Mr. Jackson
@mrjackson
مضامین

تعارفی تقاریر اور وعدے”۔۔۔۔۔محمد جاوید حیات

ہر محکمے کا نیا سربراہ ،ہر ادارے کا نیا ہیڈ ،ہر وزیر کبیر ، ہر صدر ہر وزیر اعظم جب اپنی نئی ذمہ داریوں کو سنبھالتا ہے تو اپنے دفتر میں تعارفی نشست رکھتا ہے اس کے متعالقین جمع ہوتے ہیں اور اس کے چہرہ انور کو تکتے رہتے ہیں کہ صاحب اپنے مبارک منہ سے کیا گل افشانی کریں گے ۔اس کے دفتر کے جو تجربہ کار بابو لوگ ہوتے ہیں خواہ سکریٹری ہی کیوں نہ ہوں خواہ ان کا گریڈ بیس تک کیوں نہ ہو ؟ سر جھکاۓ اپنی تجربات کی دنیا میں محو ہوتے ہیں ۔۔ان کو پتہ ہوتا ہے کہ دفتروں کا کلچر کیا ہے صاحب کی مجبوریاں اور ترجیحات کیا ہوتی ہیں ان کا پیرامیٹر کیا ہے جس سے باہر نکلنے کے لیے الا بااسلطان کی ضرورت ہوتی ہے ۔ کیا صاحب کے اوقات ایسے ہیں کہ اس پیرامیٹر سے باہر نکل سکے ۔۔۔اپنے نئے دفتر میں بیٹھے نئے ڈپٹی کمشنر گویا ہوتاہے ۔ضلعے میں امن قاٸم کرنا،لوگوں کو سہولیات فراہم کرنا،قیمتوں پر کنٹرول کرنا ، ٹھیکہ داری سسٹم میں گھپلوں کاتدارک کرنا ،کمشن خوری کی لعنت سے نجات حاصل کرنا،رکے ہوۓ منصوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانااور عوام کی بے لوث خدمت کرنا ان کی اولین ترجیح ہے ۔بیٹھک ختم ہوتی ہے تو مافیاز کا جھتہ جوق در جوق أتا رہتا ہے ڈپٹی کمشنر صاحب اپنی تعارفی تقریر بھول جاتاہے اور بھول بھلیوں میں اپنا ٹینیور دو تین سال کا پورا کرتا ہے جب رخصت ہونے لگتا ہے تو ان کے پیچھے وہی کارگزاریاں ہوتی ہیں ۔قیمتوں میں وہی من مانیاں ،ادھورے کام وہی ادھورے ،کمشن خوری وہی کی وہی ،چاپلوسی چمچہ گری، دھندے ،کارستانیاں اسی طرح ۔۔۔صاحب اپنے پیش رو سے وفا کرکے چلے جاتے ہیں ۔یہی حالت نماٸندوں کا ہے ۔تعارفی تقریر میں عوام کی خدمت اولین ترجیح ہوتی ہے لیکن دوسرے لمحے عوام بھلاۓ جاتے ہیں توجہ ذات پہ أجاتی ہے ۔اپنی جاٸداد بنانی ہے ۔سرکاری گاڑیاں اپنے خاندان کو استعمال کرنا ہے ۔ٹھیکے شیکے رشتہ داروں میں بانٹنا ہے سفارش کارکن کی قبول کرنی ہے انصاف اور حق کا بیڑا غرق کرنا ہے ۔خدمت کا جذبہ تقریر سے واضح نہیں ہوتا ۔قربانی اپنی ذات سے شروع کرنا ہوتاہے ۔حضرت عمر بن عبد العزیز رض خلیفہ بنتے ہی اپنی بیوی سے کہتا ہے ۔۔اپنے زیورات شاہی خزانے میں جمع کرو ورنہ مجھ سے الگ ہونا ہوگا ۔۔یہی ایک جذبہ خدمت ہے ۔ایس پی سرکاری گاڑی میں اپنے بچوں کو پھراۓ اور ریفارم اور خدمت کی بات کرے ڈی سی دیسیوں قیمتی گاڑیاں ساتھ رکھے اور عوام کی خدمت کی بات کرے وزیر اعظم اے سی کمرے میں بیٹھ کر عوام کے دکھ کی بات کرے ۔۔وزیر کی بجلی کا بل ایک سو روپے آجاۓ اور ایک غریب دیہاتی کی چالیس ہزار آجاۓ تو یہ منافقت ہے خدمت نہیں ۔یہ لوٹیرے ہیں خادم نہیں ، یہ پتھر ہیں انسان نہیں ۔ان سے توقع نہیں ہوتی ۔۔وہ پتھر کا معاشرہ جنم دیتے ہیں وہ جنگل کا قانون لاتے ہیں خود درندے بنتے ہیں اور انسانیت کو چیر پھاڑ دیتے ہیں ۔انقلاب کی بنیاد بے چینی ہے انصاف کی بنیاد امن ہے جس کے پاس انصاف نہ ہو وہ امن کا دعوی دار کس طرح ہوسکتا ہے؟ ۔ڈپٹی کمشنر کمشن کو حرام سمجھے اپنی اولاد کو اس سے بچاۓ ۔ان کا خاندان صرف ان کی حلال تنخواہ پہ گزارا کرے ۔ان کی اولاد ٹیکسی یا ان کی ذاتی گاڑی استعمال کرے ۔وہ خاموش اپنے دفتر میں فائلوں میں جھت جاۓ ان کے سامنے حساب کتاب اور قبر کی زندگی ہو وہ کرپٹ ٹھیکہ دار کو الٹا لٹکاۓ وہ رشوت خور پولیس افیسر کا سر کچل دے وہ کام چور استاذ سے معاشرے کو پاک کرے تب خوشحالی آۓ گی اور۔یقینا اس کٹھن راستے میں اس کے لیے مشکلات ہونگی ۔اوپر سے پریشر آۓ گا وہ او ایس ڈی بنایا جاۓ گا مگر ان کی اولاد پھلے پھولے گی اس کو عافیت اور سکون کی زندگی میسر ہوگی اس کی قبر نور سے بھر جاۓ گا اس کے دل کو اطمنان حاصل ہوگا ۔وہ کبھی پنشن پہ نہیں جاۓ گا وہ لوگوں کے دلوں میں زندہ رہے گا۔ اس کی سادہ سی زندگی دوسروں کے لیے نعمت ہوگی ۔ان سے انسانیت کی محبت ہوگی ۔اس کی کوٸی تعارفی تقریر نہیں ہوگی اس کا حکم ہوگا ۔پھر اس حکم کا نفاذ ہوگا۔یہ ظلم اور نا انصافی کے آسمان پہ انصاف کا چاند بن کے نکلے گا ۔یہ گلشن انسانیت کے تارے ہوتے ہیں تارہ بننا کوٸی آسان کام نہیں دوسروں کو روشنی دینے کے لیے خود جلنا ہوتا ہے

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button