150

کالاش وادیوں میں بے ہنگم سیاحت اور مسائل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔محکم الدین ایونی

ایک طرف لوگ مہنگائی کا رونا رو رہے ہیں ۔ تو دوسری طرف سیاحت کا جنون پاکستانیوں کے سر چڑھ کر بول رہا ہے ۔ اور عید الفطر کے روز سے سیاحوں کا جم غفیر چترال اور کالاش ویلیز میں امڈ آیا ہے ۔ کالاش ویلیز کے ہوٹلوں اور روڈ پر تل دھرنے کو جگہ نہیں ہے۔ ہر طرف سیاحوں کا راج ہے ۔ رونقین بڑھ گئی ہیں ۔ اور پیسے کی گردش نے ویلیز کے جمود کوتوڑ دیا ہے۔ سیاحوں میں جہاں منچلوں کی بڑی تعداد ہے ۔ تو فیملیز اور کالج یونیورسٹیوں کے سٹوڈنٹس بھی کچھ کم نہیں ہیں۔ رنگ برنگے لوگوں کی نقل وحمل نے وادی کی خوبصورتی کو چارچندلگا دی ہے۔ لیکن ساتھ ہی تنگ وادیوں میں پھنسے گاڑیوں کی وجہ سے سیاحوں مقامی لوگوں اور ٹریفک وارڈنز کیلئے کئی مسائل پیدا ہورہے ہیں ۔ نقل و حمل میں دشواریوں کے ساتھ صوتی آلودگی و ماحولیاتی آلودگی سے مقامی بہت پریشان ہیں ۔ کیونکہ سیاحوں کی ایک بڑی تعداد ایسےلوگوں کی ہے ۔ جو سیاحت کے قواعد وضوابط سے ناواقف ہیں ۔ کسی کی پرائیویسی اورعلاقائی تہذیب وثقافت سے بے خبر ان سیاحوں کی سوچ وفکر صرف اور صرف ٹور انجوائے کرنے پر مرکوز ہے ۔ حکومت اور سیاحتی ادارے پولیس ،انتظامیہ حتی کہ سکیورٹی فورسز سیاحت کی ترقی کا سلوگن لئے اس قسم کے سیاحوں کو سمجھانے اور ایجوکیٹ کرنے پر کوئی توجہ نہیں دیتے اس میں کوئی دو رائے نہیں ۔ کہ چترال میں سیاحت کی ترقی ہونی چائیے ۔ لیکن جہاں سیاحت کی ترقی کیلئے سڑکوں کی بہتری ، سیاحوں کیلئے جگہ جگہ ٹورسٹ فسلٹیشن سنٹرز ،ایمرجنسی میں فوری طبی سہولیات کی فراہمی ،ٹورسٹ ڈسٹنیشن کے بارے میں معلومات کی فراہمی اچھے ہوٹلوں کے قیام اور مہمان نوازی کی ضرورت ہے ،وہاں سیاحت کے اصولوں سے ناواقف لوگوں کو سیاحتی مقام کے حوالے سے ایجوکیٹ کرنا بھی بہت ضروری ہے ۔ ہر آنے والے سیاح کو لواری ٹنل کراس کرتے ہی آسان الفاظ میں پرنٹ شدہ ایک پمفلٹ تھما دینا چاہئے ۔ کہ چترال میں سیاحت کے دوران انہیں کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں کرنا چاہئیے ۔ افسوس سےکہنا پڑتا ہے۔ کہ ہمارے ٹورزم کے ادارے فارنر ٹورسٹ کیلئے پمفلٹ ( بروشر)چھاپ کر تو تقسیم کرتے ہیں ۔ جوسیاحت کے قواعدو ضوابط سے ہہلے ہی سے بخوبی آگاہ ہوتے ہیں ۔ لیکن ملکی سیاحوں کی رہنمائی اور انہیں ایجوکیٹ کرنے کیلئے کوئی انتظام نہیں ہے ۔ جس کی وجہ سے بے لگام سیاحت کو فروغ مل رہا ہے ۔ نتیجتا سیاحت کے شعبے سے وابستہ افراد کے علاوہ آبادی کی اکثریت اس سیاحت سے نالان نظر آتی ہے۔ اور غیر منظم و بے ہنگم سیاحت کے بارے میں کالاش وادیوں کی مسلم اور کالاش کمیونٹی میں بہت تشویش پائی جاتی ہے ۔ خصوصا ان سیاحوں کے بارے میں جو اپنے مقام سے خوراک کی تمام اشیاء پلاسٹک بیگز میں ڈال کر ، اپنے بوریا بستراور چارپائی تک گاڑیوں میں لوڈ کرکے ساتھ لاتے ہیں۔ اورچترال میں ایک ماچس تک خریدنے کیلئے تیار نہیں ہوتے ۔ مگر اپنا پورا گند ،کچرا ،کوڑا کرکٹ چترال کے ندی نالوں کے کنارے یا کسی کی زمین اور گھاس پر چھوڑ کر چلے جاتےہیں ۔ جس سے سیاحتی علاقوں میں تشویشناک ماحولیاتی مسائل پیدا ہورہے ہیں ایسے لوگوں کی سیاحت پر پابندی لگنی چاہئیے۔ جس سے چترال کوکچرے کے سوا کچھ نہیں ملتا۔ اگر ان پر پابندی لگانا مناسب نہیں ۔تو انہیں ایجوکیٹ کرنےکا انتظام کیا جانا چائیے ۔
