مضامین

دھڑکنوں کی زبان………”چترالیت ابھی زندہ ہے "……… محمد جاوید حیات

میں چترالیت کو انسانیت ،انسانی خدمت اور شرافت سے تعبیر کرتا ہوں ۔جس چترالی کی ذات میں یہ اوصاف نہیں وہ چترالی کہلانے کا حق بھی نہیں رکھتا ۔چترالی بہت قدیم دور سے پشاور میں مقیم رہے ہیں اس دور سے وہ اپنے چترالی بھائیوں کی مقدور بھر خدمت کرتے رہے ہیں ۔اپنے رہنے کےکمروں اپنے گھروں اور ہوٹلوں میں جتنا بھی ہوسکتا تھا اپنے بھائیوں کی مدد اور خدمت کرتے رہے ہیں أج ماشا اللہ چترالی ہر محکمے میں اچھی اچھی پوسٹوں پرکام کر رہے ہیں اور چترالیوں کے مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل کر رہے ہیں ۔ہر ایک کی اپنی کیپیسٹی اور معیار ہوتا ہے اور خدمات کی نوعیت بھی ایسی ہی ہوتی ہے ۔سینما روڈ پشاور میں واقع مہران ہوٹل کے منیجر غوث علی شاہ اور ان کے ساتھی حیدر علی اس لحاظ سے منفرد ہیں کہ وہ ہمہ وقت اپنے ہوٹل میں مجبور چترالیوں کی خدمت کے لیے تیار رہتے ہیں ۔ان میں بیمار ،معذور ،بچے بوڑھے ،خواتین ہر قسم کے مسافر آتے ہیں ان کے ساتھ غوث علی شاہ کا رویہ گھر کے ہمدرد فرد جیسا ہے ان کی خدمت کو فرض سمجھتے ہیں ان کے لیے دوا دارو کا بندوبست کرنا ،ہسپتال جانے کے لیے ٹیکسی کابندوبست کرنا ،چترال جانے کےلیے ٹوڈی وغیرہ چھوٹی گاڑیوں کا انتظأم کرنا تاکہ بیمار ،بوڑھے ،کمزور اور بال بچوں والے اپنی فیملی کے ساتھ اپنی مرضی سے چترال کے لیےسفر کر سکیں غوث علی شاہ اور حیدر علی کی خدمات ہر ایک کے لیے ہیں اور بے لوث ہیں انھوں نےاپنی چترالیت برقرار رکھی ہے اپنے اچھے سلوک سے لوگوں کی دعائیں لے رہے ہیں ۔کسی زمانے میں پسماندہ چترال کے لوگ بڑی مشکل سے پشاور پہنچتے تھے اس لیے یہاں پرموجود چترالی ان کو اپنا بھائی سمجھ کر بلا تفریق ان کی خدمت کرتے تھے یہ چترالیوں کے با وفا ہونے کی پہچان تھی آج کل سہولیات ہیں مجبوریاں تقریباں کم ہیں ۔سفر میں آسانیاں ہیں اس کے باوجود مسافروں کو مسائل درپیش ہیں أگر ان کو حل کرنے والا مل جاۓ تو وہ محسن چترال کہلایا جاتا ہے ۔بعض ایسے مجبور افراد ہوتے ہیں جن کو پل پل مدد اور رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے ۔غوث علی شاہ اورساتھی اس لحاظ سے خوش قسمت ہیں کہ ان کو انسانیت کی خدمت کا موقع ملتا ہے پشاور میں موجود جن بھی ہوٹلوں میں کوئی چترالی بھائی ہے وہ بھی اپنی روایتی شرافت اورخدمت سے پیچھے نہیں ہے ہم جیسے لوگ جو پشاور میں ہوٹلوں میں ٹھکانہ لگاتے ہیں ہمیں یقینا ان کی مدد کی ضرورت ہوتی ہے ۔مہران ہوٹل کے کاونٹر کے ساتھ فرش پر ہمیشہ سامانوں کا ڈھیر رہتا ہے یہ ان مسافروں کے سامان رکھے ہوۓ ہوتے ہیں جو یہاں پر چھوڑ کر کہیں باہر گئے ہوۓ ہوتے ہیں یہ أن کی حفاظت کرتے ہیں ذمہ داری لیتے ہیں اور ان کو واپس حوالہ کرتے ہیں ۔مسافر رات چار بجے چترال سے پہنچتے ہیں أن کو کمرہ دیتے ہیں ان کو آرام پہنچاتے ہیں . ان کی دعائیں لیتے ہیں ۔ہوٹل میں اپنے ساتھ کام کرنے والےساتھیوں کو بھی خدمت کا استعارہ بنادیا ہے ۔۔سب کے ہونٹوں پہ مسکراہٹ پھیلی رہتی ہے اور امید کی کرن پھوٹتی رہتی ہے یہی انسانیت کا معیار ہے جو بندہ دوسروں کے لیے جینا سیکھے اللہ اس کےلیے آسانیاں پیدا کر دیتا ہے اس کے دونوں جہان سنور جاتے ہیں وقت ایک جیسا نہیں رہتا اور نہ کسی کی عیاشیاں دائمی ہیں اور نہ مجبوریاں ہمیشہ کی ہیں ۔ہم سب وقت کےہاتھوں مجبور ہیں ۔۔جو انسانیت کی خدمت کررہا ہے وہ دائم مسرتوں میں ہے اس کی زندگی خواہ جس معیار کی بھی ہے قیمتی ہے ۔غوث علی شاہ محسوس کرے یا نہ کرے وہ چترالیت کو زندہ رکھا ہوا ہے اس افراتفری کے دور میں لوگ اپنوں سے بھاگتے ہیں اچھے اچھوں کا خون سفید ہوگیا ہے لوگ محبت کو ترستے ہیں یہ غنیمت ہے کہ کوئی ہاتھ پکڑنے والا یے جس سے آس بندھتی ہے اس کےچہرےپہ پھیلی مسکراہٹ سوغات ہے ۔ایک انمول تحفہ جو ہر کسی کے پاس نہیں ہوتا ۔۔چترال کے مشہور شاعر بابا سیار نے اس لیے کہا تھا
حاجتے از ترش رو ہر گز نمی اید بدست ۔۔۔۔
دل کشائی ہر کجا از چہرہ خندان طلب۔۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button