی اور معاشرے کے اندر رہنے والے ہر طبقے کے لوگوں کی اصلاح ہوگی ۔ مگر بدقسمتی یہ ہے کہ ہم اُس معاشرے کا حصہ ہیں جہاں تنقید برائے اصلاح کو ذاتیات کا مسئلہ سمجھا جاتا ہے اور بجائے اپنی اصلاح کے ہم آگلے یعنی اصلاح کرنے والے کی توہین کرنے میں کوئی کَسر نہیں چھوڑتے ہیں، کہ اگلے بندے نے میری غلطی بتا کہ میری انا کو ٹھیس پہنچائی اور سرعام میری عزت کی دھجیاں اڑائی تو بس اِسی سوچ کی بنیاد پر ہماری عدم برداشت کا امتحان شروع ہوتا ہے اور جو کہ ہمیں بربادی کی دہلیز پر پہنچا کہ ہی دم لیتا ہے ۔
ارے بھائی/ بہن آرام سے ذرا ٹھنڈے دماغ سے سوچیں غلطی ہوگی تو اصلاح بھی ہوگی اچھا کرو گی تو حوصلہ افزائی ملیں گی تو یہ ملی جلی کیفیت ہے جس کا سامنا ہر شعبے میں رہتے ہوئے حالانکہ گھر کے اندر رہتے ہوئے بھی سامنا کرنا پڑتا ہے روزمرہ زندگی میں۔
تو مقصد صرف یہی لکھنے کا کہ آجکل کی جنریشن میں عدم برداشت کی کمی بہت دیکھنے کو ملتی ہے شاید نہیں بلکہ یقین یہ والدین کی نا اہلی ہے کہ بچوں کو زندگی کے کچھ حقائق عملی طور پر سمجھانے کے بجائے موبائل جیسے مواد کا عادی بنا رہے ہیں اور
اور موبائل پکڑا کر اپنی تمام تر بنیادی ذمہ داریوں سے آزادی حاصل کرتے ہیں یعنی اپنی بنیادی ذمہ داریاں جس میں تربیت کا ایک اہم کردار ہوتا ہے بچوں کے اوپر تو وہ بھی موبائل کے حوالے کر کے خود جسے قید سے فرار ہو جاتے ہیں بس پھر بچے جانے اور ان کا منہ بولتا ماں یعنی موبائل۔۔۔
تو اِب بچے اگر ٹیکنالوجی سے تربیت لیں گے تو عدم برداشت کی کمی ہی دیکھنے کو ملے گی۔
تو آج بہت عرصے کے بعد جن ڈاکٹر صاحب سے ملاقات ہوئی اور جب انہوں نے مجھے کہا کہ میرے خلاف ہی لکھتے تو واہ ڈاکٹر صاحب دل خوش ہوا کہ آپ کے اندر کتنا حوصلہ ہے تنقید سننے کی مگر ٹھیک یہی خیال میرے دماغ میں آئی اور یہ حقیقت بھی ہے کہ آپ بھی اس دور میں یعنی اس زمانے کی نسل سے تعلق رکھتے ہیں جہاں مائیں بچوں کو تربیت جیسے قیمتی خزانے سے نوازتے تھے اور اور مائیں بچوں کو عدم برداشت اور حوصلہ سے ہر قسم کی تنقید سننے اور برداشت کرنے کی تلقین کیا کرتے تھے


