بین اسطور ۔۔۔۔۔ذوالفقار علی شاہ
۔۔۔۔عام انتخابات اور چترال ۔۔۔ملک کے دیگر حصوں کی طرح 8 فروری کے انتخابات کیلئے چترال میں بھی سیا سی سر گرمیاں عروج پر ہیں ۔خیر پختونخواہ کے رقببے کے لحاظ سے سب سے بڑا ضلع چترال ھمشہ الیکشن میں سیاسی مرکز بنا رھا ھے 5 لاکھ سے زائد آبادی پر مشتمل یہعلاقہ اب چترال اپر اور چترال لوئر دو اضلاع میں منقسم ھو چکا ہے ۔جھان انتخابات میں قومی اسمبلی این اے ون کی واحد نیشت ہے اور صوبائی اسمبلی میں پی کے ون اپر، پی کے ٹو لویر دو سیٹوں پر مشتمل ہے ۔ چترال ایں اے ون کی کل آبادی 515935 ،رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد 3 لاکھ 13 ہزار سے زائد ھے جس میں ایک لاکھ 44ہزار خواتین ووٹرز ہیں ۔اگر تاریخی حوالے سے دیکھا جائے تو ھر الیکشن میں چترال کو ھمشہ خاص اہمیت حاصل رھا ھے، 70 کے انتخابات میں اتالیق جعفر علی شاہ این اے اور قادر نواز صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے بعد میں صوبائی وزیر کےعہدے پر فائز رہے 77 کے الیکشن میں پیپلز پارٹی پہلی بار قوت کےساتھ سامنے آئے مولوی محمد ولی ایم این اے سید عبدالغفور شاہ اور قادر نواز صوبائی اسمبلی کے دونوں سیٹ اپنے نام کر دیے۔ ملک میں طویل عرصہ ماشل لا کے نفاذ کے بعد 88میں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر بیگم نصرت بھٹو نے لیگی رھنما شہزاد محی دیں مرحوم کے مقابلے میں کامیابی حاصل کر کے رکن قومی اسمبلی منتخب ھوئئن بعد میں یہ سیٹ خالی ھونے پر ضمنی انتخابات میں پیپلزپارٹی کے سید عبدالغفور شاہ مرحوم ایم این اے منتخب ھوے ۔90 میں شہہزادہ محی الدین، سید احمد خان ایم پی اے، 93 کے انتخابات میں جماعت اسلامی کے مولانا عبد رحیم مرحوم ایم این اے اور پیپلز پارٹی کے زین العابدین مرحوم ایم پی اے 97کے الیکشن میں شہہزادہ محی الدین 2002 میں مولانا عبدللاکبر چترالی ایم این اے مولانا عبد رحمان، مولانا جہانگیر اراکین صوبائی اسمبلی منتخب ھوے 2007 میں شہہزادہ محی الدین مرحوم ایم این اے حاجی غلام محمد مسلم لیک ق کی طرف سے منتخب ھوے جبکہ سلیم خان پیپلزپارٹی کے ایم پی اے بنے اور صوبائی وزیر کے عہدے پر فائز رہے ۔2013کے انتخابات میں شہہزادہ افتخار ایم این اے حاجی غلام محمد اور سلیم خان ایم پی اے منتخب ھوے ۔صوبے میں تحریک انصاف کی حکومت بنی تاہم عدالتی فیصلے کی روشنی میں چترال میں دوبارہ الیکشن میں غلام محمد کے مقابلے میں پیپلزپارٹی کے سید سردار حسین ایم پی اے بنے مگر پیپلزپارٹی کے دونوں اراکین تحریک انصاف حکومت میں اپوزیشن کا حصہ رھے۔جبکہ 2018میں مولانا ھیدایت رحمان ایم پی اے آور عبدللاکبر چترالی دوبارہ رکن قومی اسمبلی منتخب ھونے ۔ اس مرتبہ بھی پرانے نیے چہرے انتخابات میں حصہ لے رھے ہیں حلقۂ ایں اے ون کیلئے مسلم لیگ ن کے شہہزادہ افتخار جماعت اسلامی کے مولانا عبدللاکبرچترالی تحریک انصاف کے عبدالطیف جےیو ائ کے ھزاراہ سے تعلق رکھنے والے سید طلحہ محمود، پیپلزپارٹی کی طرف سے انجینئر فضل ربی جاں عوامی نیشنل پارٹی کی طرف سے خاتون رہنما خدیجہ بی بی قومی اسمبلی کے امیدوار ھیں جبکہ صوبائی اسمبلی پی کے ون سے تحریک انصاف کی جانب سے جنرل سیٹ پر ثریا بی بی تحریک انصاف پارلیمنٹرین کے حاجی غلام محمد پیپلز پارٹی کے سراج علی ایڈووکیٹ، جماعت اسلامی کے جاوید، جےیو ائ کے تشکیل خان مسلم لیگ ن کے محمد وزیر، آزاد امیدوار نوید سلطان، پیر مختار قسمت آزمائی کر رھے ہیں جبکہ پی کے ٹو لوہر چترال سے تحریک انصاف کی طرف سے مہتر چترال فتح علی ناصر پیپلزپارٹی کے سلیم خان جماعت اسلامی کے معفرت شاہ جےیو ائ کے فیض محمد تحریک انصاف پارلیمنٹرین کے شہہزادہ پرویز امیدوار ھیں ۔ الیکش میں پولنگ میں ایک ھفتے سے بھی کم وقت رہ گیا ہے دونوں اظلاع میں امیدوار بھر پور انتخابی مھم چلا رھے ہیں جبکہ تحریک انصاف پیپلزپارٹی کے امیدوار بڑے منظم طریقے سے اگے بڑھ رھے ہیں جبکہ جےیو ائ کے امیدوار طلحہ بھی اپنے لئے کافی حد تک گراونڈ بنا چکے ہیں اور کامیاب اجتماعات کر رھے ہیں ۔ اگرچہ امیدواروں کی جانب سے باہر سے اے ھوے طلحہ محمود کو نہ صرف تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے بلکہ مبینہ طور پر ووٹرز میں رقوم تقسیم کر نے کے الزامات عائد کیے جارہے ہیں البتہ الیکشن کمیشن نے ابھی تک کوئی نوٹس جاری نہیں کیا گیا ہے ۔دوسری جانب تحریک انصاف سے بالے کا نشان واپس لینے کے بعد امیدواروں کو مشکلات ضرور ھے مگر ان کی انتخابی مھم زور و شور سے جاری ہے ۔تاریخی طور پر بھی چترال کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے پہلے بھی باہر سے امیدوار انتخابات میں حصہ لے چکے ہیں ان میں بیگم نصرت بھٹو، پیار علی الانہ ،ڈاکٹر امجد وغیرہ نمایاں ہیں ۔ حلقہ میں پیپلزپارٹی، تحریک انصاف، مسلم لیگ ن کا ووٹ بینک موجود ھے البتہ جماعت اسلامی اور جےیو اکےاس بار اتحاد نہ ہو نے سے مشکل ضرور ہے مگر دونوں جماعتیں سخت محنت کر رھے ہیں ۔دوسری جانب تحریک انصاف کے نوجوانوں کے جذبے اور ھمداری کے ووٹ کو دیکھنے ھونے ان کے امیدوار بھی زیادہ پرامید ہیں البتہ یہ حقیقت بھی ے کہ لیول پلیئگ فیلڈ بھی ان کے راستے میں بڑی رکاوٹ ہے ۔تاہم علاقے کی معروضی حالات کو سامنے رکھ کر آزاد امیدواروں کی وجہ سے ووٹ تقسییم ضرور ھوں گے جسکے باعث کسی ایک امیدوار کے بارے میں حتمی رائے قائم کرنا قبل از وقت ھو گا اور 8 فروری کو اصل صورتحال واضح ھو گا البتہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ چترال کے ایک قومی اور صوبائی اسمبلی کے دونوں سیٹوں پر کاٹنے کا مقابلہ ھے۔۔