حالیہ عید الفطر کے دوران خود میرے مشاہدے میں آیا ہے ۔ کہ کھلی سوزوکی میں درجن بھر منچلوں کا ٹولہ بستر تک لوڈ کرکے لاوڈ اسپیکر کے ناقابل برداشت آواز میں گیت گاتے اور ناچتے ہوئے ایون سے گزر کر کالاش وادیوں کی طرف چلے گئے ۔ ان کو یہ ہوش ہی نہیں تھا ۔ کہ ہم کسی بازار سے گزر رہے ہیں۔ اسی طرح کالاش وادیوں سے واپس آنے والے نشے میں دھت نوجوان سیاحوں کے ایک گروپ کے ساتھ ایون کے نوجوانوں کی مڈبھیر ہوئی ۔ اور نوبت ہاتھا پائی تک جا پہنچی ۔ لیکن ہماری پولیس کسی کاروائی سے اس لئے ہچکچا رہی ہے ۔کہ حکام کی طرف سےسیاحت کی ترقی اور سیاحوں کیلئے ہرممکن سہولتیں فراہم کرنے کی ہدایات دی جارہی ہیں ۔
ملکی سیاحوں کی تربیت نہ ہونے کے سبب چترال کی کالاش کمیونٹی کو بھی بہت زیادہ مسائل کا سامنا ہے ۔ کیونکہ عام طور پر پاکستانی سیاح مقامی گائیڈ کی خدمات حاصل نہیں کرتے، کیونکہ گائیڈ کو ان کی سروس کے عوض فیس ادا کرنی پڑتی ہے ۔ یوں بے غیر گائیڈ کے سیاح بغیر اجازت کے لوگوں کے گھروں میں گھس جاتے ہیں۔ اور ان کی نجی زندگی کو ڈسٹرب کرتے ہیں ۔ اس وجہ سے بعض اوقات مقامی لوگ سیاحوں سے الجھنے پر مجبور ہوتے ہیں ۔ گو کہ کالاش وادیوں کے لوگ انتہائی شائستہ اور نرم مزاج کےحامل ہیں ۔
حالیہ عید پر حسب سابق سب سے زیادہ مشکلات سیاحوں اور ٹریفک وارڈن کو راستوں میں برداشت کرنے پڑے ۔ تنگ اور کھنڈر سڑکوں کی وجہ سے سیاحوں کو کالاش ویلیز جانے اور آنے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ۔ سینکڑوں مسافروں کو ٹریفک بلاک ہونے کے باعث سڑک پر ہی رات گزارنے پڑے۔ مقامی کمیونٹی نےحسب روایت مہمان نوازی کی مثال قائم کرتے ہوئے اپنے گھروں سے کھانے مہیا کئے ۔ اور خواتین و بچوں کو اپنے گھروں میں ٹھہرایا ۔ گذشتہ کئی سالوں سے مقامی لوگ عیدین اور کالاش فیسٹولز کےموقع پر سیاحوں کو یہ خدمات بلا معاوضہ پیش کرتے ہیں ۔ ۔ آج بھی مقامی لوگ اپنے گھروں سے کی جانے والی مہمان نوازی کا معاوضہ لینے کو اچھا نہیں سمجھتے ۔ تاہم وہ ہوم گیسٹ ھاوسز اس سے مثتثنی ہیں ۔ جو پئینگ گیسٹ کے طور مہمانوں کواپنے گھروں میں ٹھہراتے ہیں ۔
چترال میں سڑکوں کی زبوں حالی سیاحت کی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں ۔ پہاڑی علاقو ں کی تنگ سڑکوں سے ناواقف سیاح اپںنی گاڑی چلانے کے قابل نہیں ہوتے ۔ یوں راستے بلاک ہو جاتے ہین ۔ اس لئے رش کے دنوں میں پولیس کے زیر انتظام بروز چتر پل کے قریب پارکنگ قائم کرکے وہاں سےمقامی گاڑیاں استعمال کی جاسکتی ہیں ۔ تاکہ واقف مقامی ڈرائیوروں کی سروس سے آمدورفت میں کچھ بہتری آسکے ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں