داد بیداد۔۔امن و امان کی طلب۔۔ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی

خبر آئی ہے کہ امن و امان ہر حال میں برقرار رکھا جائے گا پھر خبر آئی ہے کہ امن کے دشمنوں نے امن و امان میں خلل ڈال دیا دونوں خبروں کا یہ تسلسل اس طرح جاری رہتا ہے اسلامی تعلیمات میں امن و امان کو اللہ پاک کی نعمتوں میں سے بڑی نعمت قرار دیاگیا ہے سورہ قریش میں ذکر آیا ہے کہ اللہ پاک نے بھوک میں تمہیں کھانا کھلایا اور خوف میں امن دیا، سیدنا عمر فاروق ؓ اپنے خلافت کے دور میں رات کے وقت حالات سے باخبر ہونے کے لئے گشت کیا کرتے تھے ایک رات اکیلی عورت سامان کی پوٹلی اٹھائے سفر پرجاتے ہوئے انہیں ملی،امیر المومنین نے پوچھاکیارات گئے سفرپر جاتے ہوئے تمہیں خوف نہیں آتا؟ اُس نے جواب دیا کیا عمر فاروقؓ مرگیا ہے کہ میں خوف کے مارے باہر نہ نکلوں؟ اُس کے لئے یہی کافی تھا کہ عمر فاروق ؓ زندہ ہے ملک میں امن ہے مجھے کوئی گزند نہیں پہنچا سکتاآج لوگ ناروے، سویڈن اور دوسرے ممالک کی مثالیں دیکر امن کا ذکر کرتے ہیں امن و امان کی طلب سب کو ہے، جن قوموں نے اعتماد کا رشتہ قائم کیا وہاں امن قائم ہوا، جن قوموں کے اندر اعتماد کا رشتہ قائم نہیں ہوا وہاں امن نہیں آیا کیونکہ باہمی اعتماد امن کی بنیاد ہے ناروے کے دارالحکومت اوسلو کی ایک ٹریول ایجنسی میں انجان مسافر آتا ہے ڈرائیور کے بغیر گاڑی مانگتا ہے ایجنسی کا منیجر کسی ضمانت اور رہن وغیرہ کے بغیر40ہزار ڈالر کی گاڑی اُس کودے دیتا ہے وہ 10دن گھوم پھرکر گاڑی واپس لاتا ہے کرایہ دے کر خصت ہوتا ہے اور اچھے ممالک کی اچھی سوسائیٹی میں یہ معمول کی بات ہے بہت کم لوگوں کو معلوم ہوگا کہ یہ عہد فاروقی کا نمونہ ہے جب معاشرے میں لوگ ایک دوسرے پراعتماد کر تے ہیں آگے جاکر سب لوگ اپنی حکومت پراعتماد کرتے ہیں، عدالت پراعتماد کرتے ہیں اعتماد کایہ رشتہ امن کاضامن ہے دنیا میں جہاں حکومتوں کو استحکام حاصل ہوتا ہے جہاں حکومت کی پالیسیاں پچاس سالوں تک تبدیل نہیں ہو تیں جہاں قانون پچاس سالوں تک ایک جیسا رہتا ہے جہاں عدالت کا انحصار کسی ایک شخص کی ذاتی پسند اور نا پسند پر نہیں ہوتا وہاں سسٹم کام کرتا ہے سسٹم کی معمولی مثال یہ ہے کہ شہر کی 40لا کھ آبادی اور باہر سے آنے والے ہر مہمان کا پورا ڈیٹا (Data) یعنی حال احوال، نام نسب فون نمبر وغیرہ حکومت کے پاس موجود ریکارڈ یاڈیٹا بیس (Database) میں جمع ہوتاہے، کلوز سرکٹ ٹیلی وژن کا کیمرہ (CCTV) شہر کے کونے کونے پر نظر رکھتا ہے، چھوٹا یا بڑا واقعہ کیمرے کے اندر محفوظ ہوتاہے، واقعہ رونما ہونے کے 10سیکنڈ بعد ملزم پکڑا جاتا ہے پکڑے جانے کے بعد ایسی عدالت میں پیش ہوتاہے جہاں کوئی بڑاآدمی اس کوبچانے کے لئے نہیں جاسکتا اگر جائیگا تو وہ بھی سزا پائیگا اس کا نام سسٹم ہے یہ سسٹم کا ہارڈ وئیر یعنی نظر آنے والا حصہ ہے باہمی اعتماد اس سسٹم کا سافٹ وئیر یعنی روح اور جان کی طرح نظروں سے پو شیدہ حصہ ہے جو سسٹم کے اندر خون اور حرارت پیداکرتا ہے جس ملک میں دو گروہوں کے درمیان شدید جنگ میں ڈیڑھ سو شہریوں کی ہلاکت کے بعد پتہ لگ جائے کہ دونوں گروہوں نے لاکھوں راکٹ لانچر، لاکھوں اورکروڑوں کی تعداد میں دیگر آتشیں اسلحہ غیر ممالک سے لاکر ذخیرہ کرلیاہے تو اُس ملک کے سسٹم پرماتم کیاجاسکتاہے اتنی وافر مقدار میں اسلحہ جمع ہونے تک سسٹم کیاکررہا تھا؟اور دونوں فریق بھاری اسلحہ کی اتنی بڑی کھیپ کیوں ذخیرہ کررہے تھے؟ایک غیر ملکی سیاح امریکہ اوریو رپ یاچین اورجاپان میں گھو منے کے بعد کسی ایسے ملک میں داخل ہو جہاں بازاروں میں پولیس اور سیکیورٹی اداروں کے لوگ وردی میں کھڑے ہوں گاڑیوں کی تلاشی لے رہے ہوں، لوگوں سے تفتیش کررہے ہوں وہ غیر ملکی سیاح سو بار سوچےگا کہ اس ملک میں رہنا ہے یا نہیں اس ملک کی سیر کرنی ہے یانہیں اس ملک میں سرمایہ لگانا ہے یا نہیں اور سوچنے کے بعد وہ پہلی فرصت میں واپس جائیگا بازاروں اور سڑکوں پرہر ایک کی تلاشی لینے کا مطلب یہ ہے کہ اس ملک میں سسٹم کا وجود نہیں، ملکی شہریوں کا ریکارڈ دستیاب نہیں باہر سے آنے والوں کو ویزہ اور امیگریشن کلیرنس دیتے وقت ان کا نام ڈیٹابیس میں نہیں ڈالاگیا اس لئے چنگیز خان کے زمانے کا فرسودہ طریقہ آزمایا جارہا ہے امن و امان کی طلب وقت کی اہم ضرورت ہے اُس کے لئے باہمی اعتماد کے ساتھ فعال اور متحرک سسٹم کی بھی ضرورت ہے۔